بدھ‬‮ ، 22 جنوری‬‮ 2025 

اسی طرح

datetime 23  جنوری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا جاتا تھا اور یہ بات درست بھی تھی‘ من موہن عام بھارتی شہری سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر خزانہ بن گئے تھے لیکن یہ کبھی وزیراعظم بھی بنیں گے یہ انہوں نے کبھی سوچابھی نہیں تھا‘ کیوں؟ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں‘

پہلی وجہ ان کا سکھ ہونا تھا‘ 1984ء میں اندرا گاندھی کو ان کے سکھ سیکورٹی گارڈز نے قتل کر دیا تھا جس کے بعد دہلی میں سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا‘ اس سے قبل اندرا گاندھی نے سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پر فوج چڑھا دی تھی لہٰذا نہرو خاندان سکھوں کو ناپسند کرتا تھا اور سکھ نہرو فیملی اور کانگریس سے نفرت کرتے تھے لہٰذا ان حالات میں کانگریس کی طرف سے کسی سکھ کو وزیراعظم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ دوسرا وزارت عظمیٰ طویل عرصے سے نہرو فیملی میں رہی تھی‘

راجیو گاندھی کے بعد ان کا صاحب زادہ راہول گاندھی تیار تھا چناں چہ کسی دوسرے کو وزیراعظم کیوں بنایا جاتا لیکن کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے2004ء میں الیکشن جیتنے کے بعد اچانک من موہن سنگھ کو کولیشن گورنمنٹ کا وزیراعظم نامزد کر دیا جس نے من موہن سنگھ کے ساتھ ساتھ پورے بھارت کو حیران کر دیا یوں سردار جی حادثاتی طور پر وزیراعظم بن گئے‘ آج جب 2004ء کی بھارتی سیاست کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو مورخ یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے راہول گاندھی کی عمر اس وقت محض 34سال تھی‘ سونیا گاندھی کا خیال تھا راہول گاندھی کم عمر اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے کولیشن گورنمنٹ نہیں چلا سکے گا‘ دوسرا ان کا خیال تھا وہ اور ان کا بیٹا پارٹی سنبھالیں گے‘

اگلے الیکشن میں اکثریت حاصل کریں گے اور یوں نہرو فیملی کا اقتدار نہرو فیملی کو واپس مل جائے گا لیکن سونیا گاندھی کا یہ منصوبہ کام یاب نہ ہو سکا اور راہول گاندھی وزیراعظم نہ بن سکا‘ بہرحال ہم اب اصل ایشو کی طرف آتے ہیں۔ من موہن سنگھ نے 22مئی 2004ء کو اقتدار سنبھالتے ہی اپنے سیکرٹری کو دس لوگوں کی لسٹ دی اور حکم جاری کیا یہ لوگ جس وقت چاہیں مجھ سے مل سکتے ہیں اور فون پر بھی بات کر سکتے ہیں‘ سیکرٹری فہرست دیکھ کر حیران رہ گیا کیوں کہ اس میں بھارت کے دس ٹاپ بزنس مینوں کے نام تھے‘ اس زمانے میں پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی صنعت کاروں اور بزنس مینوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا‘

انہیں پیسے کا پوت کہا جاتا تھا اور سیاست دان بالخصوص وزراء ان سے ملاقات سے کتراتے تھے‘ سیکرٹری نے ادب سے سمجھانے کی کوشش کی ’’سر اس سے آپ پر بہت الزامات لگیں گے‘‘ من موہن سنگھ یہ سن کر ہنسے اور پھر بولے ’’بھارت کو بھارت یہ بزنس مین بنا رہے ہیں‘ یہ ہمارے محسن ہیں‘ یہ اگر کام نہیں کریں گے تو آپ کو تنخواہ ملے گی اور نہ مجھے اور نہ عام آدمی پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے گا چناں چہ بھارت کے وزیراعظم کے دروازے اپنے محسنوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہنے چاہییں‘‘۔اس حکم کے بعدوزیراعظم اگلے دس سال دس بڑے بزنس مینوں کے لیے ہمیشہ دستیاب رہے لہٰذا ہمیں یہ ماننا ہو گا آج اگر بھارت دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے یا اس میں 334بلینئریز ہیں تو یہ من موہن سنگھ کے اس چھوٹے سے فیصلے کا نتیجہ ہے‘ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا تھا‘ من موہن سنگھ نے 1992ء میں پہلی بار وزیر خزانہ کی حیثیت سے شائننگ انڈیا کا پراجیکٹ شروع کیا تھا‘ اس نے اپنی معیشت کو لبرل بنایا تھا‘ صنعتوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا تھا اور اس کا پھل آج نریندر مودی اور بھارت کے لوگ کھا رہے ہیں۔

