”بھائی جان ابو جی بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں‘ یہ اب باتھ روم بھی خود جاتے ہیں اور کھانا بھی اپنے ہاتھوں سے کھاتے ہیں“ اس کی آواز میں جوش اور خوشی دونوں تھے‘ میں نے اسے مبارک باد پیش کی اور پھر پوچھا ”یہ معجزہ کیسے ہوا؟“ وہ بولا ”ہم خود حیران ہیں‘ ہم کرونا کی وجہ سے پریشان تھے‘ ہم میں سے کوئی ان کے کمرے میں بھی نہیں جاتا تھا‘ ڈاکٹر اور نرس بھی پروٹیکشن کٹ پہن کر اندر داخل ہوتی تھی لیکن پھر ابو جی اچانک ٹھیک ہونا شروع ہو گئے۔
یہ خود اٹھے اور ہم سے گپ لگانا شروع کر دی‘ ہم ان کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے تھے اور یہ بیڈ پر لیٹ کر بات چیت کرتے رہتے تھے‘ ہم خوش ہو گئے لیکن جس دن یہ اٹھ کر باتھ روم گئے وہ ہمارے لیے جشن کا دن تھا“ اس کی آواز کا جوش بدستور قائم تھا‘ میں نے ایک بار پھر پوچھا ”مگر یہ معجزہ ہوا کیسے؟“ وہ ہنس کر بولا ”بھائی جان ہم میں سے کوئی نہیں جانتا‘ڈاکٹرز بھی حیران ہیں“ میں نے دوبارہ مبارک باد دی اور فون بند کر دیا‘ یہ میرے دوست کا چھوٹا بھائی تھا‘ یہ احترام میں مجھے بھی بھائی جان کہتا ہے‘ ان کے والد پانچ سال سے علیل تھے‘ وہ بے شمار بیماریوں کا شکار تھے‘ دل بھی خراب تھا‘ کولیسٹرول بھی تھا‘ دمہ بھی تھا‘ گردے بھی خراب تھے اور یہ شوگر کے مرض میں بھی مبتلا تھے‘ دو سال سے بیڈ تک محدود تھے‘ کھانا بھی نرس کھلاتی تھی اور وہ بھی لیکوڈ لیکن پھر یہ بزرگ اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے ہیں‘ یہ حیرانی کی بات تھی‘ میں نے حیرت سے مجبور ہو کر ڈاکٹر کو فون کر دیا‘ ڈاکٹر بھی قہقہے لگا رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا میں اور میرے کولیگز کا اندازہ ہے یہ معجزہ پالوشن میں کمی کی جہ سے ہوا‘ کرونا سے پہلے ہماری ہوا بہت گندی تھی‘ ہوا کے اس گند نے پچاس سال سے بڑے تمام لوگوں کو بیمار کر رکھا تھا‘ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کرہ ارض کا پالوشن انڈیکس نیچے آ گیا لہٰذا مریض اٹھ اٹھ کر بیٹھ رہے ہیں‘ بشیر صاحب بھی ان میں سے ایک ہیں‘ یہ بات سن کر میں بھی قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کرونا ایک طرف پوری دنیا کے لیے بلا بن کر ابھر رہا ہے‘ دنیا میں اب تک ساڑھے22 لاکھ لوگ بیمار اور ایک لاکھ 60 ہزار فوت ہو چکے ہیں لیکن دوسری طرف یہ زمین اور انسانیت کا سب سے بڑا محسن بن کر ابھر رہا ہے‘ کرونا کی وجہ سے کرہ ارض کا پالوشن لیول پچاس فیصد نیچے آ گیا ہے اور اب اگر کوئی شخص چاند پر کھڑا ہو کر زمین کی طرف دیکھے تو وہ دوربین کے بغیر سات براعظموں کو الگ الگ دیکھ سکتا ہے۔
وہ زمین کی حرکت بھی نوٹ کر سکتا ہے اور سوتے جاگتے شہروں کا اندازہ بھی کر سکتا ہے‘ کرونا اور گلوبل لاک ڈاؤن زمین کو انیسویں صدی میں لے گیا ہے‘ فضا دھل گئی ہے اور ہواؤں میں سبزے کی مہک واپس آ چکی ہے اور یہ کوئی چھوٹا معجزہ نہیں‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا میں پچھلے ایک مہینے میں اموات کی شرح میں 70 فیصد کمی آ گئی ہے‘کیوں؟ کیوں کہ دنیا میں موت کی دس بڑی جوہات ہیں‘ دل کے امراض‘ کینسر‘ ایکسیڈنٹس‘ سانس کی بیماریاں‘ دورے‘ الزائمر‘ شوگر‘ انفلوئنزا‘ گردوں کے امراض اور خودکشی‘ 2019ء میں ان دس وجوہات سے سات کروڑ 52 لاکھ لوگ فوت ہوئے۔
