میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘ وہ شکل‘ حلیے اور گفتگو سے بہت سادے دکھائی دیتے تھے لیکن معاشی لحاظ سے بہت خوش حال تھے‘ جرمنی میں حلال گوشت کا کام کرتے تھے اور اس فیلڈ میں ان کی مناپلی تھی‘ جرمنی اور پاکستان دونوں ملکوں میں اربوں روپے کی پراپرٹی کے مالک تھے‘ چھ ماہ پاکستان میں رہتے تھے اورچھ ماہ فرینکفرٹ میں‘ ایک بیگم جرمنی میں تھی اور دوسری پاکستان میں‘ دونوں سائیڈز سے صاحب اولاد تھے لیکن ان کا کمال یہ تھا جرمن بچے پاکستان میں کاروبار کررہے ہیں جب کہ پاکستانی بچے جرمنی میں بزنس سنبھالتے ہیں یوں جرمن بیوی نے پاکستانی بچے پالے اور جرمن بچے پاکستانی بیوی کے زیر سایہ رہے‘ اس سے ان کا فیملی بانڈ بہت مضبوط ہو گیا‘ یہ شوگر کے مریض ہیں اور اس وجہ سے ان کے پائوں خراب ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ یہ مشورے کے لیے میرے پاس آئے تھے‘گفتگو کے دوران پتا چلا یہ ان پڑھ بھی ہیں اور ان کا خاندانی پس منظر بھی بہت کم زور ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بہت ترقی کی لہٰذا میرا ان میں انٹرسٹ ڈویلپ ہو گیا‘میں نے ان سے جرمنی جانے اور بزنس میں کام یاب ہونے کی وجہ پوچھی تو یہ ہنس کر بولے۔
میں 1980ء کی دہائی میں لاہور میں ایک قصائی کی دکان پر کام کرتا تھا‘ غربت بہت زیادہ تھی‘ چار بہن بھائی تھے‘ والد مزدوری کرتا تھا‘ ماں دوسروں کے گھروں میں برتن اور فرش صاف کرتی تھی‘ میں ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا چناں چہ مجھے بارہ سال کی عمر میں کام پر لگا دیا گیا‘ قصائی کی دکان پر کام کی واحد وجہ گوشت تھا‘ میرا مالک مجھے روزانہ ایک پائو گوشت دیتا تھا‘ ماں اس میں آلو‘ سبزی یا دال ڈال کر پکا لیتی تھی اور یوں ہم کھانے پینے کے قابل ہو جاتے تھے‘ میں بعض اوقات دکان سے سری پائے بھی لے آتا تھا اور ہم اس سے بھی کام چلا لیا کرتے تھے‘ میں کام میں تیز تھا لہٰذا میں نے دکان کا سارا کام سنبھال لیا لیکن مجھے گھر کے حالات بہت تنگ کرتے تھے‘ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا یا باری تعالیٰ مجھے بھی خوش حالی عطا فرما دے تاکہ میں اپنے خاندان کی خدمت کر سکوں اور اللہ تعالیٰ نے ایک دن میری یہ دعا سن لی‘ ہماری دکان پر ایک درمیانی عمر کا گاہک آتا تھا‘
وہ بیس سال جرمنی میں گزار کر آیا تھا اور وہ ہم سب کو جرمنی کی باتیں سناتا رہتا تھا‘ میں جرمنی اور اس سے متاثر ہو گیا‘ میں نے ایک دن اس سے پوچھا ’’کیا آپ کو جرمن زبان آتی ہے؟‘‘اس کا جواب ہاں میں تھا‘ یہ سن کر میرے اندر سے آواز آئی ظفر حیات تم یہ زبان سیکھ لو اللہ تمہارا ہاتھ پکڑ لے گا‘ میں نے بے چین ہو کر اس سے کہا ’’کیا آپ مجھے جرمن زبان سکھا سکتے ہیں؟‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’اوئے ظفری تم جرمن سیکھ کر کیا کرو گے؟‘‘ میں نے بغیر سوچے سمجھے جواب دیا ’’میں جرمن ریڈیو سنوں گا اور بس‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور میری بات مان لی‘ اس کا خیال تھا اس طرح اس کی جرمن زبان بھی تازہ ہو جائے گی یوں میں نے اس سے جرمن زبان سیکھنا شروع کر دی‘ وہ روزانہ مجھے عام روزمرہ کے فقرے سناتا تھا اور میں انہیں ازبر کر لیتا تھا‘
