بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک پہاڑ کو لہٰذا ریکوڈک ریتلے پہاڑوں کا علاقہ ہے‘ یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع چاغی کا حصہ ہے‘ افغانستان کی سرحد اس سے 30 کلومیٹر جب کہ ایران کا تفتان بارڈر 100 کلو میٹر دور ہے‘ نوکنڈی ریکوڈک کا سب سے بڑا قصبہ ہے جس میں 20 ہزار لوگ رہائش پذیر ہیں‘
یہ پورا علاقہ لق ودق صحرا ہے‘ دور دور تک ریت اور مٹی کے سوا کچھ نہیں‘ درمیان میں کہیں کہیں خشک سیاہ پہاڑ ہیں‘ سال دو سال بعد ہلکی بارش ہوتی ہے تو تھوڑی بہت گھاس اور جھاڑیاں اگ جاتی ہیں اور اگر کسی سال قدرت مہربانی نہ کرے تو زمین ان سے بھی محروم رہتی ہے لیکن آپ اللہ کی تقسیم دیکھیے‘ اس بیابان‘ لق و دق اور دور افتادہ زمین میں تانبے اور سونے کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں‘ حکومت نے ابھی ریکوڈک کا صرف 160 مربع کلومیٹر کا رقبہ سونا اور تانبا دریافت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بیرک (Barrick) کے حوالے کیا ہے‘ اس کمپنی کے اندازے کے مطابق یہ لوگ شروع میں40سال اور بعدازاں مزید 30 برس تک تانبا اور سونا نکال سکتے ہیں‘ تانبے کے یہ ذخائر ہمیں دنیا کے دس بڑے تانبا پروڈیوس کرنے والے ممالک اور سونے کے ذخائر 14 بڑے ممالک میں شامل کر دیں گے جب کہ پورے ریکوڈک کے ذخائر ہمیں تانبا اور سونا پروڈیوس کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا سکتے ہیں اور ہم اگلا سعودی عرب ہو سکتے ہیں۔
مجھے ہفتے کا دن ریکوڈک میں گزارنے کا اتفاق ہوا‘ یہ ایک دل چسپ اور مختلف تجربہ تھا‘ریکوڈک دور افتادہ علاقہ ہے‘ اس تک عام ذرائع سے پہنچنا مشکل ہے چناں چہ ہم پہلے چارٹرڈ فلائیٹ سے کراچی پہنچے‘ ہماری وہاں بیرک کے سی ای او اور صدر مارک بریسٹو اور اس کی ٹیم سے ملاقات ہوئی‘ مارک سائوتھ افریقہ کے ٹائون ایسٹ کورٹ (Eastcourt) میں پیدا ہوا‘ پیشے کے لحاظ سے جیالوجسٹ ہے‘ جوانی میں اس نے رینڈ گولڈ کمپنی جوائن کر لی اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا کمپنی کے ایکسپلوریشن ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بن گیا‘ 1995ء میں اس نے رینڈ گولڈ ریسورسز کے نام سے اپنی کمپنی بنا لی‘ یہ کمپنی اتنی کام یاب ہو گئی کہ اس نے 2018ء میں سونا اور تانبا دریافت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بیرک خرید لی اور یوں یہ اس کا صدر اور سی ای او بن گیا‘ بیرک اس وقت ارجنٹائن‘ کینیڈا‘ چلی‘ کوٹ ڈی ایوری (Côte d’Ivoire) کانگو‘ ڈومینکن ری پبلک‘ مالی‘ پاپوانیوگنی‘
سعودی عرب‘ تنزانیا‘ امریکا اور زیمبیا میں کام کر رہی ہے‘ اس کا ہیڈکوارٹر ٹورنٹو میں ہے‘ 2023ء میں کمپنی نے دنیا کو 40لاکھ اونس کھرا سونا اور 40 کروڑ 20 لاکھ پونڈ تانبا دیا‘ کمپنی کے پاس سونے کے 7 کروڑ 70 لاکھ اونس ذخائر ہیںجب کہ بیرک کے اثاثوں کی ویلیو 46 بلین ڈالر ہے‘ مارک نے کھانے کی میز پر بتایا‘ ہم ریکوڈک سے 40سال میں 6 ارب ٹن تانبا اور 4 کروڑ 15 لاکھ اونس سونا نکال سکتے ہیں جس سے پاکستان اور بلوچستان کو بہت فائدہ ہو گا‘حکومت نے بیرک کے ساتھ بہت اچھا معاہدہ کیا‘ کمپنی ریکوڈک کے 160 مربع کلومیٹرکی آمدنی کی پچاس فیصد رقم کی مالک ہو گی جب کہ 25 فیصد حصہ بلوچستان کو ملے گا اور باقی 25 فیصد وفاق کے حصے آئے گا‘ سائیٹ پر تمام انویسٹمنٹ کمپنی کرے گی‘ بلوچستان حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہو گا‘ بیرک کمپنی اس کے ساتھ ساتھ مقای آبادی کی فلاح وبہبود کی ذمہ داری بھی اٹھائے گی‘
