ممتا بینر جی نے تیسری بار مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ بن کر ریکارڈ قائم کر دیا‘ یہ بھارت کی تاریخ میں 15 سال مسلسل سی ایم رہنے والی پہلی سیاست دان ہوں گی‘ ممتا جی انڈیا کی طاقتور ترین اور دنیا کی سو بااثر ترین خواتین میں بھی شامل ہیں اور یہ دنیا کی واحد سیاست دان بھی ہیں جو سیاست دان کے ساتھ ساتھ گیت نگار‘ موسیقار‘ ادیب اور مصورہ بھی ہیں۔
یہ 87 کتابوں کی مصنفہ‘ سیکڑوںگیتوں کی شاعرہ اور تین سو بیسٹ سیلر پینٹنگز کی مصورہ بھی ہیں اور یہ ہندوستان کی پہلی سیاست دان بھی ہیں جس نے سادگی اور غریبانہ طرز رہائش کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی کو شکست دے دی ‘ یہ بنگال میں دیدی کہلاتی ہیں اوردنیا میں کام یاب سیاست کی بہت بڑی کیس اسٹڈی ہیں‘ ممتابینر جی نے کیا کیا اور یہ کیسے کیا؟ ہم اس طرف آئیں گے لیکن ہم پہلے اس خاتون کا بیک گراؤنڈ جان لیں۔ممتا بینر جی 1955 میں کولکتہ میں پیدا ہوئیں‘ والد چھوٹے سے سیاسی ورکر تھے‘ والدہ ہاؤس وائف تھیں‘ یہ چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں‘ والد فوت ہو گئے‘ خاندانی برہمن ہیں‘ چھوت چھات کے پابند ہیں‘ ممتا کالج پہنچیں تو اسلامی تاریخ سے متعارف ہوئیں اور آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات میں اترتی چلی گئیں۔یہ اکثر اپنے آپ سے سوال کیا کرتی تھیں حجاز جیسے جاہل معاشرے میں ایک شخص نے انقلاب کیسے برپا کر دیا‘ یہ 53سال کی عمر میں مکہ سے ہجرت کر گئے اور 10سال بعد یہ نہ صرف
پورے حجاز کے مالک تھے بلکہ یہ دنیا کی دونوں سپرپاورز کے دروازے پر دستک بھی دے رہے تھے‘ آخر ان لوگوں میں کیا کمال‘ کیا خوبی تھی؟ یہ جواب تلاش کرنا شروع کیا تو پتا چلا سادگی اور عاجزی نبی اکرمؐ اور ان کے ساتھیوں کا سب سے بڑا ہتھیار تھا‘ یہ لوگ مال ومتاع‘ عیش وآرام اور نمودونمائش سے بالاتر تھے اور کردار کی یہ خوبیاں انسانوں
اور لیڈرزدونوں کو عظیم بنادیتی ہیں۔ممتا بینرجی نے یہ فارمولا چیک کرنے کا فیصلہ کیا‘ اس نے سادگی کو اپنا ہتھیار اور زیور بنا لیا اور پھر کمال ہو گیا‘ یہ 15سال کی عمر میں اسٹوڈنٹ لیڈر بنیں‘ اسلامک ہسٹری‘ ایجوکیشن اور قانون میں ڈگریاں لیں‘ سیاست میں آئیں اور 29سال کی عمر میں سی پی آئی ایم پارٹی کے لیڈر سومناتھ چیٹر جی کو ہرا کر پورے
انڈیا کو حیران کر دیا‘ یہ 1984 کی لوک سبھا کی کم عمر ترین ایم ایل اے تھیں‘ یہ چھ باراسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں‘ اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کی حکومت میں تین بار وفاقی وزیر بنیں اور پھر 2011 میں استعفیٰ دے کر صوبے کا الیکشن لڑا اور بنگال کی سی ایم بن گئیں اور پھر 2016 میں دوسری بار اور 2021 میں تیسری بار الیکٹ ہو گئیں۔
ممتا بینر جی نے 1998 میں اپنی سیاسی جماعت آل انڈیا ترینمول کانگریس بنائی تھی ‘ یہ جماعت ہر الیکشن میں پہلے سے زیادہ سیٹیںجیت رہی ہے‘ پارٹی نے کُل 292 سیٹوں میں سے 2011 میں 184‘ 2016 میں 209 اور 2021 میں 213 سیٹیں حاصل کیں‘ یہ بھی انڈیا میں ریکارڈ ہے‘ ممتاجی سے پہلے مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی 34سال حکمران رہی‘
