کرونا آیا اور آتے ہی دنیا پر اسلام کی حقانیت ثابت کر دی‘دنیا اس سے پہلے کبھی اس طرح بند نہیں ہوئی تھی کہ انسان‘انسان کے لمس تک کو ترس جائے‘ ماں بچوں‘ میاں بیوی‘بھائی بھائی اور بہن بہن سے چھ فٹ کے فاصلے پر چلی جائے‘ کوئی کسی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تک نہ لے‘ ڈاکٹر مریض کو ہاتھ نہ لگائے‘ مریض ڈاکٹر کی کھانسی سے دور بھاگے‘ امام نمازیوں سے ڈرتے رہیں اور نمازی امام سے بچ بچا کر نماز ادا کرنے کی کوشش کریں‘ دنیا میں یہ وقت اس سے پہلے کہاں آیا تھا؟
کرہ ارض پر پہلی بار تمام مذاہب کی عبادت گاہیں بند ہیں‘ شادیاں اور جنازے رکے ہوئے ہیں اور لوگ خود حکومتوں سے ہاتھ جوڑ کر ملک میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کی درخواست کر رہے ہیں‘ تاریخ میں پہلی بار گھر بار‘ ہسپتال‘ مسجد اور ایوان صدر سب غیر محفوظ ہیں اور غریب امیر‘ ملزم قاضی‘ ماتحت افسر اور حاکم اور محکوم دونوں کم زور اور عاجز نظر آ رہے ہیں‘ یہ تخریب اور بے بسی کی انتہا ہے لیکن اس انتہا کے اندر سے بھی تعمیر کے بے شمار مثبت پہلو نکل رہے ہیں‘ میں نے کل یہ مثبت پہلو گننے شروع کیے تو حیران رہ گیا‘ کرونا کے سات حیران کن مثبت نتائج سامنے آئے‘یہ تمام نتائج حیران کن ہیں لیکن سات کی اس فہرست کا پہلا نتیجہ اف خدایا!یہ کمال ہے‘ اسلامی دنیا کے تمام مبلغ مل کر اسلام کے لیے وہ کام نہیں کر سکے جو اکیلے کرونا نے کر دیا‘ میں اپنی یہ ”ریسرچ“ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ مجھے یقین ہے آپ بھی قائل ہو جائیں گے۔کرونا کا سب سے بڑا پہلو اسلام کی حقانیت ہے‘ اسلام دنیا کا پہلا مذہب تھا جس نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا‘ ہم مسلمان دن میں پانچ بار وضو کرتے ہیں‘ ہم پر جنابت کے فوری بعد غسل فرض ہے‘ ہم مسلمان ہر جمعہ کو ناخن تراشتے ہیں‘ بدن کے غیر ضروری بال صاف کرتے ہیں اور ہم تھوکنے اور جمائی لینے کو بدتہذیبی سمجھتے ہیں‘آپ نے کبھی سوچا کیوں؟
میں نے کرونا کے بعد وائرس کو پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا ہماری فضا میں 196 وائرس‘ بیکٹیریا اور جراثیم ہوتے ہیں‘ یہ ہمارے جسم کے سات سوراخوں کے ذریعے ہمارے بدن میں داخل ہوتے ہیں‘ ان کا مقابلہ صرف ہماری قوت مدافعت کر سکتی ہے اور اس قوت کا گراف صبح نیند کے بعد سب سے اونچا‘ سب سے اوپر ہوتا ہے‘ یہ گراف ظہر کے بعد نیچے آنا شروع کرتا ہے اور یہ عشاء کے بعد اپنی پستی کو چھونے لگتا ہے لہٰذا بیماریوں کے وائرس زیادہ تر سہ پہر کے بعد انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ہم مسلمان دن میں پانچ مرتبہ وضو کرتے ہیں‘ یہ وضو ہمارے جسم کے سات سوراخوں میں بیٹھے وائرس دھو دیتا ہے اور یوں ہم بیماریوں سے بچ جاتے ہیں‘آپ دیکھ لیجیے دنیا بھر کے ڈاکٹرز کرونا کے بعد مریضوں کو کیا مشورے دے رہے ہیں؟ یہ پوری دنیا کو کہہ رہے ہیں آپ بار بار ہاتھ اور منہ دھوئیں‘ ناک میں پانی ڈالیں اور غرارے کریں اور غسل بھی زیادہ سے زیادہ کریں‘ یہ کیا ہے؟ کیا یہ آدھا وضو نہیں اور کیا ہم مسلمان روز پانچ مرتبہ یہ نہیں کرتے؟
