منگل 15 جون کو پارلیمنٹ میں تین بڑے واقعات پیش آئے‘ حکومتی وزراء نے دوسرے روز بھی اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو تقریر نہیں کرنے دی‘ ایوان مچھلی منڈی بنا رہا‘ وزراء اپوزیشن اور اپوزیشن وزراء کو بجٹ کی کاپیاں مارتی رہی‘ مہذب ایوان کے مہذب ترین ارکان نے ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں بھی دیں اور ایک دوسرے کو مارنے کے لیے بھی لپکتے رہے‘
یہ مناظر انتہائی افسوس ناک تھے‘ سپیکر اسد قیصر بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے‘ ایوان کی کارروائی تین بار روکی گئی لیکن ارکان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا‘ حکومت تین دن سے اعلان کر رہی تھی آپ عمران خان کو نہیں بولنے دیں گے تو ہم بلاول بھٹو اور شبہاز شریف کو بھی تقریر نہیں کرنے دیں گے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینئر ایم این اے نے مجھے بتایا ’’ہمارے دو ایم این ایز نے ’’ڈونکی راجہ کی سرکار نہیں چلے گی‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے تھے‘ ہمارے سینئر قائدین نے ان ایم این ایز کو روک دیا‘ ہمارے پاس تھوڑی دیر بعد وزیراطلاعات فواد چودھری آئے اور ہمیں کہا ‘آپ یہ نعرے نہ لگائیں‘ وزیراعظم انائے ہو رہے ہیں بس ہمیں اشارہ مل گیا اور ہم نے جی بھر کر یہ نعرے لگانا شروع کر دیے‘‘ ان کا دعویٰ تھا‘ ہمیں اگر فواد چودھری ہنٹ نہ دیتے تو ہم یہ نعرے نہ لگاتے‘ قومی اسمبلی کے پچھلے تین دن بہرحال بہت افسوس ناک تھے لیکن اس افسوس ناک صورت حال میں سے دو نئی ڈویلپمنٹس نے بھی جنم لیا‘ یوسف رضا گیلانی نے میاں شہباز شریف سے ملاقات کی اور ان کو اپنی قیادت کا پیغام دیا ’’ہماری تقسیم سے حکومت فائدہ اٹھا رہی ہے لہٰذا ہمیں کم از کم پارلیمنٹ میں مل کر حکومت کا مقابلہ کرنا چاہیے‘‘ شہباز شریف نے ان کے ساتھ ایگری کر لیا‘ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ن لیگ کو دوسرا پیغام تھا‘ اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے صاحب زادے اسعد محمودسے بھی کہا تھا ’’ہم سب کا نقصان اورفائدہ ایک ہے لہٰذا ہمیں مل
کر چلنا چاہیے‘ آپ مولانا صاحب سے کہیں یہ کوئی درمیان کا راستہ نکالیں‘‘ یہ پیغام مولانا تک پہنچ گیا لیکن یہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تیسرا موقع نہیں دینا چاہتے تاہم ن لیگ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پاکستان پیپلز پارٹی کی سنجیدگی چیک کرنا چاہتی ہے‘ شہباز شریف چاہتے ہیں پیپلز پارٹی قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرے‘ اپوزیشن جماعتیں حمایت کریں اور اگرقاسم سوری فارغ ہو جاتے ہیں تو اپوزیشن ایک بار پھر پی ڈی ایم کو فعال کر دے اور یہ تحریک
اگر ناکام ہو جاتی ہے توپھر یہ اپنی اپنی سیاست کا سلسلہ جاری رکھیں‘ ن لیگ کا ایک مضبوط دھڑا پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں‘ یہ لوگ مریم نواز کی بھی بلاول بھٹو کے ساتھ سیاسی قربت کے حامی نہیں تھے‘ یہ 27 دسمبر 2020ء کے پیپلز پارٹی کے جلسے میں مریم نواز کے گڑھی خدا بخش جانے کے بھی خلاف تھے اور یہ برملا کہتے تھے ہمیں پیپلز پارٹی کے