ملک کی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت بھی کمیونسٹ پارٹی کا مقابلہ نہ کر سکی لیکن یہ آئیں اوراسے ناک آؤٹ کرنا شروع کر دیا اور 2021 کے الیکشن میں کمیونسٹ پارٹی کا ایک بھی امیدوار اسمبلی نہیں پہنچ سکا۔یہ مسلمانوں اور خواتین دونوں میں بہت پاپولر ہیں‘ بنگال کے 30فیصد ووٹرزمسلمان ہیں‘یہ سب انھیں ووٹ دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ مسلمانوں
کا احترام کرتی ہیں‘ نریندر مودی ان کی مسلم دوستی کو ’’دشمن سے محبت‘‘ قرار دیتے ہیں اور انھیں طنزاً بیگم کہتے ہیں‘ بی جے پی نے 2021کے الیکشن میں ممتا بینر جی کو ہرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن اس کے باوجود صرف77 سیٹیں حاصل کر سکی جب کہ ممتا بینرجی نے 213 سیٹیں لیں‘ کیا یہ کمال نہیں؟۔ہم اب اس سوال کی طرف
آتے ہیں ممتابینرجی نے یہ کمال کیا کیسے؟ اس کے پیچھے ان کی سادگی اور عاجزی ہے‘ یہ غیرشادی شدہ سنگل خاتون ہیں‘ گیارہ سال سے10کروڑ لوگوں کے صوبے کی سی ایم ہیں لیکن یہ آج تک چیف منسٹر ہاؤس میں نہیں رہیں‘ کولکتہ کی ہریش چیٹرجی اسٹریٹ میں ان کا دو کمرے کا مکان ہے‘ یہ اس میں رہتی ہیں اور گھر میں کوئی ملازم بھی نہیں‘
یہ تین بار وفاقی وزیر اور دو بار چیف منسٹر رہیں‘ اس حیثیت سے انھیں دو لاکھ روپے پنشن ملتی ہے‘ آج تک انھوں نے یہ پنشن نہیں لی‘ انھوں نے آج تک وزیراعلیٰ کی تنخواہ بھی وصول نہیں کی‘ اپنے سارے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتی ہیں اورچائے بھی سرکاری نہیں پیتیں لیکن سوال یہ ہے ان کی ذاتی جیب میں پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ان کی کتابوں
اور کیسٹوں کی رائلٹی ہے۔یہ 87 کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں سے کئی کتابیں بیسٹ سیلر ہیں‘ان کی کیسٹس بھی بک جاتی ہیں یوں انھیں سالانہ پانچ سات لاکھ روپے مل جاتے ہیں اور یہ ان سے اپنے تمام اخراجات پورے کر لیتی ہیں‘ ان کی پینٹنگز بھی بکتی ہیں مگر یہ وہ رقم ڈونیشن میں دے دیتی ہیں‘ دوروں کے دوران ٹی اے ڈی اے بھی نہیں لیتیں اور ریسٹ ہاؤسز
کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کرتی ہیں‘ اکانومی کلاس میں سفر کرتی ہیں‘ ہمیشہ سستی سی سفید ساڑھی اور ہوائی چپل پہنتی ہیں۔کسی شخص نے آج تک انھیں رنگین قیمتی ساڑھی اور سینڈل میں نہیں دیکھا‘ میک اپ بالکل نہیں کرتیں‘ زیور کوئی ہے نہیں‘ سرکاری گاڑی بھی صرف سرکاری کاموں کے لیے استعمال کرتی ہیں‘ پانی بھی نلکے کا پیتی ہیں اور
گھر میں فرنیچر بھی پرانا اور سستا ہے‘یہ اگر سڑک پر چل رہی ہوں تو کوئی یہ اندازہ نہیں کر سکتا ترکاری کا تھیلا اٹھا کر چلنے والی یہ خاتون 10کروڑ لوگوں کی وزیراعلیٰ ہیں‘ دنیا نے انھیں موسٹ پاور فل وومن کی لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور یہ انڈیا کی آئرن لیڈی اور جمہوری ریکارڈ ہولڈر بھی ہیں‘ یہ چال ڈھال اور حلیے سے عام گھریلو ملازمہ