یہ معاہدہ اچھا بھی ہے اور پاکستان کے لیے مفید بھی‘ مارک ڈِنر کے دوران بلوچستان کی بہت تعریف کر رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا علاقہ خوب صورت ہے اور قدرت نے اسے نواز بھی رکھا ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان نے آج تک ان وسائل سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اس کا کہنا تھا ہم سردست علاقے میں کیمپ‘ سائیٹ اور دوسری سہولتوں کا بندوبست کر رہے ہیں‘ ڈرلنگ 2028ء میں شرع ہوگی اور اس کے بعد پاکستانی خزانے میں ڈالرز آنے لگیں گے‘ ہم ریکوڈک میں 40 سال کام کریں گے‘ یہ مدت مزید تیس چالیس سال بڑھ سکتی ہے‘ میں نے اسے بتایا میں سائوتھ افریقہ وزٹ کر چکا ہوں‘ وہ اس کے بعد اپنے قصبے ایسٹ کورٹ اور وہاں موجود انڈین آبادی کے بارے میں بتانے لگا‘ ایسٹ کورٹ کی 21فیصد آبادی انڈینز پر مشتمل ہے‘ یہ لوگ قیام پاکستان سے 50 سال قبل سائوتھ افریقہ چلے گئے تھے‘ مارک کا بچپن اور جوانی ان کے ساتھ گزری تھی‘ وہ ان کے کھانوں اور روایات کے دل چسپ قصے سناتا رہا۔
ہم اگلے دن چارٹرڈ فلائیٹ پر دوبارہ ریکوڈک روانہ ہوئے‘ بیرک کمپنی نے سائیٹ کے قریب اپنا رن وے اور عارضی ائیرپورٹ بنا لیا ہے‘ اس کی سیکورٹی پاک فوج کے پاس ہے‘ کمپنی کی گاڑیاں بلٹ پروف ہیں اور ان کے آگے اور پیچھے فوج کی گاڑیاں اور جیمرز چلتے ہیں‘ ائیرپورٹ کے دائیں بائیں دور دور تک آبادی کا کوئی نام ونشان نہیں تاہم دائیں جانب سیاہ رنگ کا ایک بڑا پہاڑ دکھائی دیتا ہے‘ لوکل لوگ اسے کوہ دلیل کہتے ہیں‘ کیمپ ائیرپورٹ سے دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ سڑک کچی ہے اور یہ بھی کمپنی نے بنائی ہے‘ کیمپ کنٹینر ہومز پر مشتمل ہے تاہم اس میں تمام سہولتیں موجود ہیں‘
والی بال گرائونڈ‘ کینٹین‘ ٹک شاپ اور انٹرنیٹ تک دستیاب ہے‘ کمپنی نے پانی بڑی گہرائی سے نکالا‘ سولر پینلز اور ہیوی ڈیزل جینریٹرز کے ذریعے بجلی کا بندوبست بھی کر دیا ‘ کیمپ میں ساڑھے چھ سو لوگ رہائش پذیر ہیں جن میں سے 80 فیصد مقامی ہیں‘ بیرک کے غیرملکی ماہرین ان لوگوں کو ٹرینڈ کر رہے ہیں‘ مارک بھی ہمارے ساتھ تھا‘ اس کا کہنا تھا ہم 25 ہزار لوگوں کو ہائر کریں گے جن میں سے 80 فیصد اسی علاقے سے ہوں گے‘ اس سے مقامی آبادی کو روزگار ملے گا اور ان کی زندگیاں تبدیل ہوجائیں گی‘ کیمپ میں خواتین بھی تھیں‘ یہ تمام مقامی اور پڑھی لکھی تھیں‘ کمپنی ان میں سے آدھی خواتین کو ٹریننگ کے لیے سکالر شپ پر یورپ بھجوا رہی تھی‘ خواتین اس پر بہت خوش تھیں‘ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی ہمیں جوائن کر لیا‘ ان کا جہاز اور ہیلی کاپٹر دونوں بیرک کے رن وے پر اترے‘ ہم کیمپ سے بعدازاں نوکنڈی گئے‘ ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس کا فاصلہ 20 منٹ جب کہ بائی روڈ ایک گھنٹہ ہے۔
نوکنڈی کوئٹہ تفتان روڈ پر غربت کا مارا چھوٹا سا قصبہ ہے‘ کھجوریں‘ گندم اور زیرہ مقامی آبادی کاکاروبار ہیں لیکن یہ کاروبار ان کی ضرورت کے لیے ناکافی ہے‘ افغانستان اور ایران زیادہ دور نہیں چناں چہ سمگلنگ ان کا بڑا روزگار ہے‘ فوج نے سمگلنگ کے خلاف آپریشنز شروع کر رکھے ہیں‘ یہ لوگ اس پر شاکی ہیں‘ ان کا کہنا ہے ’’حکومت اگر ہماری سمگلنگ بھی بند کر دے گی تو پھر ہم کھائیں گے کیا؟‘‘ یہ لوگ سمگلنگ کو سمگلنگ نہیں سمجھتے‘ کاروبار سمجھتے ہیں اور بچپن سے اس کام میں جت جاتے ہیں‘ مجھے مقامی سرداروں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا‘ ان کی باتوں میں جان تھی‘ ان کا کہنا تھا ہم 70 کلومیٹر سے پانی لے کر آتے ہیں‘ کوئٹہ ہم سے 10 گھنٹے دور ہے‘ علاقہ ویران اور لق ودق ہے‘ بکریوں کے لیے گھاس تک موجود نہیں‘ بارش ہوتی نہیں اور گرمیوں میں خوف ناک گرمی پڑتی ہے چناں چہ آپ خود بتائیں ہم کاروبار (سمگلنگ) نہ کریں تو کیا کریں‘