ان میں سے آدھے بزرگ تھے‘ کرہ ارض پر روز ڈیڑھ لاکھ لوگ مرتے ہیں لیکن پھر کرونا آیا اور شرح اموات میں کمی آ گئی‘ اموات میں کمی کی اب تک تین بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں‘ پہلی وجہ پالوشن ہے‘ خودکشی اور ایکسیڈنٹس کے علاوہ اموات کی باقی آٹھوں وجوہات کے پیچھے ماحولیاتی آلودگی تھی‘ گاڑیاں‘ فیکٹریوں کا دھواں‘ گلاس ہاؤس ایفیکٹ‘ ساڑھے سات ارب لوگوں کی روزانہ کی موومنٹ اور جنگلوں کی کمی نے فضا میں آلودگی پھیلا رکھی تھی۔
یہ آلودگی سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتی تھی اور ہم بیمار ہوتے چلے جاتے تھے‘ ہماری ہوا میں دو قسم کی آلودگیاں ہوتی ہیں‘ بادلوں کے نیچے کی آلودگی اور بادلوں کے اوپر کی آلودگی‘ بادلوں سے نیچے کی آلودگی بارش سے کم ہو جاتی ہے جب کہ بادلوں سے اوپر کی آلودگی کی واحد وجہ ہوائی جہاز ہیں‘ دنیا میں روزانہ تین لاکھ جہاز اڑتے تھے‘ فضا میں سب سے زیادہ پالوشن یہ جہاز پھیلاتے تھے اور یہ پالوشن آندھی‘ طوفان اور بارش سے بھی ختم نہیں ہوتی تھی‘ وجہ؟ یہ بادلوں سے اوپر ہوتی تھی اور اس نے زمین کی پوری فضا تباہ کر دی تھی۔
کرونا کی وجہ سے ائیر ٹریفک بھی بند ہو گئی اور زمینی ٹریفک بھی‘ فیکٹریوں کا دھواں اور انسانی موومنٹ کا پالوشن بھی کم ہو گیا چناں چہ ہماری جسمانی شکست وریخت میں کمی آ گئی‘ دوسری وجہ ہماری خوراک تھی‘ ہم سب جانوروں کی طرح کھاتے تھے‘ ہم ضرورت سے دس گنا تیل‘ 15 گنا چینی اور 21 گنا زیادہ آٹا استعمال کرتے تھے‘ ہم انسانی ضرورت سے زیادہ گوشت بھی کھاتے تھے اور چائے‘ کافی اور مشروبات بھی پیتے تھے‘ یہ خوراک بھی ہمیں بیمار کرتی تھی اور ہماری اموات کی تیسری بڑی وجہ ریٹ ریس (چوہا دوڑ) تھی۔
آپ نے کبھی چوہوں کو دیکھا‘ چوہوں کا پنجرہ کھول دیں یہ پوری طاقت کے ساتھ سرپٹ دوڑیں گے لیکن دوڑتے ہوئے انہیں یہ پتا نہیں ہوتا ”ہم نے جانا کہاں ہے“ چوہے ہمیشہ منزل کا تعین کیے بغیر دوڑتے ہیں‘ دوسرا اگر کوئی چوہا خوراک کے لالچ میں کسی پنجرے میں گر جائے یا ٹکٹکی میں پھنس جائے تو دوسرے چوہے اس کا حشر دیکھنے کے باوجود باز نہیں آتے‘ وہ بھی اس کے باوجود ٹکٹکی میں پھنستے اور پنجرے میں گرتے چلے جاتے ہیں اور آخر میں سارے مارے جاتے ہیں۔
نفسیات دان چوہوں کی اس حرکت کو ریٹ ریس یا چوہا دوڑ کہتے ہیں‘ ہم انسان بھی چوہے ہیں‘ ہم بھی منزل کا تعین کیے بغیر سرپٹ بھاگتے چلے جاتے ہیں‘ ہم بھی دوسروں کے گرنے اور پھنسنے سے سبق نہیں سیکھتے اور ہم بھی گڑھوں میں گرتے اور مرتے چلے جاتے ہیں‘ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ماہرین حسد کو اس کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں‘ حسد انسان کا سب سے بڑا جذبہ ہے‘ ہم دوسروں کو جلانے اور چڑانے کے لیے پھانسی تک چڑھ جاتے ہیں‘ یہ ریٹ ریس‘ یہ حسد اموات کی تیسری بڑی وجہ تھی۔