من موہن سنگھ حقیقتاً ایک وژنری انسان تھے‘ چکوال کے قریب گاہ گائوں میں پیدا ہوئے‘ 1947ء میں بلوایوں نے ان کے دادا کو قتل کر دیا‘ یہ اس وقت 15سال کے لڑکے تھے‘ یہ واقعہ ان کے ذہن میں بیٹھ گیا اور پوری زندگی نکل نہیں سکا‘ ان کا خاندان بھارت نقل مکانی پر مجبور ہوا‘ شروع کی زندگی بہت کٹھن تھی مگر خاندان محنت کرتا رہا‘ من موہن سنگھ نے پوری زندگی سکالر شپ پر تعلیم حاصل کی‘ آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی‘ بین الاقوامی اداروں میں کام کیا‘ 1970ء کی دہائی میں بھارت واپس آئے اور کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت میں کام شروع کر دیا‘ چیف اکنامک ایڈوائزر بنے‘ انڈین ریزرو بینک کے گورنر رہے اور پلاننگ کمیشن کے چیئرمین بنے‘ زندگی اچھی گزر رہی تھی لیکن 1991ء میں ان کی زندگی میں میجر شفٹ آئی‘ نرسیما رائو وزیراعظم بن گئے‘

بھارت اس وقت شدید معاشی مسائل کا شکار تھا اور وزیراعظم کو ایک ایسا وزیر خزانہ چاہیے تھا جو ’’آئوٹ آف باکس‘‘ سوچ سکے اور اس وقت پورے سسٹم میں من موہن سنگھ سے بہتر کوئی شخص دستیاب نہیں تھا لہٰذا نرسیما رائو نے انہیں وزیر خزانہ بنا دیا‘ من موہن سنگھ نے یہ پیش کش صرف ایک شرط پر قبول کی اور وہ یہ تھی کہ وزیراعظم انہیں ان کی مرضی سے کام کرنے دیں گے‘ یہ شرط مان لی گئی‘ اس زمانے میں میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے‘ میاں صاحب نے دو کام شروع کیے تھے‘ موٹر وے بنانے کا اعلان کیا تھا اور معیشت کی لبرلائزیشن شروع کی تھی‘ من موہن سنگھ کو یہ اپروچ اچھی لگی‘ اس وقت جے این ڈکشت پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر تھے‘ من موہن سنگھ نے انہیں دہلی بلایا اور پاکستان میں ہونے والی معاشی اصلاحات پر بریفنگ لی‘

اس زمانے میں پاکستان اور بھارت دونوں کے فارن ریزروز دو ارب ڈالر تھے یعنی بھارت کے خزانے میں بھی دو ارب ڈالر تھے اور پاکستان کے پاس بھی دو ارب ڈالر تھے‘ من موہن سنگھ ایک دن دونوں ملکوں کی بیلنس شیٹ لے کر وزیراعظم کے پاس چلے گئے اور ان کو بتایا ہم سے چھ گنا چھوٹا ملک معیشت میں ہمارا مقابلہ کر رہا ہے اور یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے‘ وزیراعظم نے ان سے اس کا حل پوچھا‘ من موہن سنگھ کا جواب تھا ’’ہمیں بھارت کا ایک ایسا معاشی آئین بنانا ہوگا جسے کوئی چھیڑ نہ سکے‘‘ ان کا کہنا تھا ہمیں اپوزیشن‘ فوج‘ بیوروکریسی اور چیف جسٹس کو اکٹھا بٹھا کر ایک ایسا فارمولا بنانا چاہیے جس میں اگلے بیس سال تک کوئی تبدیلی نہ کی جا سکے ہم پھر ترقی کر سکیں گے ورنہ ہم ایک ارب لوگوں کی روٹی پوری نہیں کر سکیں گے‘‘ نرسیما رائو کو یہ بات ٹھیک لگی چناں چہ انہوں نے انہیں اجازت دے دی‘

