پیرس میں ایک بار مصوری کا مقابلہ ہوا‘ موضوع تھا ”سکون“ دنیا بھر کے ہزاروں مصوروں نے پینٹنگز بنائیں‘ تصویریں فلٹر ہو کر آخر میں دس رہ گئیں‘ ججز نے ان میں سے کسی ایک کو بیسٹ پینٹنگ قرار دینا تھا‘ تمام پینٹنگز ماسٹر پیس تھیں‘ ایک تصویر میں وادی تھی‘ رات کا وقت تھا‘ چاند نکلا ہوا تھا‘ جھیل کا پانی تک سکون کی نیند سو رہا تھا‘ چاروں اطراف گہرا سکوت تھا‘ درخت بھی سانس نہیں لے رہے تھے‘ ایک تصویر میں صحرا کی شام تھی‘ دور دور تک شام کی لالی اور ریت کا سمندر بکھرا ہوا تھا۔
وہ تصویر بھی سانس لیتی ہوئی محسوس ہو تی تھی‘ ایک تصویر میں ایک کالا اور سفید بچہ دنیا اور مافیہا سے بے پروا کھیل رہے تھے اور ان کے چہروں پر خوشی اور سکون کے انبار لگے تھے‘ ایک تصویر میں شیر اور ہرن کا بچہ قریب قریب لیٹے تھے اور شیرنی بڑے پیار سے دونوں کو دیکھ رہی تھی اور ایک تصویر میں ایک ملنگ لندن کے مصروف ترین ریلوے سٹیشن پر گندا کمبل اوڑھ کر لیٹا تھا اور کمبل کے نیچے سے ایک آنکھ سے ریلوے سٹیشن کے رش کو حیرت سے دیکھ رہا تھا‘ یہ تمام تصویریں لاجواب تھیں‘ مقابلہ سخت تھا‘ججز سر پکڑ کر بیٹھے تھے اور آرٹ لورز دم سادھ کر گیلری کے سامنے کھڑے تھے‘ دھڑکنیں دھڑکنوں سے الجھ رہی تھیں‘ ججز نے بہرحال طویل غوروفکر کے بعد دنیا کی بہترین تصویر کا فیصلہ دے دیا‘ بیسٹ پینٹنگ دیوار پر لگا دی گئی اور اس پر پردہ تان دیا گیا‘ لوگ دیوانہ وار دوڑے اور تصویر کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ گیلری کے منتظم نے ہجوم کی طرف دیکھا‘ لمبا سانس لیا اور پردہ ہٹا دیا ”یہ کیا ہے“ ہجوم کے منہ سے بے اختیار نکلا‘ دیوار پر ایک انتہائی بے ہنگم اور بچگانہ سی تصویر لگی تھی‘کینوس پر بے ترتیبی اور ہنگامہ تھا‘ آسمان پر بجلیاں کڑک رہی تھیں‘ زمین سے لاوا ابل رہا تھا‘ سامنے سمندر تھا‘ اس میں خوف ناک طلاطم کروٹیں لے رہا تھا‘ تیز آندھی درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ رہی تھی اور دائیں بائیں لاشیں بکھری تھیں۔
اس خوف ناک چیختے دھاڑتے ماحول میں ایک ویران سی کٹیا بھی تھی‘ دیواروں پرسیلن تھی‘ چھت ایک طرف سے بیٹھی ہوئی تھی اور کھڑکیاں اور دروازے شکستہ تھے‘ وہ تصویر کسی بھی طرح سکون کا اظہار نہیں تھی‘ وہ ہر طرف سے بے ترتیبی‘ بے سکونی اور زوال کا استعارہ لگتی تھی‘ لوگوں نے شور شروع کر دیا‘ ان کاخیال تھا‘ انتظامیہ سے غلطی ہو گئی ہے‘ یہ کیسے ممکن ہے آرٹ کے اتنے بڑے بڑے ججز اس تصویر کو سکون کا ایوارڈ دے دیں‘ یہ بچوں کی کسی آرٹ بک میں تو شامل ہو سکتی ہے لیکن مصوری کے بین الاقوامی مقابلے کا پہلا انعام نہیں پا سکتی۔
عوام کا شور اور احتجاج سن کرمنتظم مسکرا کر بولا ”میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں‘ یہ تصویر یقینا آپ کے ذوق سلیم کے مطابق نہیں ‘ اس کی بے ترتیبی اور انتشار آپ کے ذوق پر گراں گزر رہا ہے‘ میں اس حقیقت سے بھی واقف ہوں لیکن آپ ہمارا نکتہ نظر سن لیں‘ آپ ججز کے فیصلے کو انڈر سٹینڈ کر جائیں گے“ ہجوم خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا‘ وہ بولا” آپ تصویر کے تمام مناظر سے ہوتے ہوئے اس کٹیا کو دیکھیں اور پھر کٹیا کی کھڑکی پر فوکس کریں“ ہجوم نے اپنی نظریں کھڑکی پر گاڑھ دیں۔
