’’میں جس عمران خان کو جانتا ہوں وہ مر جائے گا لیکن این آر او نہیں دے گا‘‘ وہ جذباتی ہو کر میز پر مکے مارنے لگے اورمیں حیرت سے انہیں دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’آپ بس سینیٹ کے الیکشن ہو جانے دیں‘آپ کو ایک بدلا ہوا عمران خان نظر آئے گا اور یہ عمران خان ان لوگوں کو سڑکوں پر لٹا کر جوتے مارے گا‘ یہ کسی کو نہیں چھوڑے گا‘ بیورو کریسی سے لے کر سیاست دانوں تک سب کو
تیر کی طرح سیدھا کر دے گا‘ آپ اس کے بعد کوئی سڑک بند کر کے دکھایے گا‘ کوئی افسر‘ کوئی ڈاکٹر اور کوئی استاد ذرا چھٹی کر کے دکھا دے سٹیٹ اسے کارپٹ بنا دے گی‘‘ وہ جذباتی ہو رہے تھے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا‘ یہ بولے ’’آپ لوگ روز لفظ چبا چبا کر کہتے ہیں عمران خان کے پاس جب کسی کو این آر او دینے کا اختیار ہی نہیں تو یہ کیسے رعایت دے سکتے ہیں لیکن میں آپ کو یہ بتا دوں اگر کسی اور نے بھی ان لوگوں کو این آر او دینے کی کوشش کی تو عمران خان اسے بھی نہیں چھوڑے گا‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔میں یہاں ہنسا اور آہستہ سے پوچھا ’’جناب آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ این آر او دیں گے کس کو؟ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’جناب آپ کی نظر میں میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ میاں شہباز شریف‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی بڑے ملزم ہیں لیکن یہ لوگ اس وقت کہاں ہیں؟ میاں نواز شریف کو ایک کیس میں 10سال اوردوسرے میں سات سال سزا ہوئی تھی لیکن یہ جیل سے نکلے‘ چارٹر جہاز پر بیٹھے اور ریاست کے پروٹوکول میں لندن پہنچ گئے‘ یہ 13ماہ سے وہاں ہیں‘ روز واک کر کے حسن نواز کے دفتر جاتے ہیں‘ کافی پیتے ہیں‘ اخبار پڑھتے ہیں‘ ٹیلی ویژن شوز دیکھتے ہیں اور جلسوں سے خطاب کرتے ہیں‘ آپ انہیں مزید کیا این آر او دیںگے؟
آصف علی زرداری کراچی میں پرائیویٹ ہسپتال میں زیر علاج ہیں‘ یہ گھر اور ہسپتال دو جگہوں پر رہتے ہیں‘ ان پر فرد جرم بھی آن لائین لگتی ہے اور یہ آن لائین اسے ’’ری جیکٹ‘‘ بھی کر دیتے ہیں‘ یہ بھی پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں تقریریں کرتے ہیں‘ آپ انہیں بھی مزید کیا این آر او دیں گے؟ میاں شہباز شریف کو نیب نے چارماہ حراست میں رکھا‘ یہ جیل سے نکلے‘ لندن گئے‘ واپس آئے‘
یہ اب دوسری بار قید میں ہیں اور جیل کے ساتھ ایڈجسٹ کر چکے ہیں‘ آپ انہیں مزید کتنے سال جیل میں رکھ لیں گے؟ نیب ان پر پچھلے الزامات ثابت نہیں کر سکا‘ یہ مزید کیا تیر مار لے گا لہٰذا یہ بھی اگلے ماہ تک باہر ہوں گے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے تقریر کر رہے ہوں گے‘ حمزہ شہباز 18ماہ سے نیب کی حراست میں ہیں‘نیب ان کی حراست کو بھی جسٹی فائی نہیں کر پا رہا‘
یہ اب کسی بھی وقت باہر آ جائیں گے‘ اسحاق ڈار بھی لندن بیٹھے ہیں‘ مریم نواز جلسوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کر رہی ہیں‘ حکومت میں مولانا فضل الرحمن کوگرفتار کرنے کی ہمت نہیں‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی ریفرنسز بھگت کر گھروں میں بیٹھے ہیں‘ یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں پر نو ہزارکلوگرام ایفی ڈرین کا الزام تھا‘ یہ بھی گھرمیں بیٹھے ہیں‘ شاہد خاقان عباسی سات ماہ جیل میں رہ کر باہر آ گئے‘ خواجہ سعد رفیق 15ماہ جیل میں رہے‘ یہ اب 9ماہ سے گھر میں ہیں‘
