کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب زندگی کو انجوائے کر رہا تھا‘ فائر پلیس میں آگ دہک رہی تھی اور صاحب ریشمی گائون میں گھوڑے کی کھال کے صوفے پر آگ کے قریب بیٹھا تھا اور فضا میں سگار کی ہلکی ہلکی خوشبو پھیل رہی تھی‘ ماحول میں آسائش‘ فراوانی اور خوش حالی کی مہک تھی‘ ہم جب دوسروں کے گھروں اور دفتروں میں جاتے ہیں تو ہمیں ہر گھر‘ ہر دفتر میں ایک خاص مہک ملتی ہے‘ یہ مہک اس عمارت میں رہنے والے لوگوں کے حالات اور ذہنی صورت حال کی گواہ ہوتی ہے‘
خوش حال لوگوں کے گھروں اور دفتروں کی مہک بیمار اور پریشان حال لوگوں کی عمارتوں سے مختلف ہوتی ہے اور پرسکون‘ مطمئن اور اللہ لوگ انسانوں کے گھروں کی فضا دولت‘ طاقت اور شہرت کے گھوڑوں پر سوار لوگوں کی رہائش گاہوں کی فضا سے مکمل الگ ہوتی ہے‘ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کیوں کہ آسائش اور فراوانی سے نواز رکھا ہے لہٰذا ان کے ڈرائنگ روم میں خوش حالی کی خوشبو تھی‘ صاحب نے سگار کا کش لگایا اور ہوا میں دھوئیں کا سرکل بنا کر بولے ’’تم یہ پوچھنا چاہتے ہو 20 جنوری کے بعد کیا ہو گا؟‘‘ وہ اس کے بعد ہنسے اور اس وقت تک ہنستے رہے جب تک انہیں کھانسی کا دورہ نہیں پڑ گیا‘ میں انہیں حیرت سے دیکھتا رہا‘ انہوں نے ریشمی رومال سے آنکھیں صاف کیں اور پھر مجھ پر نظریں جما کر بولے ’’ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو حلف لے گا لیکن یہ یاد رکھو پاکستان کی باری مارچ اپریل میں اس وقت آئے گی جب ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت پڑے گی‘
ٹرمپ کا پہلا چیلنج یوکرائن اور غزہ ہو گا‘ غالب امکان ہے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ اسے شروع میں ہی گھیر لے اور یہ غزہ اور یوکرائن ہی سے باہر نہ آ سکے اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہماری باری جلد نہیں آئے گی لیکن اگر ٹرمپ نے یوکرائن اور غزہ جلد نبٹا لیا تو پھراپریل میں ہماری باری آ جائے گی‘ یہ افغانستان کے ساتھ ہمیں بھی لپیٹ لے گا‘ طالبان کو ہر ہفتے امریکا سے 40 ملین ڈالر ملتے ہیں‘ یہ بند کر دیے جائیں گے اور اس کے بعد یہ ہم پر دبائو ڈالے گا کہ تم لوگ افغانستان سے طالبان کی چھٹی کرائو‘ کولیشن گورنمنٹ بنائو اور ہم اس دبائو میں پھنس جائیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ’’کیا افغانستان میں کولیشن گورنمنٹ ہمیں سوٹ کرتی ہے؟‘‘ وہ ہنسے اور پھر بولے ’’اس کا دارومدار حالات پر ہے اگر امریکا ہمارے ساتھ پیار سے پیش آتا ہے‘ یہ ہمارے مطالبات مان لیتا ہے اور ملک کے موجودہ جمہوری نظام کو سپورٹ کرتا ہے تو پھر ہم دس دن میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیں گے لیکن اگر ہمیں فوری فائدہ نہیں ہوتا تو بھی ہم یہ کام کریں گے مگر اس میں سال چھ مہینے لگ جائیں گے کیوں کہ طالبان کے بعد افغانستان میں جو حکومت آئے گی وہ بھارت کو دوبارہ قونصل خانے کھولنے کی اجازت دے گی اور اس کے بعد ایک بار پھر کابل میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ آ کر بیٹھ جائیں گے اور یہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