انہیں کھڑکی میں ایک شخص کھڑا نظر آیا‘ منتظم نے کہا ”آپ اس شخص کاچہرہ دیکھیں‘ آپ کو اس پر گہرا سکون دکھائی دے گا‘ یہ چہرہ دراصل اس پوری تصویر کا مغز ہے اور یہ مغز بتا رہا ہے سکون ماحول میں نہیں ہوتا‘ ہم انسانوں کے اندر ہوتا ہے‘ دنیا میں وہ انسان سب سے بہادر‘ سب سے توانا ہے جو برے سے برے حالات میں بھی سکون کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے‘ جو بربادی‘ پریشانی اور انتشار کو بھی اپنی ذات کے اندر نہ گھسنے دے اور ہم اس مصور کو داد دیتے ہیں‘ اس نے برش کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت کو کینوس پر درج کر دیا“ ہجوم نے یہ سن کر دوبارہ تصویر کی طرف دیکھا اور وہ بے اختیار تالیاں بجانے پر مجبور ہوگیا۔
میں نے یہ واقعہ مشہور موٹی ویشنل سپیکر سندیپ مہیشوری کی ویڈیو میں سنا تھا‘ مہیشوری کا یہ تصور نیا نہیں تھا‘ یہ سکون کا بہت پرانا نسخہ ہے‘ ہندو جوگی صدیوں پہلے شاردا میں زندگی کے ستائے لوگوں کو شانتی کی ٹریننگ دیتے تھے‘ یہ لوگوں کو بتاتے تھے دنیا کا سارا شور‘ ساری پریشانیاں باہر نہیں ہیں‘ ہمارے ذہن ‘ ہمارے دماغ میں ہیں‘ آپ اگر اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھولنا اور بند کرنا سیکھ جائیں تو پھر دنیا کی کوئی پریشانی آپ کو پریشان نہیں کر سکے گی۔
آپ قبرستان میں بھی بیٹھ کر سکھ کا سانس لے سکیں گے‘ یہ لوگوں کو دماغ کا سوئچ آف کرنے کا طریقہ بھی سکھاتے تھے‘ میں چار سال پہلے نیلم وادی سے ہوتا ہوا شاردا پہنچا تھا‘ جوگی چلے گئے لیکن ان کی یونیورسٹی آج بھی موجود ہے اور مجھے وہاں اس میں گھومتے ہوئے سکون کا احساس بھی ہو رہا تھا‘ دنیا میں بودھ مت آیا تو یہ لوگ بھی باہر کی بجائے اندر کی بتی جلانے کا طریقہ سکھانے لگے‘ مہاتما بودھ کہتا تھا‘ روشنی باہر نہیں ہوتی۔
آنکھ کے اندر ہوتی ہے‘ آنکھ کا نور اگر سلامت ہو تو انسان اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا ہے‘ وہ کہتا تھا خواہش انسان کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے‘ یہ ہمیشہ دکھ دیتی ہے‘ ہمارے سر پر خواہشوں کی جتنی بڑی گٹھڑی ہوگی ہم اتنے ہی دکھی ہوں گے چناں چہ تم اگر خوش رہنا چاہتے ہو تو خواہشوں کا بوجھ اتارتے چلے جاﺅ‘ تم مکتی پا جاﺅ گے‘ میں اس فلسفے سے اتفاق کرتا ہوں‘ واقعی باہرنہیں اندر اور خواہشوں کی گٹھڑیاں جتنی زیادہ ہوں گی ہم اتنے ہی پریشان رہیں گے۔
میں 25سال سے صحافت کے ساتھ ساتھ سیلف ہیلپ‘ موٹی ویشن اور لائف کوچ بھی ہوں‘ پچھلے سال مائینڈ چینجر کے نام سے یوٹیوب چینل بھی بنایا‘ ملین سے زیادہ سبسکرائبرز بھی ہیں اور لوگ پرسنل اور گروپ سیشنز کے لیے بھی آتے رہتے ہیں‘ میں پچھلے چار سال سے دیکھ رہا ہوںلوگوں میں ڈپریشن‘ اینگزائٹی اور فرسٹریشن بڑھ رہی ہے‘چھوٹے چھوٹے بچے بھی ڈپریشن کی ادویات لینے پر مجبور ہو رہے ہیں‘ لوگ کروڑ اور ارب پتی ہیں لیکن اندر سے بے سکونی اور بے آرامی کا شکار ہیں۔
کراچی میں میرا ایک کلائنٹ ہے‘ اس کی کمپنی میں سات ہزار ملازم ہیں‘ ذاتی جہاز کا مالک ہے لیکن تین مرتبہ خودکشی کی کوشش کر چکا ہے‘ زندگی میں کوئی کمی نہیں لیکن اندر تنور جل رہا ہے‘ دنیا کی کوئی چیز اسے سکون نہیں دیتی‘ سارے جتن کر کے دیکھ لیے لیکن اینگزائٹی ختم نہیں ہوتی‘ میں نے ایک دن اس سے کہا” تمہاری زندگی میں کوئی ایشو نہیں‘ سکون تلاش کرنا بند کرو‘ لمبی سانس لو‘ نیچر کے ساتھ رہو اور جلتی سلگتی دنیا سے رابطے کم کر دو“ وہ ہنس کر خاموش ہوگیا۔