رانا ثناء اللہ 15 کلو ہیروئن کا کیس بھگت کر6 ماہ بعد گھر آ گئے‘ احسن اقبال دوماہ اندر رہے‘ خواجہ آصف کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہو رہے‘ نیب بلاول بھٹو اور سید مراد علی شاہ کو بھی آج تک گرفتار نہیں کر سکا‘ فواد حسن فواد19ماہ جیل میں رہے‘ یہ قید کے دوران نوکری سے ریٹائر ہو گئے‘ احد چیمہ کی سزا طویل ہو گئی‘ یہ بے چارہ دو سال 10ماہ سے اہلیت اور ڈیلیوری کی سزا بھگت رہا ہے‘ اس کی ضمانت بھی ہو چکی ہے بس آخری آرڈر آنے کی دیر ہے اور یہ بھی گھر بیٹھا ہو گا چناں چہ سوال یہ ہے پیچھے کون بچا ہے اور آپ کس کو این آر او دیں گے اور کیسے دیں گے‘‘۔
میری گفتگو طویل ہو گئی‘ وہ اس دوران کرسی پر کروٹیں بدلتے رہے‘ میں جوں ہی خاموش ہوا وہ لپک کر بولے ’’یہ سب مافیاز ہیں‘ یہ پورے سسٹم کو کرپٹ کر چکے ہیں‘بیورو کریٹس ان کے خلاف ثبوت جمع نہیں کرتے‘ پولیس انہیں گرفتار نہیں کرتی‘ نیب ان کے خلاف ریفرنس نہیں بناتا‘ سرکاری وکیل ان کے خلاف دلائل نہیں دیتے اور عدالتیں انہیں ضمانت دے دیتی ہیں‘ یہ عوام کو بھی سڑکوں پر لے آتے ہیں‘
یہ سسلین مافیا ہیں‘ پورے سسٹم میں ان کی جڑیں ہیں اور ان جڑوں نے پورا سسٹم کھوکھلا کر دیا ہے‘ عمران خان کے پاس اب دو آپشن ہیں‘ یہ حالات کو جوں کا توں چلنے دیں یا پھر یہ سعودی عرب کی طرح ان سب کو پکڑیں‘ جیلوں میں پھینکیں‘ ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس کرائیں اور انہیں ٹھڈا مار کر ملک سے باہر پھینک دیں‘ یہ ملک تب ٹھیک ہو گا اور آپ کو مارچ میں یہ ہوتا ہوا نظر آئے گا‘‘
میں نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ لوگ یقینا کرپٹ ہوں گے لیکن آپ ایک سوال کا جواب دیں‘یہ کرپٹ لوگ کس کی پیداوار ہیں‘ شیخ رشید بار بار کہتے ہیں یہ سب گیٹ نمبر چار سے نکلے ہیں یا یہ اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں پیدا ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ‘ ہم اگر یہ مان لیں یہ لوگ جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق کے گملے میں پیدا ہوئے تھے یا گیٹ نمبر چار سے نکلے تھے تو اس کا کیا مطلب ہو گا؟
اس کا مطلب ہو گا یہ لوگ انہی لوگوں نے پیدا کیے جو آج انہیں پکڑ رہے ہیں اور ان کی ناک رگڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ آپ ان میں سے کوئی ایک شخص یا پارٹی دکھادیں جو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار نہ ہو لہٰذا پھر اصل ذمہ دار کون ہے؟ دوسرا جو لوگ اس وقت آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں یہ کون لوگ ہیں؟ کیا چودھری صاحبان پاکستان مسلم لیگ ن سے نہیں نکلے‘ کیا شیخ رشید 14سال میاں صاحبان کے ساتھ نہیں رہے