ہم دوڑ دوڑ کر‘ تھک تھک کر مر رہے تھے لیکن پھر کرونا آیا اور دوڑنے اور دوڑنے والوں کو دیکھ کر دوڑنے والے دونوں رک گئے‘ ریس بند ہو گئی‘ سارے چوہے سہم کر اپنے اپنے بلوں کے اندر قرنطینہ لینے پر مجبور ہو گئے یوں حسد کا لیول یک دم نیچے آ گیا چناں چہ ہم اگر دیکھیں تو پالوشن کم ہو گیا‘ ہم نے خوراک بھی کم کر دی‘ چائے خانے‘ کافی ہاؤسز‘ بیکریاں‘ ریستوران اور شراب خانے بند ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں کا کھانا بھی کھانے لگے اور ہم نے ایک دوسرے سے حسد کرنابھی بند کر دیا‘ کیوں؟ کیوں کہ محل والا ہو یا کوٹھڑی والا دونوں اندر بند ہیں۔
بڑی گاڑی بھی گیراج سے نہیں نکل رہی اور چھوٹی گاڑی بھی گلی میں کھڑی ہے لہٰذا کون کس سے حسد کرے گا‘ کون کس سے جیلس ہو گا؟اس دوران دو اور چیزیں بھی ہوئیں‘ ہمارے دماغوں پر دفتروں اور کام کا سٹریس بھی تھا‘ ہم مانیں یا نہ مانیں ہم اس دباؤ کے نیچے بھی روز کچلے جاتے تھے‘ آپ ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے‘ دنیا میں سب سے زیادہ ہارٹ اٹیکس سوموار کی صبح ہوتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ چھٹی گزارنے کے بعد کام کے خیال ہی سے لوگوں کے دل میں ہول اٹھتے تھے اور یہ دفتر جاتے جاتے راستے میں انتقال کر جاتے تھے۔
دوسرا سماجی نفسا نفسی ہمیں چیریٹی اور فلاح سے دور لے گئی تھی‘ انسان انسان کے درد سے ناواقف ہو گیا تھا اور یہ حقیقت ہے انسان جب کسی دوسرے انسان کی مدد کرتا ہے تو اس کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ یہ اندر سے مضبوط ہو جاتا ہے‘ کرونا نے ہمیں کام اور دفتر کے سٹریس سے بھی نکال دیا اور ہمیں دوسرے انسانوں کے قریب بھی لے آیا چناں چہ دنیا میں شرح اموات کم ہو گئیں اور یہ کرونا کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔دنیا یقینا جلد یا بدیر کرونا وائرس کے خطرے سے نکل آئے گی۔
ہم انسان لاکھوں سال سے ہر قسم کی وبا‘ ہر قسم کی آزمائش کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں‘ دنیا میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب کرہ ارض پر صرف دو ہزار لوگ رہ گئے تھے لیکن ہم انسان دوبارہ دو ہزار سے ساڑھے سات ارب ہو گئے‘ ہم ان شاء اللہ کرونا کو بھی شکست دے دیں گے لیکن کرونا کے بعد اقوام متحدہ کو پوری دنیا سے ایک”گلوبل لاک ڈاؤن چارٹر“ سائن کروانا چاہیے‘اس چارٹر کے مطابق پوری دنیا تین‘ تین ماہ بعد ایک‘ایک ہفتے کے لیے لاک ڈاؤن کر دی جائے‘ دنیا کے تمام ائیرپورٹس‘ بندر گاہیں‘ روڈز‘ ریلوے سٹیشن‘ دفتر‘ فیکٹریاں‘ سکول‘ پارکس‘ مارکیٹیں اور میٹنگز بند کر دی جائیں۔
انسان جہاں ہو وہ وہاں روک دیا جائے‘ ریستوران‘بیکریاں اور چائے خانے بھی بند کر دیے جائیں اور موبائل فونز‘ انٹرنیٹ‘ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو اور اخبارات بھی‘ یہ سہ ماہی لاک ڈاؤن اس کرہ ارض کو ایک بار پھر چارج کر دے گا‘ یہ زمین رہنے کے قابل ہو جائے گی ورنہ اگلا کرونا سپر کرونا ثابت ہو گا اور یہ دنیا کی آبادی کو ایک بار پھر ساڑھے سات ارب سے دو ہزار پر لے جائے گا اور انسان ایک بار پھر پتھر کے دور سے زندگی سٹارٹ کرنے پر مجبور ہو جائے گا لہٰذا زمین اور زندگی بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کے بعد لاک ڈاؤن لازم کر دیا جائے۔