دکھائی دیتی ہیں لیکن اس خاتون نے صوبے میں کمال کر دیا‘ صحت‘ تعلیم‘ انفراسٹرکچر‘ وومن ایمپاورمنٹ‘ روزگار‘ اسپورٹس اور مذہبی ہم آہنگی اس نے ہر شعبے میں نئی مثالیں قائم کر دیں‘ یہ مسلمانوں کو اسلام کی باتیں بتاتی ہیں اور ہندوؤں کو گیتا میں سے امن کے پیغام پڑھ پڑھ کر سناتی ہیں‘ یہ سب کی دیدی ہیں۔ہم اگر ممتا بینرجی کی زندگی کا تجزیہ
کریں تو ہم سادگی اور عاجزی کی طاقت کے قائل ہو جائیں گے‘ دنیا میں یہ دو ایسے ہتھیار ہیں جن کا آج تک کوئی توڑ ایجاد نہیں ہو سکا‘ یہ دونوں موسٹ پاورفل ویپن ہیں‘ آپ زندگی میں ایک بار سادگی اور عاجزی اپنا کر دیکھ لیں آپ کو نتائج حیران کر دیں گے‘ آپ کسی دن ریاست مدینہ کا پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو اس میں بھی عاجزی اور
سادگی ملے گی‘ ریاست مدینہ میں سادگی کا یہ عالم تھا نبی رسالتؐ نے وصال سے قبل حضرت عائشہؓ سے پوچھا‘ میں نے آپ کو سات دینار دیے تھے‘ کیا وہ ابھی تک آپ کے پاس ہیں۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا ’’جی میرے پاس ہیں‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نکالیں اور ابھی خیرات کر دیں‘ مجھے شرم آتی ہے میں اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں اور میرے گھر
میں مال موجود ہو‘‘ آپؐ کے بعد چاروں خلفاء راشدین کے وصال کے وقت بھی کسی کے گھر میں مال ودولت نہیں تھی‘ یہ لوگ پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے‘ کچے گھروں میں رہتے تھے اور اینٹ پر سر رکھ کر سو جاتے تھے لیکن ان بوریا نشینوں کی ہیبت سے قیصر اور کسریٰ کے محل لرزتے تھے‘ حضرت عمرؓ فاتح شام حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کے گھر
تشریف لے گئے۔یہ اس وقت دنیا کے مہذب ترین خطے کے گورنر تھے لیکن گھر میں ایک پیالے اور کھردری دری کے سوا کچھ نہیں تھا‘ یہ سادگی دیکھ کر حضرت عمرفاروقؓ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور پیچھے رہ گئی عاجزی تو نبی اکرمؐ کی حدیث کا مفہوم ہے ’’جو شخص بھی اللہ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا رتبہ بلند کر
دیتا ہے‘‘ اس سے آپ عاجزی کا رتبہ اور طاقت دیکھ لیجیے‘ یہ اتنے بڑے ہتھیار ہیں کہ انھیں اگر ایک برہمن خاتون بھی اپنا لے تو یہ حکومت کاری کا ریکارڈ قائم کر دیتی ہے اور لوگ حیرت سے منہ کھول کر دھان پان سی اس غریب خاتون کو دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ہمیں ماننا ہوگا ممتا بینر جی مسلمان ہیں اور نہ ہی یہ بنگال کو ریاست مدینہ
بنانا چاہتی ہیں لیکن انھوں نے ریاست مدینہ کے صرف دو اصول اپنا کر 58 اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ مار دیا لہٰذا میری عمران خان‘ بلاول بھٹو اور مریم نواز سے درخواست ہے آپ اگر واقعی لیڈر بننا چاہتے ہیں اور ملک کو ریاست مدینہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ پلیز چند لمحوں کے لیے ممتابینرجی کو دیکھ لیں‘ آپ بس ایسے بن جائیں‘ دنیا آخری سانس تک آپ کا نام نہیں بجھنے دے گی ورنہ آپ بھی اس جگنو ستان کے جگنو بن کر بجھ جائیں گے اور آپ کے بعد آپ کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