پیزادہ نے کہا کہ محمود خان اچکزئی کیس میں کہا تھا کہ بنیادی آئینی ڈھانچے کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی مگر بعد کے فیصلے میں کچھ اور کر دیا گیا تھا ۔ امریکی معاشرہ اب نیا نہیں رہا اب انہیں سیکیورٹی کے معاملات کے لئے کئی اقدامات کرنا پڑے ہیں ۔ جسٹس ( میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ریاست کو لاحق خطرہ کیا آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ) کیا اس نظریئے کے تحت آئینی ترمیم کی توثیق کی جا سکتی ہے ۔ ( جسٹس آصف نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ آپ کا کوئی اختیار نہیں اور کہا کہ آپ عدلیہ کی آزادی کی وجہ آئینی ترمیم ختم نہیں کر سکتے ) ۔ پیرزادہ نے کہا کہ یہ آئینی ذمہ داری آپ کو آئین نے دی ہے ۔ آپ کو استمعال کرنا ہے ۔( جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ریاست کو خطرہ ہے کیا اس خطرے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے آئینی ترمیم ہو سکتی ہے یا اس خطرے کے پیش نظر ترمیم کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔) پیرزادہ نے قرار داد مقاصد پڑھ کر سنائی کیا ریاست غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے آئین سازی کر سکتی ہے ۔ کیا اس مکل پر غیر منتخب افراد کی حکومت آ سکتی ہے ۔ عوام کے منتخب نمائندے ہی حکومت کر سکتے ہیں اگر آپ اس کے خلاف جائیں گے تو یہ بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو گی ۔ (جمہوریت مساوی حقوق ، سماجی انصاف اور تمام تر حقوق کا تحفظ کرنے کا نام ہے ۔ ملسمانوں نے قرآن و سنت کے مطابق جبکہ اقلیتوں نے اپنے مذہب کے مطابق ہی عبادت اور دیگر فرائض سرانکام دینا ہے ۔ )۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی آپ نے اقلیتوں کا تحفظ کرنا ہے ۔ بنیادی حقوق کا تحفظ بھی آپ کی ذمہ داری ہے ۔ آرٹیکل 8 میں ہر بات واضح ہے ۔ ( جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وکلاءمحاذ کیس میں قانون میں ترمیم آئین میں ترمیم سے مختلف ہے اور یہ پہلو پہلی بار 1969 میں اختیار کیا گیا ۔ اس وجہ سے بھارتی آئین میں ترمیم کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ قانون میں ترمیم کو آئین میں ترمیم میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