آپ کمال دیکھیے‘ قدرت جسمانی صفائی کے اس عمل کو سہ پہر کے بعد تیز کر دیتی ہے‘ ہم تین سے چار گھنٹوں کے درمیان ظہر‘ عصر اور مغرب کا وضو کرتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب ہماری قوت مدافعت کا گراف نیچے جا رہا ہوتا ہے‘ ہمارے بزرگ ظہر کے وقت قیلولہ بھی کرتے تھے‘ کیوں؟ قیلولہ بھی انرجی بوسٹر ہوتا ہے‘یہ ہماری قوت مدافعت بڑھاتا ہے اور عشاء کے وقت جب ہماری قوت مدافعت کا گراف زمین کو چھو رہا ہوتا ہے‘ اللہ ہم سے آخری وضو اور عشاء ادا کروا کر ہمیں نیند کی آغوش میں لے جاتا ہے اور ہم فجر کے وقت قوت مدافعت کے نئے گرڈ کے ساتھ دوبارہ اٹھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹرز کرونا کے مریضوں کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں آپ آٹھ سے دس گھنٹے نیند لیں اور ہلکی غذا کھائیں‘ یہ دونوں مشورے بھی ہمارے مذہب کا حصہ ہیں‘ مکمل نیند اور رات کے وقت ہلکی غذا‘ یہ دونوں عادتیں قوت مدافعت بڑھاتی ہیں‘ آپ ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے‘ آپ کرونا کے حملے کے بعد دنیا کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں‘ آپ کو دنیا کا ہر وہ شہروائرس سے زیادہ متاثر ملے گا جہاں لوگ راتوں کو جاگتے رہتے تھے‘ جہاں لوگوں کی نیند کم تھی اور یہ جسمانی صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے۔
میں فرانس اور اٹلی بہت گیا ہوں‘ میں چینیوں کو بھی جانتا ہوں‘ یہ لوگ جسمانی صفائی میں بہت پست ہیں‘ چینی اوسطاً مہینے میں ایک بار نہاتے ہیں‘ فرانس اور اٹلی میں بھی نہانے بلکہ ہاتھ منہ دھونے کی روایت نہیں‘ آپ کسی دن صبح کے وقت میٹرو میں سفر کر کے دیکھ لیں‘ آپ کو لوگ بالخصوص خواتین تھوک سے آنکھیں صاف کرتی نظر آئیں گی‘یہ لوگ صبح اٹھتے ہیں‘ کپڑے پہنتے ہیں اور ہاتھ منہ دھوئے بغیر باہر نکل آتے ہیں‘ یہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد دونوں وقت ہاتھ نہیں دھوتے‘ یہ رفع حاجت کے بعد بھی صرف ٹشو استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ لوگ جسمانی صفائی میں ہم سے بہت پیچھے ہیں۔
یہ راتوں کو جاگتے شہروں میں بھی رہتے ہیں‘ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے دنیا میں جب بھی کوئی بیماری پھیلتی ہے تو یہ اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں جب کہ ہم مسلمان ہر بار وباؤں سے بچ جاتے ہیں‘ ہم مسلمان اس بار بھی بچ رہے ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہمارے سسٹم میں سب اچھا ہے‘ ہم میں بھی بے شمار خرابیاں ہیں اور ہمیں اب ان پر توجہ دینا ہوگی مثلاً ہماری پہلی خرابی مسجدوں کے اندر استنجا خانے اور وضو خانے ہیں۔اسلام کے ابتدائی آٹھ سو سال میں مساجد میں وضو خانے اور استنجا خانے نہیں ہوتے تھے۔
لوگ گھروں اور دکانوں میں وضو کرتے تھے اور نماز کے لیے مسجد آجاتے تھے تاہم لوگوں نے مسجدوں کے قریب پرائیویٹ استنجا خانے اور غسل خانے بنا رکھے تھے‘ یہ مسافروں کو ”آن پے منٹ“ وضو‘ غسل اور رفع حاجت کی سہولت دیتے تھے لیکن پھر مخیر حضرات نے مسافروں کی سہولت کے لیے مسجد کی حدود میں وضو خانے بنوانا شروع کر دیے‘ وضو خانے بنے تو استنجا خانے بھی بن گئے اور یوں بو‘جراثیم اور گندا پانی مسجد کے اندر آنے لگا اور بیماریاں نمازیوں سے نمازیوں کو لگنے لگیں۔
کرونا نے ہمیں بھی ہماری غلطی سمجھا دی چناں چہ ہمیں بھی آج دوبارہ مسجد کی اصل روح کی طرف لوٹ جانا چاہیے‘ نمازی گھر‘ دکان یا دفتر سے وضو کر کے آئیں اور مسجد میں صرف نماز ادا کریں‘ اگر وضو خانے اور واش رومز ضروری ہوں تو یہ مسجد سے دور بنائے جائیں اور وہ بھی کیبن کی شکل میں ہوں تاکہ ایک نمازی کے چھینٹے دوسرے نمازی پر نہ پڑیں اور وضو کے بعد پانی بھی ”پی ٹریپ“ کے ذریعے فوراً نکل جائے‘ یہ رکے نہیں تاکہ جراثیم پیدا نہ ہوں۔