اتنا قریب نہیں جانا چاہیے کہ یہ ہمیں بیچ دے‘ مارچ 2021ء میں جب پی ڈی ایم ختم ہوئی تو یہ دھڑا نظریں نیچی کر کے کہتا تھا ’’ہم نہ سمجھاتے تھے لیکن ہماری کون سنتا ہے‘ اب ہور چوپو‘‘ یہ اب بھی سمجھ رہے ہیں پیپلز پارٹی ہمیں دوسری بار بھی بیچ دے گی‘ حکومت نے سندھ اور زرداری صاحب کے مقدمات پر اپنی کمٹمنٹ پوری نہیں کی‘ احتساب عدالت نے آصف علی زرداری کو 29 جون کو طلب کر لیا ہے‘ نیب مزید ثبوت بھی جمع کر چکا ہے‘ وزیراعظم اس سال میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو دونوں کو میاں نواز شریف کی طرح ’’ڈس کوالی فائیڈ‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں‘ سپریم کورٹ نے بھی نالوں کی
صفائی اور تجاوزات پر سندھ حکومت کی کلاس لینی شروع کر دی ہے‘ پیپلز پارٹی پریشر میں ہے اور یہ ہمیں استعمال کر کے حکومت سے دوسری بار رعایت لینا چاہتی ہے لہٰذا ہمیں اس کے ٹریپ میں نہیں آنا چاہیے تاہم میاں شہباز شریف پیپلز پارٹی کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے اپوزیشن کی تقسیم حکومت کو فائدہ پہنچا رہی ہے‘ ہمیں اس مرحلے پر تقسیم نہیں ہونا چاہیے‘آج تک کے
فیصلوں کے مطابق اپوزیشن پہلے قاسم سوری پر اپنے مسلز چیک کرے گی اور اس کے بعد کوشش کرے گی حکومت بجٹ پاس نہ کرا سکے اور اگر حکومت بجٹ پاس نہ کرا سکی تو یہ ختم ہو جائے گی چناں چہ اپوزیشن کی سیاست اب قاسم سوری کے اردگرد گھومے گی‘ ان کے فیوچر کا فیصلہ اب ان کا نام کرے گا۔میرے مرحوم والد ملک کے بارے میں بہت پریشان رہتے تھے‘
وہ کہا کرتے تھے ہم نے 85سال میں اپنے اردگرد امن اور سکون نہیں دیکھا‘ ہمیں ہوش سنبھالتے ہی آگ‘ نفرت‘ احتجاج اور مار دھاڑ ملی‘ میرا خیال تھا یہ وقت کے ساتھ کم ہو جائے گی لیکن یہ مزید بڑھ گئی‘ ہم نے جیسے تیسے گزار لی مگر اب آپ اور آپ کے بچوں کا کیا بنے گا؟ میں ان کی فیلنگز کو ان کا بڑھاپا سمجھتا تھا‘ انسان بوڑھا ہو کر کم زور بھی ہو جاتا ہے اور منتشر المزاج بھی لیکن آج میں بھی اپنے والد جیسی صورت حال کا شکار ہوں‘ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی اور ہم کہاں سے
کہاں آ گئے؟ ہم 1947ء تک ہندوستانی تھے‘ ہماری زبان‘ کلچر‘ لباس اور رہن سہن ایک تھا بس مذہب کا فرق تھا لیکن آج بھارت کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟ یہ بزدلی اور غربت کے باوجود دنیا کے قدموں کے ساتھ قدم ملا کر چل رہا ہے جب کہ ہم صاف ستھرے‘ خوب صورت‘ ذہین اور بہادر ہونے کے باوجود ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے دنیا بھر کی منتیں کر رہے ہیں‘ ان کا سندر پچائی گوگل کا ورلڈ سی ای او ہے جب کہ ہمارا نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام ملک کو ترستا‘
