اتوار‬‮ ، 20 جولائی‬‮ 2025 

عمران خان کے 3کنفیوژن لندن پلان کے اسکرپٹ کا حصہ

datetime 27  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک)عمران خان کا اصرار جاری ہے کہ عدالتی کمیشن کو کیا تحقیقات ہونےکی ضرورت ہے کاذکرکئے بغیر، مزید تحقیقات کرنی چاہئےتھی ، وہ تین بنیادی کنفیوژن ، فارم XV کی گمشدگی،اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ریٹرننگ افسران کے کردار سے باہر نہیں آئے اور اب بھی ان کا اصرار ہےکہ کمیشن کو واقعاتی شہادتوں کی بناء پر فیصلہ کرنا چاہئے تھے، بہت کم جانتے ہیں کہ انتخابات 2013کے انکوائری کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوسرے درجہ کی شہادتوں کو بھی قبول کر لے گا، تحریک انصاف یا کسی اور جماعت کے لئے لازمی نہیں تھا کہ کسی شک سے بالاتر ثبوت پیش کریں، کمیشن ’’Balance of Probabilities‘‘ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کیلئے تیار تھا جو دوسرے درجے کی شہادت ہے مگر پی ٹی آئی کا دوران سماعت اصرار تھا کہ کمیشن صرف واقعاتی شواہد کی بناء پر فیصلہ دے جو بیشتر اس کے سیاستدانوں کے بیانات اور اس کے دو اینکر پرسنز کے ’’ خیالات‘‘ پر مبنی تھے،معروف تحقیقاتی صحافی احمدنورانی کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق یہ الگ کہانی ہے کہ انکوائری کمیشن کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی کے چیف اور رہنمائوں نے اپنے حامیوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کیلئے بلندبانگ دعوے کئے اور مختلف بیانات دیئے لیکن کمیشن کے سامنے ہمیشہ یہ درخواست کرتے رہے کہ واقعاتی شہادتوں کو قبول کیا جائے، اگرچہ ’’Balance of Probabilities‘‘کی اصطلاح عام نہیں ہے، پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین یہ کہہ کر اپنے کارکنوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ 3 ٹی او آرز کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیشن نے نظریہ ضرورت کو استعمال کیا اور یہ کمیشن کی رپورٹ کے پیرا 534میں واضح ہے۔ پیرا 534میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ کمیشن ’’Balance of Probabilities‘‘ سے کم درجے کے ثبوتوں کو قبول نہیں کرے گا، نتائج اور معاملے کی انتہائی اہمیت کا حوالہ دیا۔ ترین عوام کو الجھانے کیلئے اس اصطلاح کا مطلب نہیں بتا رہے جو درحقیقت دوسرے درجے کے شواہد ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن عام ثبوت بھی قبول کرنے پر تیار تھا اور کسی شک و شبہ سے بالاتر شواہد پر اصرار نہیں کیا تھا، جہانگیر ترین نے ان ٹاک شوز میں یہ بھی نہیں دہرایا کہ کمیشن کے سامنے پی ٹی آئی کا مؤقف تھا کہ بیانات اور ٹاک شوز پر مشتمل واقعاتی شواہد کو قبول کر لیا جائے، پی ٹی آئی لیڈروں کا اپنے اندرونی حلقوں میں کہنا ہے کہ پارٹی کا اصل مقصد کمیشن کی تشکیل، اس کی کارروائی کا حصہ بننا تھا تاکہ لندن پلان کے تحت ہونے والے ڈی چوک دھرنے کی ناکامی کے بعد عام آدمی کے ہاتھوں ہونے والی پریشانی سے بچنے کیلئے وقت گزارا جا سکے، اگرچہ عمران خان کی جانب سے کسی بھی ایسے لندن پلان کی تردید کی جاتی ہے،سیاسی حلقوں اور حکومت کے بااثر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے تین بنیادی کنفیوژن اور قومی میڈیا میں ان پر بار بار اصرار بھی اسی لندن پلان کے اسکرپٹ کا حصہ ہے جس کے لکھنے والے کو اب سب جانتے ہیں۔ واضح رہے کہ انکوائری کمیشن کے سامنے پی ٹی آئی کا مؤقف ہمیشہ سے اس سے مختلف رہا جو اس کے لیڈر اپنے کارکنوں اور نوجوانوں کو بتاتے، باہر اردو بازار بیلٹ پیپرز جسٹس افتخار چوہدری، جسٹس رمدے سیل، ایم آئی بریگیڈیئر جنگ جیو گروپ، آرمی چیف جنرل کیانی، ای سی پی کے ارکان ان کا نشانہ تھے، مگر کمیشن کے سامنے تحریک انصاف اپنے ان تمام الزامات سے دستبردار ہو گئی اور کمیشن سے واقعاتی شواہد کو قبول کرنے پر اصرار کرتی رہی کمیشن نے اس کا خصوصی ذکر اپنی رپورٹ کے پیرا526میں کیا ہے۔ کمیشن کی کارروائی اور عبدالحفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کے دلائل سے یہ قطعی واضح ہے کہ پی ٹی آئی پولنگ بیگز کے معائنے کی بناء پر فیصلہ چاہتی تھی جو اس کے مطابق بعض کیسز میں کھلے ہوئے تھے اور یہ احساس نہیں کیاکہ جب تک پولنگ کے دوران یا بعد بڑے پیمانے پر دھاندلی کی مخصوص شکایات نہ ہوں تو صرف کھلے بیگز کی بنیاد پر الیکشن کے منصفانہ ہونے سے متعلق فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے کہ دھاندلی ہوئی تھی یا اس کے پلان پر عمل ہوا تھا اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو ہر کوئی کھلے تھیلوں اور خراب بیلٹ پیپرز کو بنیاد بناکر الیکشن کالعدم قراردینے اورمنتخب جمہوری حکومت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے گا۔ اب پی ٹی آئی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کمیشن نے مکمل تحقیقات نہیں کی اور پولنگ بیگز کے معائنے کا حکم نہیں دیا حالانکہ وہ کمیشن پر اظہار اعتماد کر چکے تھے۔ وہ چار حلقوں کے بیگز نہ کھولنے کا الزام الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں کو اس کا آئینی اختیار ہی نہیں تھا۔ایک شخص ثبوتوں سے یہ بتاکر کہ کیا دھاندلی یا غیرقانونی کام ہوا؟ دھاندلی کا کیا طریقہ اپنایا گیا؟ اورکن مقامات (پولنگ اسٹیشنوں کے حلقے) پرہوئی؟ شکایت کرسکتا ہے جو پولنگ بیگز میں پولنگ کے سامان کے جائزے و چھان بین سے ثابت ہو سکتی ہے لیکن کسی باقاعدہ مطالبے، باقاعدہ شکایت اورثبوت کے بغیرتھیلے کھولنے کا مطالبہ نامناسب تھا ، الیکشن ٹریبونل میں اس کی پٹیشن کامعاملہ کمیشن میں ریکارڈ ہوا، تھیلے کھولنے کامطالبہ محض پی ٹی آئی رہنمائوں کے دعوئوں پرمبنی تھا، حال ہی میں این اے 125کا حوالہ تھیلے کھولنے کے جواز کے طورپر پیش کیاگیا، ایس فیصلے میں بتایا گیا کہ بیشتر بیگز کم کوالٹی کے تھے، چھوٹے تھے اورپولنگ میٹریل کوان تھیلوں میں تھکے ہوئے عملے نے ڈالا جو کام کے دبائو کے باعث تھک چکے تھے، انہوں نے اس سامان کو تھیلوں میں اس وقت بھرا جب وہ 18گھنٹوں (5بجے صبح سے شام تک سے مسلسل کام کررہے تھے، اس حقیقت سے ہرکوئی واقف تھا مگرتحریک انصاف نے اس کودھاندلی کے ثبوت کے طورپر پیش کیا جبکہ پولنگ کے دن کوئی شکایت نہیں تھی، پولنگ کا عمل مکمل ہونے اورگنتی کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کےپولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں نتائج کے کاغذ پر دستخط لئے جاتے ہیں، گنتی کسی بھی جانب سے شکایت کے بغیر مکمل ہوئی ہو تو کئی ماہ بعد پولنگ کے تھیلوں کی حالت انتخابی نتائج پرکیسے اثر انداز ہوسکتی ہے مگر یہ نوجوانوں کو مذموم مقاصد کیلئے بے وقوف بنانے کیلئے اچھا ہتھکنڈہ ہے ۔تحریک انصاف کے سربراہ کی تین نہ سمجھ میں آنیوالی باتیں اور ان پر تحریک انصاف کا موقف درج ذیل ہیں، کہ تحریک انصاف نے کمیشن کے سامنے کیا کہا ، پی ٹی آئی نے اپنے حامیوں کو کیا بتایااور حقائق اور کمیشن کا موقف کیا ہے۔ 1) گمشدہ فارم 15، مذکورہ فارم بیلٹ پیپرز کی گنتی بیان کرتا ہے ۔ ابتدائی طور پر تحریک انصاف کے قائد یہ سمجھ نہ سکے، اور اگر بیلٹ پیپرز کا غلط استعمال ہوا بھی تھا تو اس ضمن میں پورے ملک سے ایک شکایت تودرج ہوتی ، لیکن ایسی ایک شکایت بھی سامنے نہیں آئی ۔ اس بارے میں عمران خان کا ایک متعلقہ الزام بہت ٹھوس ثابت ہوسکتا تھا کہ بیلٹ پیپرز لاہور کے اردو بازار میں شائع ہوئے، تاہم انہوںنے تحریک انصاف کے نوجوانوں اور کارکنوں کو بتائے بغیر کمیشن کے سامنے اس الزام کو واپس لےلیا، کیونکہ یہ سفید جھوٹ تھا۔ اگر تحریک انصاف کے قائد اپنے مطالبے پر قائم رہتے تو کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی جانچ پڑتال کا حکم دیا جاتا اور فرانزک جانچ کے دوران ایک بھی بیلٹ پیپر کا اردو بازار میں چھپنا ثابت ہوجانا الیکشن کی شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا کردیتا۔ لیکن تحریک انصاف نے یہ الزام واپس لے لیا۔ جب کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ کمیشن کے دائرہ کار کے تحت الزامات عائد کریں اور انہی کے تحت ان کے شواہد بھی فراہم کریں ، لیکن تحریک انصاف ملک بھر میں فارم 15 کی جانچ پڑتال کے ایک غیر متعلقہمطالبہ لےکر آئی ۔ کمیشن نے یہ مطالبہ تسلیم کیا اور معلوم ہوا کہ کئی کیسز میں فارم 15نہیں ملے۔ سوال یہ پیدا ہوتاکہ آیا فارم 15(جس میں استعمال شدہ ، غیر استعمال شدہ یا ضائع ہوجانے والے بیلٹ پیپرز کا اندراج ہوتا ہے) کے گمشدہ ہونے سے اس وقت دھاندلی کی کوئی نظیر ملتی ہے جبکہ استعمال شدہ، غیر استعمال شدہ اور ضائع ہوجانے والے بیلٹ پیپرز کا مکمل ریکارڈ موجود ہو اور اس میں کوئی بھی تضاد نہ ہو؟ اگر پولنگ کا تمام ریکارڈ موجود ہو اور درست ہو تو محض فارم 15کو جمع کرنے کی کوئی افادیت نہیں ہے ، اہم بات یہ ہےکہ پولنگ کے روز جعلی بیلٹ پیپرز کے استعمال یا انکے غلط استعمال کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔ دوسری جانب تحریک انصاف بھی اردو بازار سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے الزام سے دستبردار ہوئی۔ کمیشن کی کارروائی کے دوران تحریک انصاف کے قانونی ماہرین سمیت دیگر قانونی ماہرین پر واضح تھاکہ پولنگ کے روز کے بعدفارم 15کا گمشدہ ہونا ، یا کسی بھی ریکارڈ کا نہ ملنا، یا پولنگ بیگس کھلوانے کی کوئی اہمیت نہیں ہےبلکہ اس سے مستقبل میں ایک غلط مثال قائم ہوسکتی ہےکہ جس کے تحت فارم 14اور 15یا ریکارڈ کو غائب کرواکرحکومت کو برطرف کرانے کی کوشش کی جائے۔ تما م پولنگ اسٹیشنز میں تمام سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو فارم14اور15فراہم کیے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اگر پولنگ اسٹیشنز میں کسی جماعت کے پولنگ ایجنٹس نہ بھی ہوں تو بھی وہ اس کی شکایت نہیں کرسکتی۔ اگر فارم 15گمشدہ ہو ں تو تحریک انصاف کو اپنی پارٹی ریکارڈ سے فارم 15کے ساتھ سامنے آنا چاہیےاور ان مقامات کی نشاندہی کرنی چاہیے جہاں پر تضادات سامنے آئے ۔ عمران خان کو اس تذبذب سے نکلنا چاہیے کیونکہ یہ بہت سادہ بات ہے۔ 2) (اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی)،مختلف جماعتوں کی جانب سے جیتی جانیوالی دس سے کم نشستوں پر غیر معمولی تعداد میں اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی ثابت ہوئی ، کمیشن نے اس الزام کو تفصیلی بحث کرنے کے بعد مسترد کردیا ۔ یہ واضح ہےکہ تحریک انصاف اردو بازار سے بیلٹ پیپرزکی چھپائی کے الزام سے دستبردار ہوگئی تھی اور دھاندلی کو ثابت کرنے کیلئے اضافی بیلٹ پیپرز کے استعمال کو ثابت کرنا ہوتا ہے جوکہ کسی بھی کیس میں سامنے نہیں آیا، یہ بات اہم ہےکہ تحریک انصاف کی جانب سے بیلٹ پیپرز کے غلط استعمال کی ایک بھی شکایت درج نہیں کی گئی ۔ ایسی صورتحال میں اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کس طرح دھاندلی کا موجب بن سکتی ہے جبکہ بقیہ غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز اب بھی موجود ہوں اور اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی معمول کی بات ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے اس تذبذب سے باہر نکلنا نسبتاً آسان ہے کیوں کہ ان کی جماعت عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے قبل ہی اس حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرچکی ہے۔ 3)پاکستان پیپلز پارٹی کےشریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے مخصوص انداز میں 2013 کے عام انتخابات کو ’’آر اوز‘‘ کے انتخابات قرار دیا تھا۔ یہ بیان زرداری کیلئے ضروری تھا کیوں کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا ان انتخابات میں مختلف حلقوں میں صفایا ہوگیا تھا۔ اسکرپٹ لکھنے والوں نے یہ خیال پی ٹی آئی کے سربراہ تک بھی پہنچایا۔ انتخابی عمل، ووٹ ڈالنے کے مراحل، ووٹوں کی گنتی اور باقی بچ جانے والے بیلٹ پیپرز کی مختلف پولنگ اسٹیشنز میں تمام سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے گنتی کے عمل کو سمجھے بغیر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے یہ الزام لگانا شروع کردیا کہ ریٹرننگ آفیسرز نے دھاندلی کی، کیوں کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انہیں ایسا کرنے کیلئے کہا تھا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اپیکس کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے بھی آر اوز کو دھاندلی کرنے کی ہدایات کی تھیں۔پی ٹی آئی چیف کے پاس الیکشن میں ریٹرننگ آفیسرز کے کردار کو سمجھنے کا اب بھی وقت ہے۔ عمران خان کو ریٹرننگ افسران کی جانب سے انتخابی نتائج کو اکھٹا کرنے کے عمل اور اس کے مطلب کو سمجھنا ہوگا۔ درحقیقت ووٹ ڈالنے اور ووٹوں کی گنتی کے عمل میں آر اوز کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ عمل تمام سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ہوتا ہے۔ ریٹرننگ افسران ان دو مراحل پر کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتے۔پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشن سے ہی انتخابی نتائج کا اعلان کردیا جاتا ہے، یہی نتائج سیاسی جماعتیں اور میڈیا بھی جاری کردیتے ہیں، ذرائع ابلاغ خود بھی انتخابی نتائج کو اکھٹا کرتے ہیں۔یہ عمل مکمل ہونے اور فارم 14 اور فارم 15 پولنگ ایجنٹس کے حوالے کرنے کے بعد پریزائڈنگ افسر کو باقی بچ جانے والا انتخابی سامان ریٹرننگ افسر کو واپس کرنے اس کے پاس جانا ہوتا ہے جو کہ محض ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے کیوں کہ نتائج تو پہلے ہی مرتب کرکے جاری کیے جاچکے ہوتے ہیں۔ صورتحال اس وقت تشویش ناک ہوسکتی ہے کہ جب پولنگ اسٹیشن سے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی جانب سے اکھٹا کیے جانے والے نتیجے اور ریٹرننگ افسران کی جانب سے مرتب کردہ نتائج میں فرق آجائے۔ 2013کے انتخابات میں ایسا ایک بھی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ یہ پی ٹی آئی کے چاہنے والوں اور نوجوانوں کیلئے دھچکا ہے، پی ٹی آئی نتائج میں ہیر پھیر کے حوالے سے آر اوز پر کیچڑ اچھالتی رہی ہے لیکن ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کرسکی جس میں ریٹرننگ افسران کی جانب سے نتائج میں ردوبدل کیا جانا ثابت ہوتا ہو۔ ریٹرننگ افسران پر ہزاروں بار الزام تراشی کرنے کے باوجود اب تک عمران خان کسی بھی ایک ریٹرننگ افسر کیخلاف نتائج کو تبدیل کرنے کا کوئی ثبوت یا اس کیخلاف کوئی شکایت سامنے نہیں لاسکے۔ یہی سب سے سادہ تذبذب تھا۔



کالم



نیند کا ثواب


’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…