میں ساتویں مرتبہ اہرام مصر کے سامنے کھڑا تھا اور دنیا کے پہلے عجوبے کی ہیبت آہستہ آہستہ میرے دل پر اتر رہی تھی‘ نپولین بونا پارٹ نے خوفو کے اہرام کے سامنے کھڑے ہو کر سچ کہا تھا ”انسان کو مرنے سے پہلے کم از کم ایک بار گیزا کے اہرام ضرور دیکھنے چاہییں“ اور میں اب تک انہیں سات بار سلام کر چکا ہوں‘ میں ہر بار یہ سوچ کر واپس جاتا ہوں میں ان کے بارے میں سب کچھ جان گیا ہوں لیکن جب اگلی مرتبہ آتا ہوں تو یہ اپنا کوئی نہ کوئی نیا فسوں میرے اوپر کھول دیتے ہیں اور میں اپنی کم علمی اور جہالت کا ماتم شروع کر دیتا ہوں۔
میں اس بار بھی ان کے سامنے کھڑا تھا اور دیر تک بنانے والے نامعلوم فن کاروں کو ان کے فن کی داد دے رہا تھا‘ صدیوں کے بیٹوں پر مارچ کے آخری ہفتے کی دھوپ برس رہی تھی‘ صحرا کی حیران اور پریشان ہوائیں ہزاروں سال پرانے پتھروں کے راز گدگدا رہی تھیں اور وقت اپنی انگلیاں منہ میں داب کر انہیں خوف زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔آئی بیکس کا گروپ مارچ کے آخری ہفتے میں کورونا کے خوف کی دیواریں توڑ کر مصر پہنچ گیا‘ ہمارا دوسرا دن اہرام مصر‘ قاہرہ میوزیم اور مصر کے قدیم ترین بازار خان خیلی کے لیے وقف تھا‘ حکیم بابر میرے پرانے دوست اور ہمارے ٹور فیلو ہیں‘ یہ دوسری بار مصر آئے‘ یہ پہلی مرتبہ فرعون خوفو کے اہرام کے اندر نہیں جا سکے تھے‘ ان کی کوہ طور کی زیارت بھی باقی تھی‘ میں نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اگر مہلت اورسہولت دی تو میں ان کے ساتھ خوفو کے اہرام کے اندر جاﺅں گا‘ یہ اس بار دوبارہ گروپ میں شامل ہو گئے اور ہم گروپ سے الگ ہو کر خوفو کے اہرام کی طرف چل پڑے‘ خوفو فرعونوں کی چوتھی لڑی کادوسرا فرعون تھا‘ یہ 2589سے 2566قبل مسیح تک دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا حکمران رہا‘ اس نے اپنی زندگی میں اپنا اہرام بنا لیا تھا‘ فرعون سورج کی پرستش کرتے تھے‘ ان کی زندگی میں دو چیزیں اہم ہوتی تھیں‘ سورج اور دریائے نیل‘ یہ ان دونوں کا بے انتہا احترام کرتے تھے‘ یہ مشرق کو زندگی اور مغرب کو موت سمجھتے تھے لہٰذا یہ دریائے نیل کے مشرقی کناروں پر محل‘ گھر اور باغ بناتے تھے اور مغربی کناروں پر قبرستان اور اہرام ۔
آپ کو قدیم مصر کے تمام شہر اور بستیاں دریائے نیل کے مشرق اور اہرام اور قبرستان مغربی کناروں پر ملتے ہیں‘ قاہرہ کے اہرام بھی دریائے نیل کی مغربی سائیڈ پر ہیں‘ یہ مقام گیزا کہلاتا ہے اور اس مناسبت سے یہ گیزا کے اہرام‘ یہ نو اہراموں کا کمپلیکس ہے‘ سب سے بڑا اہرام خوفو کا اہرام ہے اور یہ دنیا کا پہلا عجوبہ ہے‘ سوال یہ ہے یہ اعزاز اسے کیسے حاصل ہوا؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ یہ 142 میٹر بلند ہے اور اسے اس بلندی تک پہنچانے کے لیے چار ہزارچھ سو سال پہلے قاہرہ سے آٹھ سو کلو میٹر دور لکسر سے اڑھائی ٹن سے لے کر 25ٹن تک وزنی 25 لاکھ پتھر لائے گئے تھے اور یہ پتھر لفٹ اور کرین کے بغیر 142 میٹر (465فٹ) کی بلندی تک پہنچائے گئے تھے۔
