وہ پورے چاند کی رات تھی‘ ریت پر دور دور تک دودھیا روشنی بکھری ہوئی تھی‘ تارے چمک رہے تھے‘ ہم تاروں کے سائے میں چار پائیوں پر لیٹے تھے اور دور دورتک صحرا بکھرا ہوا تھا‘ یہ 1998ء کی گرمیوں کی رات تھی‘ پنجاب کے آج کے وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم پی اے تھے‘ یہ الہڑ نوجوان تھے‘ شہر میں متحرک تھے‘ میاں نواز شریف نے انہیں ٹکٹ دیا اور یہ ایم پی اے منتخب ہو گئے۔
یہ بعد ازاں سپریم کورٹ پر حملے کے ملزم ڈکلیئر ہوئے‘ سزا ہوئی اور ان کا سیاسی کیریئر معطل ہو گیا‘ ن لیگ نے ان کی قربانیوں کی قدر نہیں کی‘ یہ خوار ہوتے اور دھکے کھاتے کھاتے 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے‘ ایم پی اے منتخب ہوئے اور 20سال کی خواری کے بعد دوبارہ مین سٹریم پالیٹکس میں آ گئے۔ میں 1998ء کی رات کی طرف واپس آتا ہوں‘ سمیع اللہ چودھری اس وقت میرے دوست تھے‘ ہم نے ان کے ساتھ صحرا میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا‘ ٹریکٹر ٹرالی میں چارپائیاں لاد کر صحرا میں پہنچے اور ایک رات کے لیے عارضی ڈیرہ بنا لیا‘ سمیع اللہ نے کسی شان دار ”کک“ کا بندوبست کیا تھا‘ وہ نوابوں کا باورچی تھا‘ وہ ہرن کا گوشت لے آیا اور ہم نے صحرا کی وہ رات تکے کھا کر گزار دی‘ رات بھیگنے لگی تو باورچی پرانے واقعات سنانے لگا‘ ہمیں اس نے بتایا صحرا میں لوگ صرف چارپائی پر سوتے ہیں‘ رات کے وقت پاؤں نیچے نہیں رکھتے‘ اگر واش روم کے لیے بھی اٹھنا پڑے تو یہ پہلے چار پائی کے نیچے ڈنڈا (ڈانگ) پھیرتے ہیں اور پھر پاؤں نیچے اتارتے ہیں‘ ہم نے پوچھا ”کیوں“ وہ بولا ”سائیں سانپ کی وجہ سے‘ صحرا کے سانپ موذی ہوتے ہیں‘ یہ خون کی بو سونگھ لیتے ہیں اور چارپائیوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں‘ انہیں جو شخص بھی رات کے وقت صحن میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے یہ اسے کاٹ لیتے ہیں“۔
بات کا رخ مڑ گیا اور ہم سانپوں کی خصلت کے بارے میں ڈسکس کرنے لگے‘ باورچی نے توجہ ہٹتے دیکھی تو اس نے ایک واقعہ سنانا شروع کر دیا‘ اس کا کہنا تھا‘ اس کا دادا ایک رات اپنے ایک دوست بخشو کے ساتھ دوسرے گاؤں جا رہا تھا‘ دادا کے دوست کو راستے میں کانٹا چبھ گیا‘ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی‘ دادا نے کانٹا نکالا‘زخم پر آک کا دودھ لگایا‘ پٹی کی اور اسے آگے بھجوا دیا‘ وہ خود پیشاب کے لیے رک گئے‘ ہفتہ گزر گیا‘ دادا ہفتے کے بعد دوست کے پاس گئے۔
وہ لوہار تھا‘ وہ لوہا کوٹ رہا تھا‘ دادا نے دوست سے پوچھا ”زخم کیسا ہے؟“ دوست نے ہنس کر جواب دیا ”رات بھر تکلیف رہی‘ صبح اٹھا اور پٹی اتار دی‘ تھوڑی سی سوجن تھی‘ میں نے اس پر ٹکور کی اور سوجن بھی ختم ہو گئی بس اب چھوٹا سا نشان باقی ہے“ دوست نے ساتھ ہی اپنی ایڑھی دادا کے سامنے کر دی‘ دادا نے دیکھا کانٹے کی جگہ نیلے رنگ کا چھوٹا سا نشان تھا‘ دادا نے نشان دیکھا اور ہنس کر بولے ”لو بھئی بخشو! میں تمہیں بتا دوں‘ تمہیں اس رات کانٹا نہیں چبھا تھا‘ سانپ لڑا تھا‘ وہ سیاہ رنگ کوبرا تھا‘ میں نے اسے تمہیں کاٹتے دیکھ لیا تھا‘ میں نے تمہیں بھجوانے کے بعد سانپ تلاش کر کے اسے ماردیا تھا“۔