میں اپنے دوستوں سے درخواست کرتا رہتا ہوں‘ لمبی واک کیا کریں‘ سوشل میڈیا بند کر دیں‘ ٹویٹر اور فیس بک فرسٹریشن اور ڈپرشن کے علاوہ کچھ نہیں ہیں‘ان سے کنارہ کریں‘ ٹیلی ویژن کی بھی راشننگ کر دیں‘ میں خود 24 گھنٹے میں صرف دو گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہوںاور وہ بھی ہفتے میں صرف چار دن‘ میں جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار تین دن ٹی وی نہیں دیکھتا‘ میں ان تین دنوں کی خبروں اور واقعات سے بالکل ”محروم“ رہتا ہوں‘ اخبارات بھی کم کرتا چلا جا رہا ہوں۔
میں24 اخبارات سے چھ پرآ گیا ہوں اور جمعے اور ہفتے کو ان سے بھی پرہیز کرتا ہوں‘ میں نے اپنے تمام منفی دوستوں اور رشتے داروں سے بھی کنارہ کشی کر لی ہے‘ میرے بڑے بڑے شان دار دوست ہوتے تھے لیکن یہ بدقسمتی سے منفی ہو گئے تھے‘ ہم جب بھی ملتے تھے بربادی اور تباہی کے سوا ہمارا کوئی موضوع نہیں ہوتا تھا چناں چہ میں نے دوستی کے افسانے کو خوب صورت سا موڑ دے کر اپنا ٹریک الگ کر لیا اور اب بڑی حد تک اکیلا ہو گیا ہوں۔
میں نے پڑھا تھا اکیلا پن انسان کو اندر سے کھا جاتا ہے لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے میرے کیس میں اس نے بالکل الٹ رول ادا کیا‘ میرے پاس وقت اور توانائی کا انبار بھی لگ گیا اور میں ڈپریشن اور اینگزائٹی سے بھی باہر آ گیا‘ مجھے اب پتا چلا لوگ پرانے زمانے میں شہروں سے نکل کر پہاڑوں اور غاروں میںکیوں چلے جاتے تھے‘ یہ کیوں کم کلام اور کم خوراک کو اپنی زندگی بنا لیتے تھے‘ شاید فرسٹریشن سے بچنے کا یہ ہی بہترین علاج تھا‘ میں برسوں پہلے ایک صوفی کا شاگرد تھا۔
وہ فون صرف کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے‘ فون کرتے تھے اور اس کے بعد اس کی تار نکال دیتے تھے‘ میں نے ان سے اس سنگ دلی کی وجہ پوچھی تو وہ ہنس کر بولے” ٹیلی فون کی تار میں ڈپریشن ہوتا ہے‘ آپ کسی دن ریسرچ کر لینا دنیا میں جس دن سے فون آیا ہے انسان زیادہ بیمار ہو رہا ہے چناں چہ سکھی رہنا چاہتے ہو تو فون کا استعمال کم کردو‘ سکھ اور سکون بڑھ جائے گا“ میں شروع میں ان سے اتفاق نہیں کرتا تھا لیکن پھر ایک دن ان کی بات سے اتفاق پر مجبور ہو گیا۔
فون واقعی ڈپریشن کی سب سے بڑی فیکٹری ہے چناں چہ میں اس کا استعمال کم سے کم کرتا چلا جا رہا ہوں اور زندگی کا آخری سبق میرے مرحوم والد اور ڈاکٹر اسلم جیسے چند دوست دے گئے‘ میرے والد نے پوری زندگی جدوجہد میں گزار دی تھی لیکن وہ آخر میں خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے دفن کیا اور ان کے اس جسم پر مٹی ڈال دی جس کو ہم پوری زندگی آئیڈیالائز کرتے رہے‘ ڈاکٹر اسلم کو بھی اربوں روپے کی جائیداد اور مضبوط ترین تعلقات نہ بچا سکے۔
میں نے ان دونوں سے سیکھا دنیا میں سب مایا ہے‘ کائنات کی کوئی چیز مستقل نہیں حتیٰ کہ کائنات بھی نہیں چناں چہ انتشار اور ظلمت کے اس دور میں سکھ اور سکون کے جتنے بھی پل مل جائیں وہ انعام ہیں لہٰذا آئیے ہم اپنی کٹیا کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں‘ اس نے ہمیں اس طوفان میں بھی سلامت رکھا اور ہم نے آج کا دن بھی گزار لیا‘ ہم آج بھی سروائیو کر گئے‘ ماشاءاللہ۔