میری سردار کامران کے ساتھ پہلی ملاقات مصر کے سفر کے دوران ہوئی‘ یہ شفیق عباسی کے ساتھ تھے‘ میں ہم خیال گروپ کو حضرت یوسف ؑ‘حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون رعمیسس دوم کے بارے میں بتا رہا تھا‘ سردار صاحب کو میری کوئی بات غیرمنطقی‘ غیر حقیقی محسوس ہوئی چناں چہ ان کی طرف سے اعتراض آ گیا‘ میں نے زندگی کے بے شمار تجربات سے سیکھا ہے اپنی بات‘ اپنے خیال‘ اپنے نقطے یا اپنی معلومات پر ڈٹ جانا خوف ناک جہالت کی غضب نشانی ہے۔
دنیا میں ہر چیز ممکن ہے اور دنیا میں ہر بات‘ ہر خیال غلط بھی ہو سکتا ہے لہٰذا میں ہر دوسرے شخص کے نقطہ نظر کو مان لیتا ہوں‘ معافی مانگتا ہوں‘ اپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہوں اور پھر ان سے عرض کرتا ہوں ”آپ درست فرما رہے ہوں گے‘میں بھی واپس جا کر چیک کروں گا اور آپ بھی کر لیں“ میں نے سردار صاحب کی بات بھی مان لی‘ شام کو مجھے ان کی طرف سے واٹس ایپ میسج آ گیا‘ سردار صاحب نے پیغام میں اپنے رویے پر معذرت کی تھی‘ ان کا کہنا تھا ”کل رات بس میں آپ کی بات کے دوران میری مداخلت بے جا اور اخلاقاً سراسر غلط حرکت تھی‘ اس وقت جب آپ لوگوں سے مخاطب تھے‘ میرا بیچ میں بولنا مناسب نہیں تھا‘ آئندہ ایسا نہیں ہو گااگر آپ اجازت دیں تو میں لوگوں کے درمیان کھڑا ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف اور معذرت کرنا چاہتا ہوں“یہ پیغام میرے لیے حیران کن تھا‘ میری پوری زندگی میں کسی شخص نے اس طرح اعتراف اور معذرت نہیں کی تھی‘ ہم پنجابی معافی‘ اپنی غلطی کے اعتراف اور اخلاقیات کے قائل نہیں ہیں‘ پنجابی دنیا کی واحد زبان ہے جس میں معافی اور شکریے کے لفظ نہیں ہیں چناں چہ میں سمجھتا ہوں اگر پنجابی معافی مانگ لے یا پھر دل سے کسی کا شکریہ ادا کر دے تو پھر وہ نجیب الطرفین پنجابی ہو سکتا ہے‘ میں حیران ہو گیا اور میں سو لوگوں کے درمیان سردار صاحب کو تلاش کرنے لگا۔
میں نے ان کو ڈھونڈا‘ ان سے ہاتھ ملایا اور پوچھا ”جناب آپ ہیں کون“ اور پھر یوں میری ان کے ساتھ دوستی ہو گئی‘اب ان سے ٹیلی فون پر بھی رابطہ رہتا ہے اور پچھلے ہفتے ان سے لاہور میں بھی ملاقات ہوئی‘ ہم انسانوں میں سے کچھ لوگ ذہنی طور پر بالغ ہوتے ہیں‘ کچھ پڑھے لکھے ہوتے ہیں‘ کچھ تجربہ کار ہوتے ہیں‘ کچھ روحانی لحاظ سے گہرے ہوتے ہیں اور کچھ کو اللہ تعالیٰ نے عاجزی سے نواز رکھا ہوتا ہے‘ یہ تمام لوگ الگ الگ ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ بہت کم لوگوں کو یہ ساری نعمتیں دیتا ہے اور سردار صاحب ان کم لوگوں میں شمار ہوتے ہیں‘ ان کا پورا نام کامران حسن آصف ہے‘دادا سردار عبدالرزاق لنکنزان میں پڑھتے تھے‘ قائداعظم نے ملتان بھیج دیا اور وہ پوری زندگی ملتان سے باہر نہیں نکلے‘ والد انگریزی کے مشہور پروفیسر ایم آر آصف تھے‘ قیام پاکستان سے پہلے امریکا گئے‘ جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے انگریزی اور ایجوکیشن میں ایم اے کیا‘ یہ پاکستان کے پہلے ایم اے ایجوکیشن تھے۔
