لاہور میں اکرم صدیقی نام کے ایک بزرگ رہتے تھے‘ یہ 1887ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے‘ والد سکول ٹیچر تھے‘ اکرم صاحب غربت کے باوجود پڑھ لکھ کر برٹش سرکار میں ملازم ہو گئے‘ پشاور میں ان کی پوسٹنگ تھی‘ انگریز نے اس زمانے میں بنوں کے نزدیک ایڈورڈ آباد کے نام سے ایک جدید شہر آباد کیا تھا‘ پوررا علاقہ برٹش آرمی کے کنٹرول میں تھا‘ کوہاٹ تک ریل جاتی تھی
اور اس کے بعد گھوڑوں اور تانگوں پر سفر طے کیا جاتا تھا‘انگریز نے سڑک کی حفاظت کے لیے راستے میں 7 فوجی چوکیاں بنا دی تھیں‘ دریائے ٹوچی کے ساتھ62 میل لمبی ٹوچی ویلی تھی‘ اس میں قبائلی لوگوں کے گائوں تھے‘ اکرم صدیقی کا 1910ء کے شروع میں پشاور سے بنوں تبادلہ ہو گیا‘ یہ بنوں پہنچ گئے‘ وہاں جا کر پتا چل کوہاٹ بنوں روڈ محفوظ نہیں‘ قبائلی فراری مسافروں کو لوٹ بھی لیتے ہیں اور امیر اور بااثر مسافروں کو تاوان کے لیے اغواء بھی کر لیتے ہیں لہٰذا انگریز اپنے ملازمین کو حفاظتی بندوبست کے بغیر سفر نہیں کرنے دیتے‘ قبائلی فراری پہاڑوں میں گھات لگا کر بیٹھے رہتے تھے‘ جوں ہی کوئی امیر یا بااثر شخص ان کے ہتھے چڑھ جاتا تھا ان کے وارے نیارے ہو جاتے تھے‘ یہ ان لوگوں کا روزگار تھا‘ قبائلی ’’شکار‘‘ کی تلاش کے اس عمل کو ’’دہاڑا‘‘ کہتے تھے‘ مرد جب دہاڑے کے لیے نکلتے تھے تو عورتیں ان کی کام یابی کے لیے دعائیں بھی کرتی تھیں اور منتیں بھی مانگتی تھیں اورجب قسمت کا کوئی مارا ان کے ہتھے چڑھ جاتا تھا تو یہ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے تھے‘ آپ قسمت کا ہیر پھیر دیکھیں‘ اکرم صدیقی ایک سرکاری ٹھیکے دار لالہ سندر لال جی کے ساتھ 25 جون 1910ء کو تانگے پر بنوں سے کوہاٹ روانہ ہو گئے‘ قبائلی فراریوں نے انہیں راستے میں اغواء کر لیا اور وہ انہیں رائفل کے زور پر پہاڑوں کے اندر ڈیڑھ دن پیدل چلا کر اپنے گائوں لے گئے‘ مغویوں کو دیکھ کر گائوں میں جشن شروع ہو گیا اور لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے لگے۔اکرم صدیقی صاحب کے پاس ایک پنج سورۃ تھا‘ یہ ان کی واحد ڈھارس تھا‘ یہ ہما وقت اس کی تلاوت کرتے رہتے تھے اور اللہ سے مدد مانگتے رہتے تھے‘ فراریوں کی قید بہت سخت تھی‘ وہ دونوں مغویوں کے پائوں میں بھاری زنجیریں ڈال کر ان پر تالہ لگا دیتے تھے یا درختوں کے موٹے تنوں میں سوراخ کر کے
ان کے پائوں ان میں پھنسا دیتے تھے اور یوں مغوی بھاگنا تو دور حرکت بھی نہیں کر سکتا تھا‘ یہ ان پر بہیمانہ تشدد بھی کرتے تھے‘ زنبور سے مغویوں کے دانت بھی نکال دیتے تھے اور انہیں کوڑوں سے بھی مارتے تھے‘ وہ یہ سلوک عموماً مغویوں کے سامنے کرتے تھے اور پھر ان میں سے کسی بے آسرا مغوی کو رہا کر دیتے تھے اور وہ جب واپس جا کر خون کے آنسوئوں کے ساتھ مغویوں کا احوال سناتا تھا تو لواحقین کے دل دہل جاتے تھے اور وہ زمین جائیداد بیچ کر اپنے پیاروں کو چھڑانے پر
مجبور ہو جاتے تھے‘ اغواء کار بے انتہا مذہبی بھی تھے‘ اغواء کاری ان کا پیشہ تھا اور نماز عبادت‘ وہ پانچ وقت نماز پڑھتے تھے‘ تلاوت بھی کرتے تھے اور اس کے ساتھ مغویوں پر دل کھول کر تشدد بھی کرتے تھے‘ وہ انہیں جی بھر کر ذلیل بھی کرتے تھے‘ کھانے کے لیے صرف سوکھی روٹی دیتے تھے اور وہ بھی بہت تھوڑی‘ ان کے کپڑے اور جوتے ان لوگوں نے آپس میں بانٹ لیے تھے‘ وہ انہیں کتوں کو روٹی نہیں ڈالنے دیتے تھے‘ ان کاخیال تھا اس سے کتے مغویوں کے ساتھ مانوس ہو جائیں گے
