اسلام آباد (فیصل ظہیر )پاکستان کے چین اور روس کی طرف جھکاﺅ کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ، اسی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورہ امریکہ کو سرکاری قرار دینے سے گریز کر تے ہوئے روٹین کا دورہ کہا ہے ،امریکی صدر اوبامہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے درمیان طے شدہ ملاقات تیس منٹ پر محیط ہو گی جس میں سے پندرہ منٹ پریس بریفنگ اور پندرہ منٹ میں بات چیت ہو گی جس میں سے زیادہ تر باراک اوبامہ ہی بولیں گے، امریکی صدر ممکنہ طور پر بھارتی اور جنوبی کوریا کی تحریک پر پاکستان کو چھوٹے ہتھیاروں پر ایٹمی وار ہیڈ بنانے سے باز رکھنے پر زور دینگے اور دوسرا ممکنہ طور پر پاکستانی ایٹمی میزائلوں کی رینج کم کر نے اور ان کو براعظم ایشیاءتک محدود کر نے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرینگے ، تیسراممکنہ نقطہ یہ ہو گا کہ پاکستان دہشتگر دی کیخلاف جنگ میں موثر کر دار اور طالبان کو افغانستان میں کارروائیوں سے روکنے پر پاکستانی کر دار ادا کر نے پر زور دینگے جبکہ امریکی صدر کولیشن سپورٹ فنڈز کے استعمال کا سوال بھی اٹھائینگے ، دوطرفہ میٹنگ میں سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی پر کوئی بات نہیں ہو گی اور نہ ہی امریکی صدر باضابطہ طور پر پاکستانی وزیر اعظم کے اعزاز میں عشائیہ یا ظہرانہ دینگے، جبکہ امریکی سیکرٹری کامرس کی جانب سے کھانے کی دعوت دینے کا امکان موجود ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر یہ نکات درست ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری کا ایک خوفناک دور شروع ہونیوالا ہے جو پاکستان کےلئے مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ۔