صاحب کے ڈرائنگ روم میں بڑی دیر تک خاموشی رہی‘ اس دوران صرف آتش دان کی لکڑیاں بول رہی تھیں یا پھر وال کلاک کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی‘ میں نے کھنگار کر گلا صاف کیا اور پھر آہستہ آواز میں پوچھا ’’کیا ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے لیے دبائو ڈالیں گے؟‘‘ صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا اور ایک لمبا شیطانی قہقہہ لگایا‘ وہ دیر تک ہنستے رہے‘ یہ عموماً ایسی صورت حال میں ایسا ہی خوف ناک قہقہہ لگاتے ہیں‘ یہ ان کی ایکسائٹمنٹ کی دلیل ہوتی ہے‘ وہ رکے اور یک دم سنجیدہ ہو کر بولے ’’ضرور کرے گا لیکن اس کوشش کے پیچھے تین موٹو ہو سکتے ہیں‘ ہمارا ری ایکشن ان تینوں میں الگ الگ ہو گا مثلاً اگر امریکا ہمیں لیبیا‘ شام یا عراق بنانا چاہتا ہے تو پھر یہ عمران خان کو رہا کرا کر سڑکوں اور گلیوں میں چھوڑ دے گا اور عمران خان چند ماہ میں پاکستان کو شام یا لیبیا بنا دے گا‘ ایسی صورت میں آپ یہ یاد رکھیں پاکستان میں لیبیا اور شام سے زیادہ قتل وغارت گری ہو گی کیوں کہ ہمارے ملک میں بے تحاشا اسلحہ ہے اور اگر خدانخواستہ یہ ایک بار باہر آ گیا تو پھر حالات کو سمیٹنا ممکن نہیں رہے گا لہٰذا امریکا اگر صرف عمران خان کی رہائی چاہے گا تو پھر ریاست کو خوف زدہ ہو جانا چاہیے اور یہ ہو جائے گی اور اس کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا عمران خان یا پھر ملک‘ آپ سمجھ دار ہیں‘
آپ اچھی طرح جانتے ہیں ریاست کیا فیصلہ کرے گی‘ دوسرا موٹو امر یکا عمران خان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ اگر عمران خان کو اقتدار میں لانا چاہے گا تو یہ پھر اس کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرائے گا بالکل اسی طرح جس طرح امریکا نے ابوظہبی میں 2007ء میں بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کو آمنے سامنے بٹھا دیا تھا‘ امریکا عمران خان کے کیس میں بھی کسی نہ کسی دوست ملک کو درمیان میں ڈالے گا اور وہ ملک جنرل عاصم منیر اور عمران خان کو اکٹھا بٹھا دے گا اور اس کے بعد نیا جمہوری سفر شروع ہو جائے گا لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کیوں کرے گا؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں‘ پہلی وجہ امریکا پاکستان میں امن چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے پاکستان جمہوری اور معاشی طور پر ترقی کرے‘ جو ظاہر ہے خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں‘ امریکا پاکستان کو معاشی اور جمہوری لحاظ سے کام یاب اور توانا کیوں بنائے گا؟ اور دوسری وجہ امریکا عمران خان سے وہ کام کرانا چاہتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ یا جنرل عاصم منیر نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے چناں چہ ٹرمپ جب صلح کی کوشش کرائے گا تو ہمارے لوگ فوراً محتاط ہو جائیں گے‘ یہ سمجھ جائیں گے عمران خان کو اقتدار میں لانے کا مقصد کیا ہے لہٰذا یہ صلح کے باوجود عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دیں گے اور اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑا یہ کر گزریں گے‘ میں تمہیں دوبارہ بے نظیر بھٹو کی مثال دوں گا‘ امریکا نے بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان صلح کرائی اور یہ شہید بی بی کو وزیراعظم دیکھنا چاہتا تھا‘
بے نظیر نے 2007ء کے الیکشنز میں کام یاب بھی ہونا تھا اور وزیراعظم بھی بن جانا تھا لیکن پھر کیا ہوا؟ محترمہ الیکشن سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گئیں‘ پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی لیکن بے نظیر بھٹو نہیں‘ مجھے خطرہ ہے عمران خان کے کیس میں کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ ڈونلڈ ٹرمپ صلح کرائے‘ نئے الیکشن کا سلسلہ شروع ہو اور تاریخ ایک بار پھر دہرا دی جائے‘ اقتدار پی ٹی آئی کو مل جائے لیکن عمران خان مائنس ہو جائیں‘‘ صاحب رکا‘ لمبی سانس لی اور پھر بولا ’’مجھے یقین ہے تم میری تھیوری کو سازشی قرار دو گے لیکن تم ذرا اس گیند کو میدان میں رکھ کر دیکھو‘ تمہیں بے شمار حقیقتیں نظر آنے لگیں گی اور میں اب تیسرے آپشن کی طرف آتا ہوں‘‘۔