یہ کیسے ممکن بنایا گیا؟ یہ ایک راز ہے اور یہ راز ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آیا‘ مصریات کے ماہرین اب تک آٹھ چھوٹی بڑی تھیوریز پیش کر چکے ہیں‘ آخری تھیوری کے مطابق خوفو نے اہرام کے گرد ریمپس بنوائے تھے‘ یہ پتھر ریمپس کے ذریعے کھینچ اور گھسیٹ کر اوپر پہنچائے گئے اور ریمپس بعدازاں پتھروں میں چھپا دیے گئے لیکن اس تھیوری کے بعد یہ سوال پیدا ہو گیا اہرام کے اندر انتہائی بلندی تک پتھر کیسے پہنچائے گئے ؟ اس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں۔
آپ بہرحال پتھروں کو چھوڑدیں۔اس اہرام کو عجوبہ قرار دینے کی پہلی وجہ اس کی 142 میٹر اونچائی ہے‘ سورج جب روز دن بارہ بجے اس کی چوٹی پر پہنچتا ہے تو چوٹی اور اس کے درمیان 142 ارب کلو میٹر کا فاصلہ ہوتا ہے‘ یہ کیلکولیشن حیران کن ہے اور مصریوں نے یہ فاصلے ساڑھے چار ہزار سال پہلے معین کر لیے تھے‘ دوسری وجہ اس کا مقام ہے‘ یہ عرض بلد اور طول بلد کے نقطہ اتصال پر بنا ہوا ہے اور طول بلد اور عرض بلد کا تعین اس اہرام کی تعمیر کے23سو سال بعد ہوا۔
گویا وہ لوگ ارضیات کی سائنس میں ہم سے 23سوسال ایڈوانس تھے ‘ تیسری وجہ دنیا کوخشکی اور تری دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے‘ زمین کی سطح پر71 فیصدپانی اور29فیصد خشکی ہے‘یہ اہرام ان دونوں کے عین درمیان ہے‘ آپ اس سے خشکی کو ناپیں یا پانی کو یہ آپ کو عین درمیان میں ملے گا اور یہ بھی حیران کن بات ہے اور چوتھی وجہ خوفو اور اس کے دائیں بائیں موجودخیفرے اورمینکورکے اہرام پر ہر دو ہزار سات سوسینتیس سال بعد تین سیارے مرکری‘وینس اور سیٹرن فارمیشن بناتے ہیں اور یہ ایک قطار میں تینوں اہراموں کی نوک پر کھڑے نظر آتے ہیں۔
قدرت کا یہ مظہر آخری بار تین دسمبر 2012ءکو دیکھا گیا تھا‘ یہ کیلکولیشن بھی حیران کن ہے لہٰذا اہرام مصر صرف آرکی ٹیکچر میں عجوبہ نہیں بلکہ یہ فلکیات‘ ریاضی اور علم نجوم میں بھی عجوبہ ہے۔قدیم مصری لوگ حیات بعد از موت کے قائل تھے‘ یہ سمجھتے تھے انسان دوبارہ پیدا ہوتا ہے لہٰذا یہ لاشیں حنوط کر کے تمام مال ومتاع کے ساتھ اہراموں میں دفن کر دیتے تھے‘ یہ شروع میں لاش کو اس طرح دفن کرتے تھے جس طرح بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور یہ بعدازاں اس پر کمرہ یا اہرام تعمیر کر دیتے تھے۔
اس کی وجہ شاید دوبارہ پیدائش کا تصور ہو‘ آپ ان کی کیلکولیشن دیکھیے‘ اب فرعونوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کر کے ان کے بارے میں معلومات حاصل کی جارہی ہیں‘ کون کس کا بیٹا یا بیٹی تھی اور کون کس کی ماں اور بیوی اور ان کے انتقال کی وجہ اور تاریخ کیا تھی؟ یہ لوگ اگر اپنی لاشوں کو محفوظ نہ کرتے تو دنیا آج یقینا ان کے وجود سے واقف نہ ہوتی‘ یہ لوگ اس قدر سمارٹ تھے کہ یہ جانتے تھے دنیا میں ایک ایسا وقت آئے گا جب ان کے اہرام کھولے جائیں گے اور دنیا ان کے بارے میں معلومات جمع کرے گی اور یہ خیال بھی کسی معجزے ‘ کسی عجوبے سے کم نہیں تھا۔