اور کیا یہ اس جنرل پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ نہیں رہے جس کے خلاف عمران خان سڑکوں پر تحریک چلاتے رہے اور شیخ رشید انہیں ’’معمولی کھلاڑی‘‘ کہتے تھے‘کیا جی ڈی اے کے لوگ بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے نہیں آئے اور کیا یہ ماضی میں اقتدار کا حصہ نہیں رہے‘ کیا ایم کیو ایم ماضی کے ہر کرپٹ دور کی سیاسی حلیف نہیں رہی اور کیا پی ٹی آئی کے اسی فیصد ایم این ایز اور ایم پی ایز
ماضی میں اسی سسلین مافیا کا بازو اور ٹانگیں نہیں تھے؟ کیا یہ کل تک میاں دے نعرے وجن دے اور زرداری سب پر بھاری کے نعرے نہیں لگاتے تھے؟‘‘ میں نے لمبی سانس لی اور عرض کیا ’’آپ بھی بڑے دل چسپ لوگ ہیں‘ آپ اپنے ساتھ ملنے والے ’’سب سے بڑے ڈاکوئوں‘‘ کو این آر او کے بغیر سینے سے لگا لیتے ہیں اور جو لوگ مقدمے بھگت کر یا جہازوں پر بیٹھ کر باہر چلے گئے انہیں دیکھ دیکھ کر ’’میں این آر او نہیں دوں گا‘‘ کے نعرے لگاتے رہتے ہیں‘ آپ آخر کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں‘ آپ آخر کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟‘‘۔
وہ غصے میں آگئے اور مجھے کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگے‘میں ڈر گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا لیکن میرے اندر کا پاگل ابھی زندہ تھا چناں چہ میں نے ان سے عرض کیا ’’جناب آپ جب تک ماضی کو ماضی نہیں سمجھیں گے آپ اس وقت تک حال میں قدم نہیں رکھیں گے اور آپ جب تک حال کی حقیقتوں کو نہیں مانیں گے آپ اس وقت تک مستقبل میں نہیں جائیں گے لہٰذا میری
آپ سے درخواست ہے آپ صرف 1971ء جیسا ماضی دیکھ لیں‘ ہم بنگالیوں سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن پھر ہم نے بنگلہ دیش کو تسلیم بھی کیا اور شیخ مجیب الرحمن جیسے ڈکلیئرڈ غداروں کو سلامی بھی دی‘ ہمیں کیا فائدہ ہوا؟ ہم اگر بنگالیوں سے بات کر لیتے‘ ہم اگر انہیں پاکستانی مان لیتے اور ان کے جائز مطالبات تسلیم کر لیتے تو کیا آج پاکستان کی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ ہم نے ان سے بات کی
لیکن اس وقت کی جب ڈھاکا سے پاکستان کا پرچم اتر چکا تھا ‘ آج بھی ہمارے پاس وقت ہے‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں پاکستانی ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان دونوں اسی ملک کے باشندے ہیں‘ آپ سب اکٹھے بیٹھیں‘ ایک دوسرے کی سنیں‘ درمیان کا راستہ نکالیں اور ایشوز سیٹل کریں‘یہ ملک کھائی سے باہر آ جائے گا‘ آپ بے شک کرپشن پر کوئی کمپرومائز نہ کریں لیکن کارروائی ’’اکراس دی بورڈ‘‘ ہونی چاہیے‘
ملک میں میرے کرپٹ اور تیرے کرپٹ اور مقدس کرپٹ اور غیر مقدس کرپٹ کی تفریق نہیں ہونی چاہیے‘ عمران خان اڑھائی سال گزار چکے ہیں‘ آپ مل کر اگلے اڑھائی سال کا کوئی فارمولا بنا لیں تاکہ یہ روز روز کی بک بک ختم ہو‘ آپ یہ یاد رکھیں آپ نے اگر یہ مذاکرات نہ کیے‘ آپ اگر اکٹھے نہ بیٹھے تو پھر آپ کو تین ملکوں سے مذاکرات کرنا پڑیں گے اور آپ کے پاس میز سے اٹھنے کا آپشن بھی نہیں ہو گا‘‘ میں خاموش ہو گیا‘ وہ میری گفتگو کے دوران تلملا رہے تھے‘ میں خاموش ہوا تو وہ کرسی پر ہاتھ مار کر بولے ’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘۔میں نے سلام کیا اور چپ چاپ باہر آگیا‘ باہر کا موسم اندر کے موسم سے بہتر تھا۔