واشنگٹن (نیوزڈیسک) وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فورم پر زوردار پریزنٹیشن دی اور ایسی تجاویز پیش کیں جن کی لازماً تعریف کرنا چاہئے، لیکن عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا جامع مقدمہ پیش کرنے کے دوران ایک بڑی غلطی بھی ہوئی ہے۔ جنرل اسمبلی سے کیا جانے والا خطاب وزیر اعظم کے 8 روزہ دورے کا نقطہ عروج تھا جس میں ان کے ساتھ ایک بڑا وفد تھا اور ساتھ ہی مناسب اور جاندار میڈیا ٹیم بھی تھی۔ لیکن برسوں تک میں اقوام متحدہ کے سیشنز کی کوریج کرتا رہا ہوں اور میں اس پوزیشن میں ہوں کہ میں پاکستانی رہنمائوں (سویلین اور ملٹری) کے دوروں اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتا ہوں، میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نواز شریف ٹیم کی مجموعی کارکردگی معیار سے نیچے رہی۔ مثال کے طور پر، وزیر اعظم صاحب کئی دن تک ہوٹل میں قیام پذیر رہے لیکن پاکستانی میڈیا یا پھر امریکی / بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت نہیں کی تاکہ مختلف ایشوز بالخصوص پاک افغان تعلقات اور پاک بھارت تعلقات پر پاکستان کا موقف پرزور انداز سے پیش کر سکیں ماسوائے اپنے خطاب کے بعد لندن روانہ ہونے سے چند منٹ قبل جب انہوں نے پاکستانی میڈیا سے بات چیت کی اور شکایت کی کہ آدھا میڈیا منفی رپورٹنگ کر رہا ہے۔ روزنامہ جنگ کے معروف صحافی شاہین صہبائی کی رپورٹ کے مطابق نوازشریف کی ٹیم کے ایک قریبی ممبر کا کہنا تھا کہ ’’وہ کھل کر بھارت پر تنقید نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘‘ نواز شریف صاحب کو پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرنے اور انہیں اپنے خیالات سے آگاہ کرنے سے کس نے روکا تھا، جیسے پرویز مشرف اپنے اقوام متحدہ کے دوروں کے موقع پر کیا کرتے تھے۔ یہ بات ایک ایسے موقع پر اہمیت رکھتی ہے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہر کسی سے ملاقات کیلئے جا رہے تھے تاکہ بھارت کو کاروبار کیلئے پیش کر سکیں اور سیلفیاں لیتے ہوئے پاکستان پر تنقید کر سکیں۔ اسی طرح خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے اور نہ ہی کسی اور نے اجلاس کے دوران میڈیا سے تواتر کے ساتھ رابطہ رکھا اور یہ اہم کام بیوروکریٹس پر یا پھر مستقل مندوب ملیحہ لودھی پر چھوڑ دیا گیا جنہوں نے سوالوں کے جوابات دینے کے معاملے میں اپنی بہترین کوشش کی لیکن ان کا مقابلہ وزیراعظم کی شخصیت کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بین الاقوامی میڈیا میں یا پھر نیویارک میں موجود اہم عالمی رہنمائوں پر ان کی بات کا اثر زیادہ ہوتا۔ اسی طرح نواز شریف صاحب نے تین اہم میٹنگز میں شرکت کیوں نہیں کی۔ ان میں سے ایک اجلاس برائے 2030ء کی افتتاحی تقریب تھی اور یہ اقوام متحدہ کے 70ویں اجلاس کا اہم ترین ایونٹ تھا۔ وزیراعظم صاحب نے صدر اوباما اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے عشائیے میں بھی شرکت نہیں کی اور اس تقریب میں شرکت کرکے وہ عالمی رہنمائوں کو اہم موضوعات پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کر سکتے تھے۔ اس کے بعد ہر بات اقوام متحدہ سے آخری خطاب پر رہ جاتی تھی اور یہ تقریر، جیسا کہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ، نواز شریف صاحب نے خود نہیں لکھی تھی بلکہ تمام اہم اداروں کی مشاورت اور مشورے سے لکھی گئی تھی۔ لہٰذا نواز شریف صاحب نے ایسا خطاب کرنا پڑا جس کے کچھ حصے اور اصطلاحات ان کو پسند تھے یا نہیں تھے۔ یہ بات بھی ایم معمہ ہے کہ انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پاکستان میں مداخلت کا معاملہ کیوں نہ اٹھایا۔ جن ’’دستاویزات‘‘ کے متعلق خارجہ سیکریٹری اور ملیحہ لودھی سے بار بار پوچھا گیا تھا وہ کہاں غائب ہوگئیں؟ جس جوش و جذبے کا اظہار وزیراعظم کے خطاب میں شامل تھا وہ جوش و جذبہ گزشتہ ہفتے کے دوران وزیراعظم اور ان کی اپنی ٹیم نے خود دکھایا ہوتا اور انہوں نے تمام فورمز میں اسی پرجوش انداز میں شرکت کرکے اخلاقی اور سیاسی اتھارٹی کے ساتھ موقف پیش کیا ہوتا تو اس کے ٹھوس اثرات میڈیا کے ساتھ اقوام متحدہ کے فورم پر دیگر عالمی رہنمائوں کے خطاب میں بھی نظر آتے۔ یہ بھی اہم سوال ہے کہ وزیراعظم کے خطاب کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آخری دن کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اس دن کے تعین کا فیصلہ کس نے کیا اور کیا ان کے خطاب کا انتظام ابتدائی دنوں میں کرانے کیلئے کوئی کوششیں کی گئی تھیں؟ جب نواز شریف صاحب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کیلئے تو اس وقت تک اہم عالمی رہنما نیویارک سے جا چکے تھے۔ بدھ کو جب انہوں نے خطاب کیا تو دیگر رہنمائوں کے ساتھ فہرست میں ان کا 13واں نمبر تھا اور فہرست میں ٹوگو، مالٹا، فجی، کوسٹا ریکا، کروشیا، برونائی، گھانا اور دیگر چھوٹے ملکوں کے رہنما شامل تھے۔ اس فہرست میں نسبتاً اہم رہنما فلسطینی صدر محمود عباس اور بنگلادیش اور ترکی کے وزیراعظم تھے۔ دوپہر کے سیشن میں بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں رہنمائوں نے خطاب کیا۔ یہاں ایک ہجوم تھا جہاں ہر کوئی جلدی میں پوڈیم تک آتا، 15 منٹ تک خطاب کرتا اور پھر اپنے گھر روانہ ہوجاتا۔ تو جب نواز شریف صاحب نے زبردست خطاب کیا تو اس وقت زیادہ تر کوشش اس بات کی تھی کہ معاملات کو ریکارڈ پر لایا جائے اور یہاں جوش و جذبے کا فقدان تھا جس کے ہونے سے عالمی برادری کو یہ دکھایا جا سکتا تھا کہ پاکستان اصل میں وہی کچھ چاہتا ہے جس کا اظہار آخری دن پر وزیراعظم نے آخری دن پر اقوام متحدہ سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔ اتنی مہنگی قیمت پر ہم اس سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے تھے۔