آئین پاکستان نے عدلیہ پربنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف عدلیہ کو انتظامیہ اور مقننہ سے الگ رکھا گیا ہے بلکہ آئین میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے پر بھرپور زور دیا گیا ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ عدل و انصاف کا عمل ملک میں وحدت اور اخوت کا باعث ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اختلاف یا غیر یقینی صورت حال میں تمام اداورں اور عوام کی نظریں ہمیشہ عدلیہ پر رہتی ہیں۔ عدلیہ نے اپنے طور پر حالات کے مطابق ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عوامی بہبود میں ایسا فیصلہ صادر کیا جائے جس سے غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی ہو اور معاشرے میں امن و انصاف کو فروغ ملے تاکہ جمہوریت اور ریاستی بنیادوں کو مضبوط کیا جاسکے۔ عدلیہ کے فرائض کی بطریقِ احسن ادائیگی میں بار کاہمیشہ اہم کردار ہوتا ہے۔ بار کی اعلیٰ معاونت کے بغیر جج صاحبان اپنی ذمہ داری سے بہتر طور پرعہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ اسی بنا پر ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بینچ اور بار میں مکمل ہم آہنگی اور تعاون کی فضا قائم ہو۔ انصاف کی گاڑی کے یہ دو پہیے ساتھ ساتھ چلیں اور اپنی مشترکہ منزل ِ مقصود ، یعنی فریقینِ مقدمہ کے مابین آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی ، کو پالیں ۔خطاب کے آخر میں چیف جسٹس نے پاکستان بارکونسل کے چیئرمین ایگزیکٹواحسن بھون کے تحفظات کابھی جواب دیاجس میں انھوں نے کہاکہ تما م معاملات کاپہلے ہی جائزہ لیاجارہاہے قانون کے مطابق ان کافیصلہ کیاجائیگا۔اس موقع پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اپنے پورے دور میں کوشش کی کہ تمام فیصلوں میں قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کر سکوں ،،اعلی عدلیہ میں بطور جج خدمات انجام دینے میں ساتھی ججز کا شکر گزار ہوں۔