میاں خالدروف بنام چوہدری محمد سلیم (پی ایل ڈی 2015سپریم کورٹ 348) میںآپ نے یہ قرار دیا کہ کریمنل لاءترمیمی ایکٹ 1958 کے سیکشن 10(2)کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ کسی بھی خصوصی عدالت کے جج کی جانب سے مجرم کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف متعلقہ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ صوبائی حکومت اور دیگر اشخاص کو اپیل داخل کرنے کا حق نہ ہے ۔ نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلکہ مجرم یا مدعی مقدمہ بھی ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔شاہد سرفراز بنام سرکار (پی ایل ڈی 2014سپریم کورٹ809) میں آپ نے قرار دیا کہ اگرچہ جرم کرتے وقت مجرم کی نیت یہ نہ ہو کہ اس سے حکومتی یا عوامی حلقوں میں خوف و ہراس پیدا ہو مگر اس سے زیادہ اور کیا سنگین جرم ہو گا کہ پہلے تو ایک نہتے لڑکے کو گولی ماری گئی اور پھر اس کی التجا کے باوجود کہ اُسے ہسپتال لے جایا جائے اسے وہیں پر مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔یقینا اس بے رحمانہ اقدام سے عوام میں خوف و ہراس اور احساسِ عدم تحفظ پیدا ہوا لہٰذا مجرم کو درست طور پر دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا دی گئی۔ غلام عباس بنام فیڈریشن آف پاکستان (2014 سپریم کورٹ منتھلی ریویو849) میں آ پ نے قرار دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افواج کے کسی مختار افسر کے حکم کو اگر وہ خلاف ضابطہ یا بدنیتی پر مبنی یا بغیر اختیار ِسماعت کے صادر کیا گیا ہو تو ایسے حکم کو پرکھنے کے لیے ہائی کورٹ کے اختیار سماعت کے سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 199(3) میں بیان کی گئی ممانعت کا اطلاق نہ ہوگا اورایسے حکم کو خلاف ضابطہ یا بدنیتی پر مبنی ہونے کی وجہ سے تو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا