اسلام آباد (نیوزڈیسک) وزیراعظم نواز شریف نے کاشتکاروں کے اجتماع سے اپنے دیروزہ خطاب میں اپنے بعض سیاسی حریفوں کا نام لئے بغیر کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور موجودہ حکومت اور انہیں ہٹا کر اقتدار پر فائز ہوسکیں میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ پاکستان کی فکر کریں دراصل وزیراعظم کا یہ محض جملہ معترضہ تھا جو روانی خطاب میں ادا تو کردیا جاتا ہے لیکن اسے کسی ایجنڈے کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ موجودہ حکومت کے مخالفین میں سے کئی ایسے ہیں جو روز اول سے ہی ملک کے اقتدار اعلیٰ پر براجمان ہونے کے تمنائی ہیں اس مقصد کے لئے انہوں نے بہت پاپڑ بیلے سیاسی دھرنا زیادہ پرانی بات نہیں تحریک انصاف کے سربراہ ہر روز اپنے کارکنوں کو یاد دلاتے تھے کہ وہ وزیر اعظم بن کر ان کے لئے آسمان کےتارے توڑ لائیں گے آپ کا وزیرا عظم ایسا ہوگا اور آپ کا وزیراعظم یہ کرے گا اور وہ کرے گا۔ یہ سب کچھ کہتے ہوئے وہ کہیں عام انتخابات کا حوا لہ نہیں د یتے تھے روزنامہ جنگ کے صحافی صالح ظافرکے تجزیہ کے مطابق بعض لوگوں نے تو یہاں تک انکشاف کیا ہے کہ وہ لندن میں اپنے بچوں سے کہہ آئے تھے کہ اب آئندہ ان سے ملاقات ایوان وزیرا عظم میں ہوگی خان نے خاتون اول بھی چن لی تھی بیاہ کے عہد و پیمان میں اس کے لئے طریق عمل بھی متعین ہوگیا تھا ایسے میں اگر وزیراعظم نواز شریف نے اپنے حریف کے حسن طلب کا تذکرہ کردیا ہے تو اسے اصل ہدف تک ہی مخصوص رکھنا چاہئے بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد سیاسی مبصرین اور بعض سیاسی دانشور اس نوع کے سیاسی جملوں کو اپنی پسند کے مطالب کا جامہ پہنا کر ٹھیک ٹھاک سیاسی عمارت کھڑی کرلیتے ہیں حالانکہ ان کی اکثریت کو بیان کے سیاق و سباق کا شعور ہوتا ہے بعض حضرات نے دور کی کوڑیاں لاتے ہوئے اس بیان میں توقعات اور امیدوں کی روشنی اپنے لئے ڈھونڈ نکالی۔ قومی اسمبلی میں سرکاری قائد حزب اختلاف نے بھی اس پر جملہ آرائی کی ہے اور اس میں خطرے کی بو سونگھنے کی کوشش کی ہے ان کا استدلال تھا کہ جمہوریت اور پارلیمان کے ہوتے ہوئے وزیراعظم کو کئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ ہوسکتا ہے