’’ہم دو دوست تھے اور ہم دونوں ذوالفقار علی بھٹو کے عاشق تھے‘‘ صحن میں گیندے کے تازہ پھول جھوم رہے تھے‘ کونے میں چار گملوں میں لوینڈر بھی لگا ہوا تھا اور اس کی خوشبو بھی ہوا کے کندھے پر بیٹھ کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہماری ناک کو گدگدارہی تھی‘
میں حیران تھا یہ شخص لوینڈر کہاں سے لایا اور اس نے یہ یہاں کیسے اگا دیے؟ میں کبھی لوینڈر کے پودوں کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی گیندے کے تازہ کھلے ہوئے پھولوں کی طرف اور ہاں ان کے درمیان سپینش طرز کا ایک فوارہ بھی تھا اور فوارے کے تالاب میں کنول کے پھول بھی تیر رہے تھے‘ یہ یقینا نقلی ہوں گے کیوں کہ اسلام آباد میں کنول کے پھول اگانا او رپھر انہیں فوارے کے چھوٹے سے تالاب میں رکھنا اور پھر انہیں تازہ اور زندہ رکھنا آسان کام نہیں تھا اور میں اس ماحول میں بہتا چلا جا رہا تھا لیکن رکیے‘ اچھے ماحول‘ اچھی چائے اور بہار کی اچھی شام کے ساتھ اچھی کمپنی دنیا میں اس سے بہتر کوئی کمبی نیشن نہیں ہوتا اور اس کی باتیں بہار‘ چائے اور ماحول میں مل کر کمال کر رہی تھیں۔وہ بولا‘ ہم دو دوست تھے‘ ہم دونوں ذوالفقار علی بھٹو کے عاشق تھے اور ہم نے اس عشق میں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی‘ ہم بسوں‘ ویگنوں اور ٹرینوں میں دھکے کھا کر پارٹی کے ہر جلسے میں پہنچ جاتے تھے‘ ہمارے سروں پر پارٹی کا پرچم بندھا ہوتا تھا‘ ہم نے خاندان کو بتا دیا تھا ہم اگر انقلاب کے جہاد میں شہید ہو گئے تو ہمیں پارٹی کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے‘ فوج نے ملک کی9 چھوٹی چھوٹی پارٹیاں جوڑ کر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے بنوا دیا تھا اور ہمارا لیڈر سڑکوں پر تھا‘ وہ تقریر کرتا تھا تو لوگوں کے دل رک جاتے تھے‘
لاکھوں لوگ اس کے اشارے پر جان دینے کے لیے تیار تھے اور ہم دونوں بھی ان میں شامل تھے‘ ہم نے اس زمانے میں کامریڈ بن کر پورا ملک پھرا‘ ہم سڑکوں‘ پلوں اور مسجدوں میں سوتے تھے‘ مانگ کر کھاتے تھے اور چوری کر کے جوتے پہنتے تھے لیکن ہم سلطانی جمہور کے لیے آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے لیکن پھر وہی ہوا‘ ملک میں مارشل لاء لگ گیا‘ بھٹو صاحب گرفتار ہو گئے اور ان کے ساتھی فرار ہو گئے یا پھر زیر زمین چلے گئے‘ پیچھے صرف ہم جیسے ورکرز رہ گئے‘
ہم چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں مختلف شہروں میں نکلتے تھے‘ کرفیو اور دفعہ 144 توڑتے تھے‘ پولیس کے ڈنڈے کھاتے تھے اور پھر چوٹوں پر ٹکور کر کے دوبارہ سڑکوں پر نکل آتے تھے‘ ہم نے بہت پھینٹا کھایا‘ پولیس نے ہمارے والدین تک کو گرفتار کر لیا‘ ہمارے بے گناہ اور معصوم بھائیوں کو بھی مارا پیٹا گیا لیکن ہم انقلاب سے باز نہ آئے‘ ہم آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم گرفتار کر لیے گئے‘