یہ بلوچستان حکومت سے بھی ناراض تھے تاہم یہ بیرک کمپنی اور مارک کی بہت تعریف کر رہے تھے‘ اس تعریف کی تین بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ بیرک مقامی لوگوں کو ملازمتیں دے رہی تھی‘ دوسرا کمپنی نے نوکنڈی میں ہسپتال اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنا دیا‘ ہمیں ہسپتال اور انسٹی ٹیوٹ دونوں دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ ہسپتال انڈس ہاسپٹل کی برانچ تھا جب کہ انسٹی ٹیوٹ ہنر فائونڈیشن چلا رہی تھی‘ دونوں کی فنڈنگ بیرک نے کی تھی اور تیسری وجہ کمپنی نے دونوں اداروں کا انتظام مقامی سرداروں کی کمیٹی کے حوالے کر دیا تھا‘ کمیٹی کے سربراہ حاجی صاحب تھے‘ بیرک نے حاجی صاحب کی منظوری سے نوکنڈی میں ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے‘ حاجی صاحب اور ان کے ساتھی اس پر بہت خوش تھے‘ سرفراز بگٹی نے ہسپتال اور ہنر انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح بھی کیا اور دورہ بھی‘ ہنر انسٹی ٹیوٹ کی بچیوں نے وزیراعلیٰ کو بتایا‘ ہمارے علاقے میں زنانہ کالج نہیں ہے‘
وزیراعلیٰ نے فوری طور پر کالج کا اعلان کر دیا لیکن سرفراز بگٹی کے بعد حاجی صاحب کا دعویٰ تھا اس قسم کے اعلان پہلے بھی ہو چکے ہیں‘ کالج ماضی میں بھی نہیں بنا اور اب بھی نہیں بنے گا‘ میں نے حاجی صاحب کو تسلی دی‘ مجھے یقین ہے سرفراز بگٹی اپنا وعدہ یاد رکھیں گے اور اگر یہ بھول گئے تو ہم انہیں یاد کرائیں گے اور اگر پھر بھی کالج نہ بنا تو میں مارک بریسٹو سے کالج بنوا دوں گا‘ حاجی صاحب اور ان کے دوستوں نے دل سے میرا شکریہ ادا کیا‘ یہ لوگ واقعی مخلص اور سادہ دل تھے‘ ان کی بچیوں کو پڑھنے کا شوق بھی تھا‘ اللہ کرے نوکنڈی میں کالج بن جائے اور لڑکیاں پڑھ لکھ کر بیرک میں کام کر سکیں۔
ریکوڈک سونے کی زمین ہے‘ اس کے نیچے کھربوں ڈالر کا سونا چھپا ہوا ہے لیکن اوپر غربت‘ بیماری اور ناراضی کی فصلیں لہلہا رہی ہیں‘
لوگوں کے شکوے صرف شکوے نہیں ہیں‘ ان میں حقیقت ہے‘ ریاست کو دیر سے سہی لیکن خیال تو آیا‘ ہم اگر مائننگ میں کام یاب ہو جاتے ہیں اور کل کوئی اور افتخار محمد چودھری یا قائد انقلاب ریکوڈک کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا تو اس علاقے کا مقدر بدل جائے گا‘ بلوچستان میں خوش حالی آ جائے گی اور وفاق کو بھی دردر بھیک نہیں مانگنا پڑے گی لیکن اس کے لیے استحکام اور بزنس اپروچ چاہیے اور ہماری تاریخ میں ان دونوں کی خوف ناک کمی ہے‘ ہم من حیث القوم اینٹی بزنس ہیں‘ خود کاروبار کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں‘ ہم ملک میں استحکام بھی نہیں آنے دیتے‘ اچھی بھلی چلتی گاڑی کو کھول کر بیٹھ جاتے ہیں‘ اللہ کرے اس بار ہمارا ماضی ہمارے راستے کی رکاوٹ نہ بنے اور اگر یہ ہو گیا تو یقین کریں ملک بدل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں سونے کی یہ زمین بھی اسی طرح بارش کا انتظار کرتی رہ جائے گی اور ہم بھی در در بھیک مانگتے رہیں گے۔