میری یادداشت اور لگن دونوں اچھی تھیں چناں چہ میں بہت جلد جرمن زبان میں گفتگو کرنے لگا‘وہ روز ہماری دکان پر آتا اور میں اس کے ساتھ گھنٹوں جرمن زبان میں باتیں کرتا رہتا ‘ میرے مالک کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا لیکن میں کیوں کہ اسے کما کر دیتا تھا لہٰذا وہ میری یہ حرکت برداشت کرتا رہتا تھا‘ میں نے اس کے بعد ریڈیو خریدا اور اس سے جرمن خبریں اور پروگرام سننے لگا‘ مجھے نوے فیصد چیزیں اور باتیں یاد ہو جاتی تھیں‘ ہماری دکان پر ایک اور صاحب بھی آیا کرتے تھے‘ وہ برٹش کونسل میں کام کرتے تھے‘ میں نے ان سے ایک دن پوچھا‘ کیا لاہور میں جرمنی کی بھی کوئی کونسل ہے‘ انہوںنے بتایا ہاں یہاں جرمن سنٹر ہے اور اس میں مختلف دنوں میں مختلف فنکشنز ہوتے رہتے ہیں‘ یہ جرمن زبان کے کورس بھی کراتے تھے‘ میری دکان پر منگل اور بدھ کے روز گوشت کا ناغہ ہوتا تھا‘ میں ان دنوں فارغ ہوتا تھا‘ میں نے یہ دو دن جرمن سنٹر میں گزارنے کا فیصلہ کیا‘
یہ گوئٹے سنٹر تھا اور اس میں مختلف قسم کے فنکشنز ہوتے رہتے تھے‘ میں نے وہاں جانا شروع کر دیا‘ میں ڈیل ڈول سے ان پڑھ یا غریب دکھائی نہیں دیتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے شکل ‘صورت اور جسم اچھا دے رکھا تھا‘ میں کپڑے بھی صاف ستھرے پہنتا تھا چناں چہ میں اس ماحول میں رچ بس گیا‘ گوئٹے سنٹر میں مجھے ایک جرمن صاحب ملے‘ وہ جرمن ٹیچر تھے‘ میں نے جب ان کے ساتھ جرمن زبان میں بات چیت شروع کی تو وہ مجھ سے متاثر ہو گئے اور مجھے لینگوئج کورس میں داخلہ دے دیا‘ میری عمر اس وقت 17 سال تھی‘ میں نے بہرحال داخلہ لے لیا اور باقاعدہ زبان سیکھنی شروع کر دی‘ انہوں نے مجھے بولنے کے ساتھ ساتھ لکھنا اور پڑھنا بھی سکھا دیا‘
میں مکمل ان پڑھ شخص تھا‘ میں اردو بھی پڑھ لکھ نہیں سکتا تھا لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے میں نے جرمن زبان بڑی آسانی سے لکھنا ‘پڑھنا شروع کر دی اور اس کی وجہ قصاب کا کام تھا‘ آپ یہ یاد رکھیں قصائی کے ہاتھ میں بڑی صفائی ہوتی ہے‘ ذرا سی گڑ بڑ یا غلط حرکت سے گوشت بھی خراب ہو جاتا ہے اور قصائی کا اپنا ہاتھ بھی کٹ جاتا ہے اور میں کیوں کہ بہت اچھا کاری گر تھا لہٰذا یہ صفائی میرے کام آئی‘ میں سیدھی لکیر میں جرمن زبان لکھ لیتا تھا‘ مجھے پڑھنا بھی آ گیا‘ میرے ٹیچر مجھے جرمن کتابیں دے دیتے تھے اور میں دکان اور گھر پر فالتو وقت میں یہ پڑھتا رہتا تھا یوں میں ٹھیک ٹھاک عالم فاضل ہو گیا‘ میں گانے بھی جرمن زبان کے گاتا تھا‘ میرے گاہک مجھے ’’جامو جرمن‘‘ کہتے تھے‘ اس وقت ٹی وی پر کوئی ڈرامہ چلتا تھا جس کا ایک کردار جامو جرمن تھا‘ لوگوں نے میرا نام بھی جامو جرمن رکھ دیا لیکن مجھے یہ برا نہیں لگتا تھا۔
ہمارے سنٹر میں ایک جرمن آتا تھا‘ وہ ایمبیسی میں کام کرتا تھا‘ اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا ’’تم جرمنی کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’مجھے اس کا کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ وہ میرے کام سے واقف تھا‘ اس کا کہنا تھا جرمنی میں قصابوں کی بہت کمی ہے‘ تم اگر وہاں چلے جائو تو تمہیں فوراً کام مل جائے گا اور تم دنوں میں امیر ہو جائو گے‘ میں نے اسے بتایا‘ میرے پاس جرمنی جانے کے پیسے نہیں ہیں‘ اس نے جواب دیا‘یہ مجھ پر چھوڑ دو‘ تم بس ارادہ کرو باقی معاملات خود بخود طے ہو جائیں گے‘ مجھے اور کیا چاہیے تھا‘ میں راضی ہو گیا‘ وہ ایک بہت ہی نیک اور اچھا انسان تھا‘ اس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے میرا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوایا‘ میں اس وقت بمشکل اٹھارہ سال کا ہوا تھا‘ اس نے میرا ویزہ کس طرح لگوایا میں نہیں جانتا بہرحال میرا ویزہ لگ گیا‘