ہمیں شروع میں شاہی قلعے کی جیل میں رکھا گیا‘ وہاں ہمارے ساتھ وہ سلوک ہوا جس سے اللہ دشمن کو بھی بچائے اوراس کے بعد ہمیں ملٹری کورٹ سے سات سال قید کی سزا ہو گئی‘ ہم کوٹ لکھپت جیل میں پھینک دیے گئے‘ اس دوران بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی اور پارٹی تتر بتر ہو گئی‘ ہم جیل میں اکیلے تھے اور ہمارا وہاں اللہ تعالیٰ اور فیملی کے علاوہ کوئی سہارا نہیں تھا‘ میرے والد اور دو بھائی غلہ منڈی میں مزدوری کرتے تھے‘
یہ بوریاں اٹھا اٹھا کر خاندان بھی پالتے تھے اور جیل میں مجھے بھی تھوڑے بہت پیسے بھجوا دیتے تھے‘ میں اس معمولی سی رقم سے گزارا کرتا تھا‘ میرے دوست کی مالی حالت مجھ سے بھی پتلی تھی‘ وہ والدین کا اکلوتا بیٹا تھا‘ والد حجام تھا جب کہ ماں لوگوں کے برتن مانجھتی تھی‘‘وہ رکا اور گیندے کے پھولوں کی خوشبو کا لمبا گھونٹ بھرا۔
میں نے موقع دیکھ کر پوچھا ’’کیا اس دوران پارٹی کا کوئی لیڈر آپ لوگوں سے ملنے آیا؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’پہلی بات پارٹی کا کوئی لیڈر ملک میں نہیں تھا‘ یہ سب امریکا‘ لندن‘ جرمنی اور روس میں بیٹھے تھے اور دوسری بات‘ پارٹی میں کوئی شخص ہمارے وجود سے واقف نہیں تھا‘
ہم تھے یا ہم نہیں تھے یا ہم ہوتے یا ہم نہ ہوتے کسی کوفرق نہیں پڑنا تھا‘ ہم اقتدار کی بھٹی کا ایندھن تھے اور بھٹیاں ایندھن کے نام‘ ولدیت اور حسب نسب کہاں پوچھتی ہیں؟ ہم بھی بے نام لکڑیاں اور بے نشان خشک گھاس تھے چناں چہ پارٹی کا کوئی کارندہ سوا پانچ سال ہمارے پاس نہیں آیا‘ جنرل ضیاء الحق کی مہربانی سے ہم سات سال کی بجائے سوا پانچ سال میں جیل سے رہا ہو گئے‘
ہمارے والدین ہمیں لینے کے لیے بس پر آئے تھے اور ہم بس پر ہی گھر واپس گئے ‘ ہم جیل گئے تھے تو ہم لڑکے تھے اور ہم واپس آئے تو ہماری کنپٹیاں سفید اور سر کے تاج بالوں سے خالی ہو چکے تھے‘ میرے دوست نادر کو ٹی بی ہو چکی تھی اور وہ چلتے پھرتے ہانپنا شروع کر دیتا تھا‘
ہم دونوں کے گھروں میں بھی غربت اور بیماری کے سوا کچھ نہیں تھا‘ ہمارے پاس اب دو راستے تھے‘ ہم انقلاب کی صبح کا انتظار چھوڑ دیتے اور قوم کا مقدر بدلنے کی بجائے اپنا مقدر سنوار لیتے یا پھر بھٹو کے بچوں کی واپسی کا انتظار کرتے رہتے‘ میں دھکے ٹھڈے کھا کر سمجھ دار ہوگیا تھا چناں چہ میں اگلے ہی دن والد کے ساتھ منڈی گیا اور کندھوں پر بوریاں اٹھانا شروع کر دیں جب کہ میرا دوست والد کو
نائی کی دکان پر چھوڑ کر پارٹی کے دفتر چلا گیا اور یوں ہم دونوں کا سفر بدل گیا‘ میرا دوست دفتر میں جھاڑو دیتا‘ باتھ روم صاف کرتا اور آٹھویں درجے کے لیڈروں کے گندے لطیفوں پر قہقہے لگاتا تھا‘ اس دوران اس کی ٹی بی بڑھ گئی‘ پارٹی کے لوگ اب اسے باتھ روم بھی صاف نہیں کرنے دیتے تھے‘
ان کا خیال تھا اس کے جراثیم ہم سب کو لگ جائیں گے اور ہم بھی تھوک تھوک کر مر جائیں گے جب کہ میں مزدوری کرتے کرتے بیوپار میں آ گیا‘ اللہ تعالیٰ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا‘ میں نے چھوٹی سی دکان شروع کر لی‘ ملک میں آٹا اور چینی کا بحران تھا‘ میں نے فلور مل لگائی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہو گیا اور آج میں آپ کے سامنے ہوں‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘
اس کے لان میں اب گیندے اور لوینڈر کے ساتھ ساتھ رات کی رانی کی خوشبو بھی شامل ہو چکی تھی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’اور آپ کے دوست نادر کا کیا بنا؟‘‘ اس نے لمبی سسکی لی اور بولا ’’وہ بے چارہ ہسپتالوں میں دھکے کھاتے کھاتے 42 سال کی عمر میں فوت ہو گیا‘ میں نے اس کی ماں اور باپ کی ذمہ داری اٹھا لی‘ وہ آخری وقت تک میرے ساتھ رہتے رہے‘
وہ مجھے نادر کہتے تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا پارٹی کو نادر کی قربانیوں کے بارے میں علم ہوا؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’پارٹی آج تک اس کے وجود سے واقف نہیں‘ میں نے بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں پارٹی کو نادر کے بارے میں لکھا لیکن اس درخواست کا کوئی جواب نہیں آیا تاہم میں جب امیر ہو گیا تو پارٹی کے کئی اعلیٰ عہدیدار میرے دوست بن گئے‘ میں آج جب ان کے منہ سے قربانیوں کی داستانیں سنتا ہوں
تو دل ہی دل میں ہنستا ہوں کیوں کہ جب نادر اور میں پارٹی کے لیے قربان ہو رہے تھے تو یہ لوگ کسی پیش منظر‘ کس پس منظر میں نہیں تھے‘ لوگ ان کی شکل اور نام تک سے واقف نہیں تھے مگر یہ لوگ آج ہیروز ہیں اور ہم آج بھی زیرو ہیں‘‘ ۔
وہ رکا اور ہنس کر بولا ’’میں ویسے کسی کو اپنے بارے میں بتاتا بھی نہیں ہوں‘ میں صرف خاموشی سے ان لوگوں کی باتیں سنتا ہوں اور پھر اپنے آپ سے پوچھتا ہوں پارٹی اگر یہ لوگ ہیں تو پھر ہم کون تھے؟‘‘وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’لیکن آپ کی کہانی میں ظل شاہ کہاں آتا ہے؟‘‘
یہ ہنس کر بولا ’’میرا دوست نادر ظل شاہ تھا‘ وہ سوا پانچ سال جیل میں دھکے کھانے کے بعد بھی اپنے اندر کا بھٹو نہ مار سکا‘ وہ حقیقت نہ جان سکا‘ وہ قبر تک پہنچ کر بھی خود کو پارٹی سمجھتا رہا یہاں تک کہ مٹی‘ مٹی میں مل کر مٹی ہو گئی جب کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کرم کر دیا‘ اس نے مجھے سمجھا دیا سیاست ایک بزنس ہے اور لیڈر اس بزنس کے سیٹھ ہوتے ہیں‘ یہ صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں‘
مشینیں اور مزدور ان کے لیے اہمیت نہیں رکھتے‘ ایک مزدور مر گیا تو اس کی جگہ دوسرا آ جائے گا‘ ایک مشین خراب ہو گئی تو یہ اسے کباڑ میں بیچ کر نئی خرید لیں گے اور بس‘ دوسرا ہم نے اگر اپنامقدر بدل لیا تو قوم کا مقدر بھی بدل جائے گا اور ہم اگر نادر اور ظل شاہ بنے رہے تو پوری قوم ظل شاہ بن جائے گی‘
کاش پارٹیوں کے تمام ظل شاہ اس حقیقت سے واقف ہو سکیں اور یہ پارٹیوں کے ساتھ صرف ووٹ کا رشتہ رکھ سکیں‘ یہ الیکشن کے وقت ووٹ دیں اور باقی پانچ سال اپنی دکانوں‘ دفتروں اور منڈیوں میں کام کریں‘ انقلاب پھر آئے گا‘ لیڈروں کے دروازے پر بیٹھ کر یا سڑکوں پر جان دے کر ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘
کاش ظل شاہ زمان پارک جانے کی بجائے کسی منڈی میں مزدوری کر لیتا تو یہ آج زندہ بھی ہوتا اور اس کے گھر میں فاقے بھی نہ ہوتے مگر وہ بے چارہ اقتدار کی بھٹی کا ایندھن بن گیا اور پارٹی نے اس کی لاش بیچنا شروع کر دی‘ آپ آج میری بات لکھ لیںپارٹی چھ ماہ بعد اس کا نام تک بھول جائے گی اور یہ سیاست کی تلخ ترین حقیقت ہے‘‘۔