’’آپ فرض کرو ڈونلڈ ٹرمپ کو عمران خان اور پاکستان دونوں میں کوئی دل چسپی نہیںاور یہ ہم سے افغانستان یا ایران سے متعلق کوئی کام لینا چاہتا ہے‘ اس کی خواہش ہے ہم افغانستان میں حکومت ختم کر دیں یا پھر ایران پر حملے میں امریکا یا اسرائیل کی مدد کریں اگر ٹرمپ یہ چاہے گا تو پھر یہ عمران خان کو بطور بارگیننگ چِپ استعمال کرے گا‘ یہ انسانی حقوق اور عدل وانصاف کی بات کرے گا‘ یہ ٹویٹ کرے گا پاکستان میں عدل اور انصاف کی بری حالت ہے‘ عمران خان کے ساتھ عدالتوں میں برا سلوک ہو رہا ہے اور جیل میں بھی اسے وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ایک سابق وزیراعظم کو ملنی چاہییں وغیرہ وغیرہ‘ یہ پی ٹی آئی کے جمہوری حقوق کی بات بھی کرے گا‘ آئی ایم ایف کو بھی پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کا اشارہ کرے گا اور پاکستان پر دہشت گردی کا الزام بھی لگائے گا‘ اس دبائو کا مقصد عمران خان کی رہائی یا اقتدار میں واپسی نہیں ہو گا‘ اس کا واحد مقصد پاکستان سے مزید رعایتیں لینا ہو گا اور اگر یہ ہوا تو پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ مکمل مختلف ہو گا‘ ریاست یہ دبائو برداشت کرے گی اور ساتھ ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈائیلاگ کرے گی اور آخر میں امریکا کے ساتھ سمجھوتہ کرلے گی جس کے بعد امریکا عمران خان کو بھول جائے گا اور ہم امریکا کے مطالبات مان لیں گے اور یوں معاملہ نبٹ جائے گا‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور سگار کے کش شروع کر دیے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو زیادہ چانسز کس آپشن کے محسوس ہوتے ہیں؟‘‘ صاحب نے ایک اور شیطانی قہقہہ لگایا اور بولا ’’تیسرے آپشن کے‘ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تمام تر تعلقات دفاعی رہے ہیں‘
امریکا نے 1952ء میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بنائے اور یہ آج تک جاری اور ساری ہیں‘ سیاست دان ترجیحات کی اس فہرست میں پانچویں یا چھٹے نمبر سے اوپر نہیں آتے چناں چہ یہ عمران خان کے لیے کبھی اپنے دیرینہ دوست یعنی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرے گا‘ دوسرا امریکا نے پچھلے 25برسوں میں بھارت پر بہت سرمایہ کاری کی‘ امریکا کا خیال تھا بھارت چین کی اقتصادی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنے گا مگر انڈیا چین کو روک نہیں سکا‘ اس خطے میں چار ایٹمی طاقتیں ہیں‘ روس‘ چین‘ بھارت اور پاکستان‘ ان چار میں سے تین امریکا کے خلاف ہیں‘ روس‘ چین اور بھارت لہٰذا خطے میں امریکا کا واحد دوست پاکستان ہے‘ یہ چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس نے سوویت یونین کو بھی توڑ دیا اور اس نے آج تک بھارت کو بھی ہلنے نہیں دیا‘ یہ درست ہے پاکستان کے چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں لیکن ہماری دوستی کی ترجیحات میں امریکا چین سے پہلے آتا ہے لہٰذا امریکا کبھی اس خطے کا اپنا واحد دوست ضائع نہیں کرے گا اور وہ بھی عمران خان کے لیے‘‘ صاحب خاموش ہو گیا‘ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’لیکن سر امریکا 25 کروڑ عوام کا کیا کرے گا؟ عوام عمران خان کو پسند کرتے ہیں!‘‘ صاحب کا رنگ سرخ ہو گیا اور اس نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