ریاست کے تینوں ستوںعدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ کو اپنی حدود کے اند رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے،آئین پاکستان نے عدلیہ پر بھاری ذمہ داریاں عائد کی ہیں،،آئین میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے،جناب جسٹس عثمانی بطور جج ایسے بینچزمیں بھی شامل رہے ہیں جنہوں نے بہت سے اہم آئینی اور قانونی امور میں قابلِ ذکر فیصلے صادر کیے۔آپ بہت سے اہم آئینی معاملات کا فیصلہ کرنے والے لارجر بینچوں کا حصہ بھی رہے۔ ان میں پی سی او 2007ءکیس (سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام فیڈریشن آف پاکستان-پی ایل ڈی 2009سپریم کورٹ879)،پی سی او نظرثانی کیس(پرویز مشرف بنام ندیم احمد-پی ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ585)،توہین عدالت قانون کیس (باز محمد کاکڑ بنام فیڈریشن آف پاکستان – پی ایل ڈی 2012سپریم کورٹ 923) زیادہ نمایاں ہیں۔ یہاں پر میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ پی سی او2007ءکے بعد جناب عثمانی صاحب کو ستمبر 2008ءمیں پی سی او کے تحت نامزد کردہ چیف جسٹس کی سفارش پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اورآپ 31جولائی 2009ءتک بطور جج سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے مگر 31جولائی کو آپ نے خود ہی اس فیصلہ کی حمایت کی جس میں یہ کہا گیا کہ پی سی او کے تحت مقرر کردہ چیف جسٹس کی سفارش پر تعینات کیے گئے ججز کی تقرری غیرآئینی ہے۔ اس طرح آپ نے آئین و قانون کی بالادستی کی خاطراپنے عہدے کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیااور اس طرح آپ کا سپریم کورٹ میں تقدم مجروح ہوا مگر آپ نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ اس کے علاوہ جناب جسٹس عثمانی صاحب نے بہت سے دیگر گراں قدر فیصلے بھی صادر کیے ہیں۔ اس وقت آپکے تمام فیصلوں کا ذکر کرنا تو ممکن نہیںہے مگر میں یہاں ان چند اہم فیصلوں کا حوالہ دینا ضرروری سمجھتا ہوں جن سے آپ کی قانونی مہارت اور علمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