خوفو کے اہرام میں داخل ہونے کے لیے خصوصی ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے‘ حکیم بابر نے اپنے ساتھ دو اور نوجوان تیار کر لیے‘ ایک عمردین تھے اور دوسرے کیپٹن یاسر‘ عمر دین لاہور میں جڑی بوٹیوں اور ڈرائی فروٹ کے بڑے امپورٹر اور ایکسپورٹر ہیں جب کہ کیپٹن یاسر عامر کمرشل پائلٹ اور یوٹیوبر ہیں‘ ہم چاروں خوفو کے اہرام میں داخل ہو گئے‘ اہرام کا دروازہ مشرق کی جانب اہرام کے درمیان میں ہے اور یہ دور سے نظر نہیں آتا‘ اس تک پہنچنے کے لیے چھوٹے بڑے تیس پتھر چڑھنے پڑتے ہیں۔
دروازہ ایک غار میں کھلتا ہے‘ ہم پتھروں سے بچتے بچاتے غار میں داخل ہوئے تو آگے بڑھنے کے لیے رکوع میں جھکنا پڑ گیا‘ یہ تین ساڑھے تین فٹ اونچا غار تھا‘ اس میں سر اٹھانے کا مطلب سر پھٹنے کے علاوہ کچھ نہیں‘ یہ غار ایک دوسرے غار میں کھل گیا‘ یہ غار بلندی کی طرف جاتا ہے اور اس کے لیے دو اڑھائی سو سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں‘ ان سیڑھیوں کے بعد سیڑھیوں کا ایک اور طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ ان کے آخر میں گرینائیٹ کی بیس پچیس فٹ اونچی دیوارآ جاتی ہے۔
اس دیوار میں ساڑھے تین بائی ساڑھے تین فٹ کا راستہ ہے‘ اس میں بھی بیٹھ کر داخل ہوا جا سکتا ہے‘ راستے کے درمیان میں ہوا اور روشنی کا حیران کن بندوبست ہے ‘ہم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر آگے بڑھے تو خوفو کا کمرہ آ گیا‘ یہ اہرام مصر کا ٹاپ ہے اور یہ یقینا 142 میٹر اونچائی پر ہو گا‘ یہ کمرہ تیس بائی پچیس فٹ لمبا اور چوڑا ہو گا‘ چھت البتہ انتہائی بلند تھی‘ دیواریں‘ فرش اور چھت سرخ گرینایٹ کی تھیں اور بڑی اور موٹی تھیں‘ کمرے میں ہوا کی آمدورفت اور سورج کی روشنی کا خصوصی انتظام تھا‘ کمرے میں دائیں جانب دیوار کے قریب خوفو کا سنگی تابوت تھا۔
تابوت کا رخ آسمان کی طرف تھا‘ یقینا سورج کی روشنی اس کے چہرے پر پڑتی ہو گی‘ وہاں آکسیجن بہت کم تھی‘ سانس لینے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود ہمارے جسموں پر ایک ہیبت طاری تھی‘ ہم جوں جوں یہ سوچتے تھے ہم اس فرعون کے تابوت کے سامنے کھڑے ہیں جس کی طاقت‘ دانائی اور فن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتابوں میں فرمایا تو ہمارے دل بیٹھ جاتے تھے‘ ہمارے سامنے اس کمرے میں وقت کا دریا بہہ رہا تھا‘ ایک ایسا دریا جس کی طغیانیاں آج کے زمانے کے لوگوں کی سوچ کو بھی بہا لے جاتی ہیں۔
میرے ساتھی ویڈیوز بنا رہے تھے جب کہ میں نے اذان دینا شروع کر دی‘ اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کی آواز فرعون کے مقبرے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس پلٹ رہی تھی‘ میں نے کان لگا کر سنا‘ میرا ایک بار کا اللہ اکبر آٹھ مرتبہ سنائی دیتا تھا‘ یہ کیا راز تھا؟ میں نہیں جانتا تاہم میں اتنا جانتا ہوں اللہ اکبر کی یہ آواز آج بھی فرعون کے مقبرے کی دیواروں سے ٹکرا کر یہ پیغام دیتی ہے انسان خواہ کتنا ہی بڑا اور مضبوط کیوں نہ ہو جائے‘ یہ خواہ اہرام ہی میں کیوں نہ چھپ جائے یہ بہرحال اللہ کی کبریائی کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ دنیا میں صرف ایک ہی اکبر ہے اور وہ ہمارا رب ہے‘ باقی سب کہانیاں ہیں اور ایک کہانی سامنے خالی مقبرے میں پڑی تھی۔