ویزے کے بعد ٹکٹ کا ایشو تھا‘ اس کا کہنا تھا مجھے ایمبیسی کی طرف سے سال میں دو ٹکٹ ملتے ہیں‘ میں اس سال چھٹی پر نہیں جا رہا‘ میرے پاس ایک ٹکٹ اضافی ہے‘ تم یہ لے لو اور جرمنی جائو‘ میں اس عنایت پر حیران رہ گیا‘ اس زمانے میں ٹکٹ تبدیل ہو جایا کرتے تھے‘ وہ میرے ساتھ ائیرلائین کے دفتر گیا اور اپنا ٹکٹ میرے نام تبدیل کرا دیا‘ اس نے جرمنی میں میری جاب بھی کرا دی اور یوں میں والدین اور بہن بھائیوں کو روتا پیٹتا چھوڑ کر جرمنی پہنچ گیا‘ جرمنی میں میرا نیا مالک مجھے ائیرپورٹ پر لینے آیا تھا‘ میں اس کے ساتھ اس کی ورک شاپ پہنچ گیا‘ رہائش اور کھانا پینا اس کی ذمہ داری تھی‘ تنخواہ بھی اچھی تھی‘ اس کی ورک شاپ میں سلاٹر ہائوس سے گوشت آتا تھا اور ہم مشینوں پر اس کے مختلف ٹکڑے کرتے تھے‘ میں چھری کے کام کا ایکسپرٹ تھا‘ اس کے پاس میرے جیسا ایک بھی ورکر نہیں تھا چناں چہ کمپنی میں میری ویلیو بڑھتی چلی گئی‘
اسی دوران مجھے پتا چلا جرمنی میں حلال گوشت کی بہت مانگ ہے‘ اس کی وجہ ترکی کے لوگ ہیں‘ جرمنی میں ترک مسلمان بہت زیادہ ہیں‘ ان کے ہزاروں ریستوران ہیں‘ میں نے اپنے مالک کو اس فیلڈ کے بارے میں بتایا‘ وہ راضی ہو گیا اور اس نے میرے ساتھ حلال گوشت کی پارٹنر شپ کر لی اور یوں اللہ تعالیٰ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا‘ میں نے شروع میں پارٹنر شپ کی اور پھر چند برس بعد اپنا کاروبار شروع کر دیا‘ اللہ تعالیٰ نے برکت ڈال دی‘ میں خوش حال ہو گیا اور اس کے بعد میں نے اپنا سارا خاندان جرمنی بلا لیا‘ وہ رکا اور ہنس کر بولا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے میں اس شخص کو بھی جرمنی لے گیا جس سے میں نے شروع میں جرمن زبان سیکھی تھی اور اس دکان دار کو بھی جس سے میں نے کام شروع کیا تھا جب کہ وہ شخص جس نے مجھے ویزہ دلایا اور اپنی ٹکٹ دی تھی میں نے اسے اپنے کاروبار میں حصہ دار بنا دیا‘ وہ اب گھر بیٹھ کر میرے کاروبار کے 21 فیصد کا حصہ دار ہے۔
وہ صاحب خاموش ہو گئے لیکن میری حیرت زدہ آنکھیں ان کے چہرے پر جمی رہیں‘ وہ تھوڑی دیر رک کر بولے‘ آپ کے پاس مشورے کے لیے بہت لوگ آتے ہیں‘ آپ انہیں بتایا کریں آپ کو اگر کچھ بھی نہیں آتا تو بھی آپ کوئی نہ کوئی فارن لینگوئج سیکھ لیں‘ اس سے بھی آپ کے مقدر کا دروازہ کھل جائے گا‘ اگر لوگوں کو یقین نہ آئے تو انہیں میری مثال دے دیں‘ شاید انہیں ہدایت مل جائے۔مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا‘ واقعی ایک نئی زبان سیکھنے سے ایک نیا جہان کھل جاتا ہے اور اس نئے جہان میں روزگار کے ہزاروں آپشن ہوتے ہیں لہٰذا آپ اگر کچھ بھی نہیں کر رہے تو کوئی فارن لینگوئج ہی سیکھ لیں‘ ہو سکتا ہے اس سے آپ کے لیے مواقع کے نئے دروازے کھل جائیں۔
نوٹ: 27 جون سے ہمارا گروپ سری لنکا جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