بخشو کا رنگ فق ہو گیا اور اس نے دادا سے پوچھا”تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا“ دادا نے ہنس کر جواب دیا ”مجھے پتا ہے تم ڈرو (بزدل) ہو‘ میں نے سوچا تم ڈر جاؤ گے‘ اس لیے نہیں بتایا“ بخشو گم سم ہو گیا‘ دادا واپس آ گئے‘ خانساماں اس کے بعد رکا اور پھر بولا”سائیں آپ کو پتا ہے اس رات کیا ہوا؟ بخشو گھر گیا‘ چار پائی پر لیٹا اور انتقال کر گیا‘ وہ اس خوف سے مر گیاکہ مجھے سانپ نے کاٹا تھا“ خانساماں نے اس کے بعد کہا ”سائیں لوگ سانپ سے نہیں مرتے‘ سانپ کی دہشت سے مرتے ہیں“۔
وہ رات‘ وہ خانساماں اور بخشو کی وہ کہانی تینوں میرے ذہن سے نکل گئے لیکن جوں جوں کرونا کا خوف بڑھتا جا رہا ہے مجھے وہ رات‘ بخشو کی کہانی اور سانپ کاخوف تینوں شدت سے یاد آ رہے ہیں‘ میں یہ جانتا ہوں ہمارے وزیراعظم عقل کل ہیں‘ یہ ہر چیز کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ یورپ کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں‘ یہ 20 سال یورپ میں پھرتے رہے ہیں‘ یہ کرکٹ کو بھی جانتے ہیں‘ یہ24 سال کرکٹ کھیلتے رہے ہیں‘ یہ انڈیا کو بھی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
یہ لاکھ لاکھ تماشائیوں کے سٹیڈیم میں کرکٹ کھیلتے تھے اور آخر میں پورا سٹیڈیم ان کے لیے تالیاں بجاتا تھا‘ یہ ویلفیئر کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں‘ انہوں نے تیسری دنیا میں پہلا کینسر ہاسپٹل بنایا تھا‘ یہ معیشت کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں‘یہ خالی جیب کے ساتھ آج تک شان دار فائیو سٹار زندگی گزاررہے ہیں‘ یہ سیاست کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں‘ یہ 22سال کی سٹرگل کے دوران کبھی مایوس نہیں ہوئے‘ یہ نوجوانوں کوبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
ان کی پارٹی یوتھ کی پارٹی ہے اور یہ فوج کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں‘ یہ احتساب کے بھی ایکسپرٹ ہیں‘ یہ لاک ڈاؤن اور کرفیو کا فرق بھی سمجھتے ہیں‘ یہ ریاست مدینہ کے بھی ایکسپرٹ ہیں‘ یہ اسلام کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں‘ یہ چلتے پھرتے(نعوذ باللہ) اللہ کو بھی ہدایت دے دیتے ہیں اور یہ بین الاقوامی تعلقات کے بھی دنیا کے سب سے بڑے ایکسپرٹ ہیں بس پنجاب جیسا جہاز کیپٹن عثمان بزدار کے ذریعے اڑانا‘ مرغیوں اور کٹوں کے ذریعے قوم کی حالت بدلنا اور کرونا کا تجربہ باقی تھا۔
اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے وزیراعظم اب ان امور کے ایکسپرٹ بھی ہو چکے ہیں لہٰذا پھر ہمیں ڈرنے یا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے لیکن اس کے باوجوددل کا خوف بڑھتا جا رہا ہے‘ کیوں؟ سمجھ نہیں آ رہی‘ شاید ہم کرونا سے زیادہ کرونا کے خوف میں مبتلا ہو رہے ہیں‘ شاید ہمیں خوف مار رہا ہے‘آپ حیران ہوں گے‘ دنیا میں سانس کی نالیوں کے 196 وائرس ہیں‘ یہ وائرس بھی کرونا جتنے خطرناک ہیں اور یہ روز 50 ہزار لوگوں کی جان لیتے ہیں۔