اور یہ لوگ اگر فرار ہونے کی کوشش کریں گے تو کتے چپ چاپ انہیں جانے دیں گے‘ فراری رات کو ان کی زنجیریں اپنی چارپائیوں کے ساتھ باندھ کر سوتے تھے‘ مغوی اگر کروٹ بھی بدلتے تھے تو یہ اٹھ کر بیٹھ جاتے تھے‘ گائوں میں غربت کا یہ عالم تھا جب اکرم صدیقی نے بتایا میں نے کپڑے دھلنے کے لیے دھوبی کو دے رکھے تھے تو ایک اغواء کار نے حیرت سے پوچھا کیا تمہارے پاس کپڑوں کے دو جوڑے ہیں؟ وہ لوگ کھانا بھی صرف ایک وقت کھاتے تھے‘ مرد اگردہاڑے‘ جنگ یا کسی تقریب میں شرکت کے لیے جاتے تھے تو عورتیں مغویوں کی نگرانی کرتی تھیں‘ یہ اکرم صدیقی کو نماز کے وقت نماز کے
لیے بھی اٹھاتے تھے اور بعض اوقات ان کی امامت میں نماز بھی پڑھ لیتے تھے لیکن ان کے ساتھ ظلم اور ذلت کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے‘ انسانوں کو قتل کر دینا یا معمولی بات پر لڑ پڑنا یہ ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوتی تھی‘ فراریوں نے اکرم صدیقی کا تاوان 12 ہزار روپے طے کیا تھااور یہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی‘ حکومت نے یہ رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا‘انگریز کا خیال تھا ہم نے اگر ایک بار رقم دے دی تو یہ لوگ پھر روز سرکاری ملازمین کو اغواء کریں گے لہٰذا حکومت سیاسی اور سفارتی دبائو کے ذریعے رہائی کی کوششیں کرنے لگی‘صدیقی صاحب کے والدین غریب تھے‘
وہ اتنی خطیر رقم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے لہٰذا صدیقی صاحب کا مستقبل مخدوش تھا‘ وہ 45 دن فراریوں کی قید میں رہے‘ وہ دن انتہائی خوف ناک اورصبر آزما تھے‘ اس وقت صرف اللہ کی ذات ان کی حامی اور ناصر تھی‘ بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں مغوی 45 دن بعد اپنی زنجیریں ڈھیلی کرنے میں کام یاب ہو گئے اور وہاں سے بھاگ نکلے‘ یہ دونوں راستے میں ایک دوسرے سے
بچھڑ گئے‘ خوراک اور پانی دستیاب نہیں تھا‘ راستے کا علم نہیں تھا لیکن یہ اس کے باوجود بھاگتے رہے‘ راستے میں گوبر تک کھانے پر مجبور ہو گئے‘ فراری بھی انہیں تلاش کرتے رہے لیکن اللہ کے کرم سے یہ بچ گئے‘ صدیقی صاحب گرتے پڑتے مرکزی شاہراہ کے ایک گائوں میں پہنچ گئے‘ پولیٹیکل ایجنٹ کو اطلاع ہوئی اور یوں یہ حکومت کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گئے‘ لالہ سندر لال جی بھی بعدازاں بچ بچا کر پہنچ گیا۔
شیخ محمد اکرم صدیقی بعدازاں لاہور میں سیٹل ہوگئے‘ ان کے ایک بھائی ڈاکٹر محمد یوسف نے خان بہادر کا خطاب پایا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے‘ وہ لاہور کے نامور کارڈیالوجسٹ تھے‘ خاندان کے باقی لوگ بھی اعلیٰ عہدوں تک پہنچے اور خوش حال زندگی گزاری‘ صدیقی صاحب نے باقی زندگی کا بڑا حصہ لاہور چھائونی میں صدر کے علاقے میں گزارا‘ اس زمانے میں صدر کے پورے بازار میں صرف تین مسلمان دکان دار تھے‘ ایک کباڑیہ تھا‘ دوسرا پنساری کی دکان کرتا تھا
اور تیسرا تمباکو فروش تھا جب کہ باقی سارا بازار ہندو تاجروں کے قبضے میں تھا‘ صدیقی صاحب قیام پاکستان کے وقت چھائونی میں شفٹ ہو گئے‘چھائونی میں ان کا گھر سب سے چھوٹا تھا لیکن یہ بھی دس کنال پر مشتمل تھا‘ آپ اگر لاہور سے واقف ہیں تو آپ نے راحت بیکری دیکھی ہو گی‘ یہ ساری عمارت شیخ صاحب کی ملکیت تھی اور یہ سینٹ جان بلڈنگ کہلاتی تھی‘ یہ انہوں نے 70 کی دہائی میں 14 لاکھ روپے میں فروخت کر دی تھی‘صدیقی صاحب بھرپور زندگی گزارنے کے