آپ اگر کبھی گوروں کے چرچ یا سیناگوگ میں جائیں تو یہ آپ کو صاف ستھرے ملتے ہیں‘کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ پانی ہے‘ چرچ اور سیناگوگ میں وضو خانے نہیں ہوتے لہٰذا فرش گیلے نہیں ہوتے چناں چہ وہاں داغ اور بو نہیں پھیلتی‘ دوسرا یہ ہال میں موم بتیاں جلاتے ہیں‘ موم بتی بو کو نگل جاتی ہے‘ ہماری مسجدوں میں بھی بجلی سے پہلے موم بتیاں جلائی جاتی تھیں‘دوسرا لوگ مسجد میں وضو نہیں کر تے تھے اور یہ ننگے پاؤں مسجد کے ہال میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔
یہ بات آپ کے لیے یقینا حیران کن ہو گی مسجد اور جوتا یہ کیسے ممکن ہے لیکن یہ حقیقت ہے مسجد میں ننگے پاؤں ممانعت تھی‘ لوگ نماز کے لیے موزے پہنتے تھے‘ یہ باریک اور نرم چمڑے کی جرابیں ہوتی تھیں‘ لوگ مسجد کی دہلیز پر کھڑے ہو کر موزے پہن لیتے تھے اور واپس نکلتے ہوئے اتار کر تہہ کر کے جیب میں ڈال لیتے تھے‘ آپ پرانے کُرتے دیکھیں آپ کو ان کی دو سائیڈوں پر جیبیں ملیں گی‘ یہ جیبیں رقم کے لیے نہیں ہوتی تھیں‘ کیوں؟
کیوں کہ بیسویں صدی کے شروع تک دنیا میں نوٹ نہیں ہوتے تھے سکے ہوتے تھے اور سکے جیبوں میں نہیں ڈالے جاسکتے یہ تھیلیوں میں بھرے جاتے تھے لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے پھر قمیضوں میں جیبیں کیوں ہوتی تھیں؟ یہ موزوں کے لیے ہوتی تھیں‘ دایاں موزہ دائیں جیب میں ڈالا جاتا تھا اور بایاں بائیں جیب میں چناں چہ ہم نے جب سے مسجدوں میں وضو شروع کیا اور موزے ترک کیے اس دن سے ہماری مسجدوں میں صفائی کا معیار خراب ہو گیا۔
آپ خود سوچیے ہم جب گیلے پاؤں لے کر اندر داخل ہوں گے تو مسجد کے فرش اور صفیں کیسے صاف رہیں گی لہٰذا میری درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اسلام کے اصل کی طرف لوٹ جائیں‘ پانچ وقت نماز پڑھیں‘ وضو کریں‘ وقت پر غسل کریں‘ مسجد میں صرف نماز ادا کریں‘ موزے یا جرابیں پہن کر مسجد جائیں‘ شریعت کے مطابق ہاتھ دھو کر کھانا کھائیں اور کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھوئیں‘ مائع خوراک زیادہ لیں‘ آٹھ نو گھنٹے نیند لیں اور جہاں بیٹھتے ہیں اور جہاں سوتے ہیں وہ جگہ صاف رکھیں۔ آپ عمر بھر بیماریوں سے پاک رہیں گے۔
اسلام میں صفائی آدھا ایمان ہے اور یہ آدھا ایمان ہمارے ایمان کا پہلا حصہ ہے‘ ایمان کا دوسرا حصہ صفائی کے بعد آتا ہے‘ آپ کو اگر میری بات سمجھ نہیں آئی تو میں مزید عرض کر دیتا ہوں‘ نماز فرض ہے‘ اس فرض کے دو حصے ہیں‘ وضو اور پھر تکبیر تحریمہ‘ ہم اگر(کسی شرعی عذر کے بغیر) وضو نہیں کرتے تو کیا ہم نماز کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ جی نہیں لہٰذا پھر کیا مطلب ہوا؟ مطلب یہ ہوا صفائی ہمارے ایمان کا پہلا آدھا حصہ ہے‘ ہم جب تک یہ نہ کرلیں ہم ایمان کے دوسرے حصے یعنی عبادات کی طرف نہیں جا سکتے
چناں چہ میں دل سے سمجھتا ہوں جو شخص صاف ستھرا نہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور جو مسلمان ہے 196 وائرس مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے! آپ یہ نقطہ ذہن میں رکھیں اور پھر بتائیں کیا کرونا مسلمانوں کا محسن نہیں‘کیا یہ اسلام کا مبلغ ثابت نہیں ہو رہا؟ جی ہاں! یہ ہمارا بہت بڑا محسن ہے‘ اس نے ہمیں اسلام کی وہ روایات یاد کرا دیں جو ہم بھول چکے تھے اور یہ مبلغ اسلام بھی ہے‘ اس نے پوری دنیا کو بتا دیا مذہب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام لہٰذا کرونا صاحب تسی گریٹ ہو‘ تسی زندہ باد ہو۔