دنیا میں ہر سال ایک کروڑ 70 لاکھ لوگ سانس کی بیماریوں کی وجہ سے مرتے ہیں‘ انفلوئنزا (زکام) دنیا کی ان چند بیماریوں میں شامل ہے جن کا آج تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا‘ زکام کے بارے میں کہتے ہیں آپ اگر اس کا علاج شروع کر دیں تو یہ سات دن میں ٹھیک ہو گا اور اگر علاج نہ کریں تو یہ ایک ہفتے میں ختم ہو جائے گا‘ ہمارے حکماء اور ہندوستان کے آریویدک ہزاروں سال سے زکام میں مریضوں کی ٹھوس غذا بند کرا دیتے ہیں‘ اسے جوس اور جوشاندہ پلاتے ہیں اور مریض تین دن میں ٹھیک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
کرونا جیسی علامتیں ہزاروں سال سے برصغیر میں ہر مارچ اور ہر اکتوبر میں ظاہر ہوتی ہیں‘ ہندوستان کی تمام زبانوں میں یہ محاورہ پایا جاتا ہے ”آتی سردیوں اور جاتی سردیوں سے بچ کر رہیں“ ہم ہر سال موسم کی تبدیلی کے دوران بیمار ہوتے ہیں‘باقی دنیا بھی ہوتی ہے لیکن آپ سوشل میڈیا کا کمال دیکھیے اس نے کرونا کے خوف کو کرونا سے لاکھ گنا بڑا کر دیا لہٰذا دنیا کے 196 ملکوں کے سوا تین ارب لوگ اس وقت گھروں میں قید ہیں‘ پوری دنیا بند ہو چکی ہے۔
سیاحت 1700 ارب ڈالر کی انڈسٹری تھی‘ یہ زمین بوس ہو گئی‘ سول ایوی ایشن تین ہزار ارب ڈالر کی انڈسٹری تھی‘ یہ بھی تباہ ہو گئی اور دنیا میں ہر روز دو ٹریلین ڈالر کا کاروبار ہوتا تھا‘ یہ بھی بند ہو گیا‘دنیا میں بس صرف تین کاروبار چل رہے ہیں‘ فارما سوٹیکل‘ صابن‘ سینی ٹائزرز‘ گلوز اور ماسک کا کاروبار اور سوشل میڈیا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کرونا کا سب سے بڑا بینی فیشری سوشل میڈیا ہے‘تاریخ کے تمام ریکارڈٹوٹ چکے ہیں‘ آپ اگر انٹرنیٹ اور موبائل فون نیٹ ورکس کوبھی اس میں شامل کر لیں تو آپ سوشل میڈیا کی گروتھ اور منافع کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔
نیٹ ورک انڈسٹری میں پچھلے ایک ماہ میں دس سال کے برابر گروتھ ہوئی اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں یہ فور جی کے دور کے حالات ہیں‘ فائیو جی اور سکس جی ابھی آ رہی ہے‘ آپ ذرا اندازہ کیجیے جس دن فائیو جی آ جائے گی دنیا اس وقت کیسی ہو گی؟ اس دن کیا کیا بند ہو گا اور کتنی جلدی ہو گا؟۔ہمیں سوشل میڈیا اور نوول کرونا دونوں کو داد دینی ہو گی‘ یہ دونوں وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے ایک ہفتے میں پہلی بار سات براعظموں پر پھیلی اس دنیا کو گاؤں بنا دیا۔
اس نے ثابت کر دیا انسان خوف کی تار سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں‘ اس تار میں جس دن کرنٹ دوڑتا ہے دنیا اس دن بند ہو جاتی ہے‘ اس دن مائیکرو سکوپک وائرس اور سوشل میڈیا کی ایک کلک پوری دنیا کو لٹا دیتی ہے اور صدر ٹرمپ بھی اپنی بیگم سے ہاتھ ملانے سے پہلے ماسک اور دستانے چڑھانے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ یہ ہے سوشل میڈیا کی طاقت‘ اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا انسان سانپ سے نہیں مرتے‘ سانپ کے خوف سے مرتے ہیں۔
انسان کو گولی نہیں مارتی‘ گولی کی آواز مارتی ہے چناں چہ آپ اگر بچنا چاہتے ہیں تو پھر ذرا گولی کی آواز سے بچ کردکھائیں لہٰذا میرادعویٰ ہے ہم شاید کرونا سے بچ جائیں لیکن ہم سوشل میڈیا کے تخلیق کردہ خوف سے نہیں بچ سکیں گے‘ یہ ہماری جان لے کر رہے گا۔