بعد 1983ء میں 96 سال کی عمر میں انتقال فرماگئے تاہم ان کا خاندان آج بھی لاہور کینٹ میں رہائش پذیر ہے‘ یہ شیخ صاحب کا عمومی تعارف تھا‘ اصل بات شیخ محمد اکرم صدیقی کی کتاب ہے‘ صدیقی صاحب نے فرار کے بعد اپنے اغواء کے دنوں پر قیدیاغستان کے نام سے ایک خوب صورت کتاب لکھی تھی‘ یہ کتاب قیام پاکستان سے قبل پورے ہندوستان میں مشہور ہوئی‘ علامہ اقبال بھی ان کے طرز تحریر اور مظلومیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ شیخ صاحب پوری زندگی یہ کتاب چھاپتے رہے‘
کتاب کا ایک حصہ مختلف اوقات میں مختلف جماعتوں کے سلیبس میں بھی شامل رہا‘ انگریز افسر بھی ان کی بہادری اور جرأت سے متاثر تھے‘ شیخ صاحب مرحوم بعدازاں ان علاقوں میں بھی گئے اور انہیں جہاں رکھا گیا تھا یا یہ فرار کے دوران جن مقامات سے گزرے تھے یہ وہاں بھی پہنچے اور بیٹھ کر دیر تک یادوں کے پھوڑوں پر خارش بھی کرتے رہے‘ یہ ہر سال جون کے مہینے میں لاہور میں اپنے پائوں زنجیروں میں باندھ کر بیٹھ جاتے تھے اور رو رو کر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے‘
شیخ صاحب کی تین نسلیں دنیا سے گزر چکی ہیں‘ صرف ایک صاحبزادی حیات ہیں لیکن یہ بھی بہت ضعیف اور علیل ہیں‘ پاکستان کی چھ نسلیں قیدیاغستان پڑھ کر جوان ہوئیں لیکن پھر یہ کتاب بھی بے شمار دوسرے ماسٹر پیسز کی طرح ماضی کے غار میں دفن گئی اور لوگ اس کا وجود تک بھول گئے‘ کراچی میں ایک انجینئر رہتے ہیں‘ راشد اشرف‘ یہ کتابوں کے دیوانے ہیں‘ ان کے پاس کتاب کی
ایک کاپی موجود تھی‘ راشد اشرف نے ڈاکٹر پرویز حیدر کے ساتھ مل کر ماضی کی زندہ کتابیں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا‘ شیخ اکرم صدیقی صاحب کی صاحبزادی سے اجازت لی اور یہ کتاب ایک بار پھر شائع کر دی‘ عرفان جاوید نے دو ماہ قبل میرے ساتھ قیدیاغستان کا ذکر کیا‘ میں نے کتاب تلاش کی‘ پڑھی اور اس کے بعد ڈاکٹر پرویز حیدر اور راشد اشرف کو شکریے کے لیے فون کیا‘
جون 2021ء میں شیخ اکرم صدیقی مرحوم کو قید ہوئے ایک سو گیارہ سال ہو چکے ہیں اور کتاب کو شائع ہوئے سو سال‘ میں نے ایک سو دس سال بعد قیدیاغاستان پڑھی اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے‘ شیخ صاحب نے اپنی داستان قلم سے نہیں لکھی تھی‘ آنسوئوں اور آہوں سے لکھی تھی اور اس کی ہر سطر آج بھی پڑھنے والے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ہم انسان بیک وقت اتنے ظالم اور مظلوم کیوں ہیں؟ ہم دوسروں کو جینے کیوں نہیں دیتے؟۔
میں نے کل یہ کتاب ایک ماہ میں دوسری بار ختم کی‘ لمبی آہ بھری اور کتاب کو چوم کر کہا‘ لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن کتابیں نہیں جاتیں‘ کسی نے سچ کہا تھا تم اگر لمبے عرصے تک زندہ رہنا چاہتے ہو تو ایسے کارنامے کرو جن پر کتابیں لکھی جائیں اور تم اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر پڑھی جانے والی کتابیں لکھو تاکہ لوگ تمہیں تمہارے بعد بھی یاد رکھیں اور شیخ محمد اکرم صدیقی کی قید یاغستان میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں‘ کارنامہ بھی اور کتاب بھی۔