ہفتہ‬‮ ، 02 اگست‬‮ 2025 

بڈھ بیر حملہ کے دوران کابل سے ٹیلیفون کالز کی گئیں،سرتاج عزیز

datetime 21  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت لیڈی ہیلتھ ورکرز کو فوری طور پر مستقل کرے، لیڈی ہیلتھ ورکرز کو احتجاج پر مجبور کردیا گیا ہے، پنجاب میں بارہ اکتوبر سے احتجاج شروع کررہے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عز یز نے کہا کہ بڈھ بیر ایئربیس حملہ پہلا واقعہ نہیں جس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی، آرمی پبلک اسکول حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہی ہوئی تھی، پاکستان کی جانب سے شواہد دیئے جانے پر افغان حکومت نے اچھے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارروائی بھی کی تھی، تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں ہے اس لئے وہاں سے اس قسم کا حملہ ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڈھ بیر حملہ کے دوران کابل سے ٹیلیفون کالز کی گئیں ، ٹیلیفون کالز کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں، بڈھ بیر حملہ کی تحقیقات مکمل ہوتے ہی شواہد افغان حکومت سے شیئر کیے جائیں گے، افغانستان الزام لگارہا ہے پاکستان میں موجود کچھ غیرریاستی عناصر افغانستان میں حملوں میں ملوث ہیں، کابل کے نزدیک حملے کا الزام پاکستان میں بعض عناصر پر لگایا جارہا ہے، پاکستان نے افغانستان سے الزامات کے ثبوت مانگے ہیں تاکہ کوئی کارروائی کی جاسکے، افغانستان نے ابھی تک کوئی شواہد نہیں دیئے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو یقینی بنانا ہوگا کہ دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہو، افغانستان کے ساتھ ایک دوسرے کی سرزمین حملوں کیلئے استعمال نہ ہونے کا معاہدہ موجود ہے، افغانستان میں ہر واقعہ کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے، پاکستان تمام دہشتگرد تنظیموں کیخلاف بلاامتیاز کار رو ا ئی کررہا ہے، شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کا انفرااسٹرکچر تباہ ہونے سے ان کی افغانستان میں کار رو ا ئیو ں کی صلاحیت تقریباً ختم ہوگئی ہے، جو ایک آدھ گروپ باقی بچا ہے اس کیخلاف بھی کارروائی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ اعتماد کی فضا قائم کرنے کیلئے ملٹی پل میکنزم پر بات کی جارہی ہے، نیویارک میں افغانستان کے وزیر خارجہ سے ملاقات میں تمام باتیں ہوں گی،بڈھ بیر حملہ پر پاکستانی ایجنسیوں نے افغانستان سے رابطہ کیا ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ افغان حکومت بڈھ بیر حملہ میں ملوث ہے، افغان حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ پاکستان میں کارروائی نہیں ہو ،افغانستان میں ٹی ٹی پی اور ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف کارروائی کرتی ہیں، افغانستان سے جب شواہد شیئر کیے جائیں گے تو وہ اس بنیاد پر ان تنظیموں کیخلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔سینئر تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ اگر ہم اپنی کمزوریوں کا الزام افغانستان پر لگاتے رہے توا پنا ملک نہیں سدھار سکیں گے، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم افغانستان کو دوست یا دشمن کیا سمجھتے ہیں، پاکستان کو پچھلے ڈیڑھ سال میں افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ اٹھانا چاہئے تھا۔دفاعی تجزیہ کار شہزاد چوہدری نے کہا کہ پشاور ایئربیس حملہ کی منصوبہ بندی ضرور افغانستان میں ہوئی ہوگی لیکن ہمیں پاکستان کے اندرونی حالات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا،افغانستان کا امن پاکستان کیلئے ضروری ہے، پاکستان ، افغانستان سے پوچھ لے کہ اگر آپ سے یہ دو تین گروپ کنٹرول نہیں ہورہے تو کیا ہم آپ کی مدد کرسکتے ہیں، افغانستان میں موجود پاکستانی دہشتگرد ہمارے مرتد ہیں اور ہمیں ہی انہیں ہینڈل کرنا ہوگا، امریکا افغانستان کو بہت جلدی چھوڑ کر چلا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام پاکستان کی صدر رخسانہ انور نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو احتجاج پر مجبور کردیا گیا ہے، پنجاب میں بارہ اکتوبر سے احتجاج شروع کررہے ہیں، پولیو مہم کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمیں مجبور کردیا گیا ہے، حکومت لیڈی ہیلتھ ورکرز کو فوری طور پر مستقل کرے، حکومتوں نے ہمیں بارہا مستقل کرنے کا جھانسا دیا لیکن ہم آج بھی مستقل نہیں ہیں، زیادہ تر افسران گلو بٹ بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ابھی تک سول سرونٹس کا درجہ نہیں دیا گیا، ہمیں بھکاریوں کی طرح خیرات دی جاتی ہے، لیڈی ہیلتھ ورکرز کو صرف پنجاب میں چودہ ہزار روپے مل رہے ہیں ورنہ سندھ میں سات ہزار اور خیبرپختونخوا میں آٹھ ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، یہ پیسے بھی ہمیں کئی کئی مہینوں بعد دیئے جاتے ہیں۔ رخسانہ انور کا کہنا تھا کہ تمام حکمران اور سیاستدان اندر سے ایک ہیں، ان کا ایجنڈا ملک کو لوٹنا اور کرپشن کرنا ہے، حکمران پیسے بنانے میں مصروف ہیں ان کے پاس ہمارے معاملات پر دھیان دینے کا وقت ہی نہیں ہے، کیا ہم بھی اپنا کیس آرمی چیف کے سامنے رکھیں ، اگر ہم بھی آرمی چیف کے سامنے روئیں تو پھر حکمران کس چیز کی دوا ہیں۔ میزبان طلعت حسین نے پروگرام میں اہم نقطہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ سینیٹ کے اجلاس کے دوران سینیٹرز کی حاضری صرف 25 فیصد رہی جبکہ وزراء تو سینیٹ میں آنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں، وزراء کا یہی رویہ دوسری جگہوں پر نظر آتا ہے، اب وزیراعظم کا امریکا کا دورہ ہونے والا ہے اور تمام کابینہ بہترین کپڑے پہن کر ان کے ساتھ وہاں موجود ہوگی، عام حالات میں کوئی وزیر عمرہ کررہا ہوتا ہے تو کوئی کھانسی کی دوائی لینے کیلئے لندن گیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی کابینہ پاکستان کے اداروں کے سامنے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتی، حمزہ شہباز قومی اسمبلی کے دو سیشنز میں آئے ہی نہیں ہیں، وزراء اداروں کے ساتھ یہ جو کھیل کھیلتے ہیں اس کی وجہ سے اداروں کا تقدس خراب ہوتا ہے ، اگر ان اداروں کو اہمیت دینا ہے تو وزراء کی یہاں موجودگی بھی ضروری ہے اور ان کے سامنے جوابدہی بھی ضروری ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ماں کی محبت کے 4800 سال


آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…