ترستا مر گیا اور دوسری نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پاکستان میں قدم نہیں رکھ سکتی‘ دنیا کی کھرب پتیوں کی فہرست میں بھارت کے بزنس مین دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں جس نے بھی سر اٹھایا‘ ہم نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا‘ آخر بھارت میں کیا خوبی تھی اور ہم میں کیا خرابی ہے؟ بنگلہ دیش 1971ء تک ہمارا حصہ تھا بلکہ رکیے‘ ہم اس کا حصہ ہوتے تھے‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی دنیا کا پہلا واقعہ تھا جس میں اکثریت نے اقلیت کو چھوڑا ہو‘ ہم بنگالیوں کو ’’پتلی ٹانگوں
اور سیاہ چمڑے‘‘ والے لوگ کہتے تھے لیکن آج پچاس سال بعد یہ سیاہ چمڑے اور پتلی ٹانگوں والے ہم سے ہر فیلڈ میں آگے ہیں‘ 16 دسمبر 2021ء کو مشرقی پاکستان کو آزاد ہوئے پچاس سال ہو جائیں گے‘بنگلہ دیش 50ویں سالگرہ پر 50 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کا ٹارگٹ پورا کرلے گا جب کہ ہم 20 بلین ڈالر کو 23 بلین ڈالر میں تبدیل کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں‘ ہمیں کوئی وزیرخزانہ ہی پسند نہیں آ رہا‘ ہم کبھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور کبھی واپس آ جاتے ہیں‘ ہم آج تک یہ طے نہیں کر سکے
ہمیں کیا چاہیے اور کیا نہیں چاہیے؟ ہم آج بھی ریلوے‘ موٹرویز‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل اور میٹروز پر لڑ رہے ہیں‘ حکومت اور اپوزیشن’’ بجلی زیادہ پیدا کر دی‘ بجلی کم پیدا کی‘‘ پر دست وگریباں ہیں‘ہماری پارلیمنٹ کا تماشا پوری دنیا دیکھ رہی ہے‘ ہم آج 2021ء میں بھی ’’مارشل لاء آ جائے گا‘‘ کی دھمکیاں دے رہے ہیں‘ صدر‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف اور چیئرمین نیب بزنس مینوں کو
بلا کر کہہ رہے ہیں آپ کام کریں‘ آپ کو نیب کچھ نہیں کہے گا لیکن کوئی شخص کاروبار کرنے کے لیے تیار نہیں‘ لوگ پوری دنیا میں خوش حال ہونے کے بعد اپنے وطن میں واپس آتے ہیں جب کہ پاکستان میں جس کے پاس پیسہ آ جاتا ہے وہ ملک سے باہر ٹھکانہ تلاش کرنے لگتا ہے‘ یہ ہمارا ملک ہے لیکن کتنے لوگ اس میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں؟ تھانے جائیں تو بے عزت ہو جاتے ہیں‘ عدالت جائیں تو تھک کر مر جاتے ہیں‘ ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں تو وہ قصائی کی طرح چیر دیتا ہے‘
مکان دکان خرید لیں تو اس پر قبضہ ہو جاتا ہے‘ یونیورسٹی سے ڈگری لے لیں تو پتا چلتا ہے یہ صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے‘ ایمبیسیوں میں جائیں تو ویزے نہیں ملتے‘ باہر چلے جائیں تو ہمارا پاسپورٹ دیکھ کر ہمیں مشکوک لوگوں کی لائین میں کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ آٹا لینے جائیں تو آٹا غائب‘ چینی کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور دالیں ہم باہر سے منگواتے ہیں‘ یہ ملک ہے یا سرکس ہے؟۔ہم آخر کب رکیں گے‘ یہ سینہ کوبی کا سلسلہ کب بند ہوگا‘ ہم کب تک اپنا بستر کھولتے اور بند کرتے رہیں گے؟ ہماری نسلیں برباد ہو گئی ہیں اور نسلیں برباد ہو رہی ہیں لہٰذا اب بس کر دیں‘ اب تو بس کی بھی بس ہوگئی ہے‘ آپ لوگ آخر کرنا کیا چاہتے ہیں؟۔