من موہن سنگھ نے اس کے بعداگلے20سال کا معاشی ایجنڈا بنایا‘ وزیراعظم نے اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو لوک سبھا میں اکٹھا کیا‘ بزنس مینوں‘ صنعت کاروں‘ پروفیسرز‘ بیوروکریٹس اور ججوں کو بھی پارلیمنٹ میں بٹھایا گیا‘ دھواں دھار تقریریں ہوئیں‘ لوگوں نے ایک دوسرے کے گریبان تک پھاڑنے کی کوشش کی لیکن آخر کار تمام لوگ 20 سالہ معاشی ایجنڈے پر رضا مند ہو گئے‘ یہ من موہن سنگھ کی بہت بڑی اچیومنٹ تھی‘ اس ایک فیصلے نے بھارت کا مقدر بدل کر رکھ دیا۔
اٹل بہاری واجپائی اس زمانے میں اپوزیشن لیڈر تھے ‘ وہ بھی من موہن سنگھ کا احترام کرتے تھے اور من موہن سنگھ بھی‘ نرسیما رائو کے زمانے میں وزارت خزانہ نے کھاد کی قیمت میں چار روپے اضافہ کر دیا‘ بھارت کے کسانوں نے اس پر وبال کھڑا کر دیا‘ اپوزیشن نے یہ معاملہ اٹھا کر پارلیمنٹ کو مچھلی منڈی بنا دیا‘ میڈیا نے بھی وزیر خزانہ کے لتے لینا شروع کر دیے‘ من موہن سنگھ نے قیمتیں کم کرنے سے انکار کر دیا‘ وزیراعظم عوامی دبائو میں آ گئے اور انہوں نے وزارت خزانہ پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا‘ من موہن سنگھ نے وزیر خزانہ بنتے وقت وزیراعظم سے وعدہ لیا تھا یہ ان کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے چناں چہ سردار نے استعفیٰ دے دیا اور جا کر گھر بیٹھ گئے‘ وزیراعظم نرسیما رائو نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر یہ نہ مانے‘ آپ بھارتی حکمرانوں اور سیاست دانوں کا کمال دیکھیے‘ وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی اور انہیں من موہن سنگھ کے گھر بھجوا دیا‘ آپ اب صورت حال دیکھیے‘

کھاد کی قیمتیں وزیر خزانہ نے بڑھائیں‘ ایشو اپوزیشن نے اٹھایا اور اپوزیشن کے دبائو کی وجہ سے وزیر خزانہ نے استعفیٰ دے دیا‘ یہ اپوزیشن کی سیاسی کام یابی تھی اور واجپائی صاحب کو اس کا ڈھول بجانا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس وزیراعظم کی درخواست پر وزیر خزانہ ان کے گھر گئے اور انہیں استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کرنے لگے‘ واجپائی اور من موہن سنگھ کے طویل ڈائیلاگ کے بعد یہ طے ہوا وزیر خزانہ اضافے میں سے دو روپے کم کردیں گے‘ اس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی عزت بچ جائے گی اور کسانوں کو بھی فائدہ ہو جائے گا‘ من موہن سنگھ نے اگلے دن قیمتوں کے اضافے سے دو روپے کم کر دیے اور یوں واجپائی کی وجہ سے یہ معاملہ نبٹ گیا۔

آپ نے یہ دونوں واقعات پڑھے‘ آپ اب دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر پاکستان میں آج کی حکومت کو آج کی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کا بیس سال کا ایجنڈا طے کرنا پڑے تو کیا یہ کریں گے اور دوسرا سوال اگر ہمارے وزیرخزانہ اورنگ زیب مستعفی ہو رہے ہوں تو کیا میاں شہباز شریف کی درخواست پر عمر ایوب یا عمران خان ان کے گھر جا کر انہیں راضی کریں گے؟ آپ کا جواب یقینا ناں ہو گا اور ہم آج اس ناں کی وجہ سے عالمی دوڑ میں پیچھے ہیں اور بھارت ہم سے بہت آگے ہے اور آپ یقین کریں ہم جب تک اپنے سسٹم میں من موہن سنگھ جیسے لوگ تلاش نہیں کریں گے اور واجپائی اور نرسیما رائو جیسے بڑے دل پیدا نہیں کریں گے ہم اس وقت تک اسی طرح دردر بھیک مانگتے رہیں گے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اسی طرح


بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…