وہ پوری زندگی انگریزی پڑھاتے اور انگریزی لٹریچر کی کتابیں لکھتے رہے‘ سردار صاحب کے ایک بھائی ندیم حسن آصف ملک کے مشہور بیوروکریٹ ہیں جب کہ سردار صاحب کے بقول یہ خاندان کے انتہائی کم علم فرد ہیں‘ یہ اگر کم علم ہیں تو آپ پھر پڑھے لکھوں کا لیول دیکھ لیجیے‘ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی‘ جوانی میں گھر سے نکل گئے اور پوری دنیای دیکھ ڈالی‘ مجھے پاکستان میں آج تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے لاطینی امریکا کی سیاحت کی ہو‘ یہ لاطینی امریکا کے آدھے ملک بھی دیکھ چکے ہیں۔
مطالعے کی دائمی عادت کا شکار ہیں‘ روز دو تین گھنٹے پڑھتے ہیں‘ الیکٹرومیڈیکل انسٹرومنٹس کا کام کرتے ہیں‘ پورے ملک میں یورالوجی‘ گائنی اور لیور کے آلات سپلائی کرتے ہیں‘ اینڈوسکوپی اور لیور سکین میں مناپلی ہے‘ طبیعت میں تحمل اور خیالات میں روانی ہے‘ گفتگو سالڈ کرتے ہیں اور شوقیا ٹیلی فلمیں بناتے ہیں اور میں ایک دوملاقاتوں میں ان کا فین ہوچکا ہوں۔مجھے شرم الشیخ اور لاہور میں ان کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا‘ سردار صاحب نے ان چند گھنٹوں میں میرے چار خوف ناک مغالطے دور کر کے میرے علم میں بے تحاشا اضافہ کیا۔
سردار صاحب کا خیال ہے ہم مسلمان سبحان اللہ کی تسبیح کرتے ہیں لیکن دنیا کا بہترین سبحان اللہ کام ہے‘ آپ کوئی کارنامہ سرانجام دیں‘ آپ دیوار چین بنا دیں‘ بلب ایجاد کر دیں‘ کینسر کی دوا بنا دیں‘ آپ کوئی مفید کتاب لکھ دیں‘ آپ کوئی شان دار ایپلی کیشن بنا دیں یا آپ کوئی ایسی نظم‘کوئی ایسی غزل یا کوئی ایسی دھن بنا دیں جسے سن کر‘ دیکھ کر یا محسوس کر کے دوسروں کے منہ سے سبحان اللہ نکل جائے اور یہ سبحان اللہ ہماری روزانہ کی تسبیحات سے بڑا سبحان اللہ ہو گا۔
ان کا کہنا تھا سبحان اللہ جتنا ان ڈائریکٹ‘ جتنا عملی ہو گا یہ اتنا ہی پاورفل اور اتنا ہی بڑا ہو گا اور اس کا اتنا ہی ثواب ہو گا‘ سیاح دیوار چین دیکھ کر کیا کہتے ہیں ”سبحان اللہ بنانے والوں نے کیا دیوار بنائی ہے“ یہ فقرہ اصل سبحان اللہ‘ اصل تسبیح ہے‘ سردار صاحب کی بات میرے دل کو لگی‘ دوسرا ان کا کہنا تھا دنیا جہاں کی طوائفیں مذہبی ہوتی ہیں‘ آپ کوپوری عیسائی دنیا میں کسی طوائف کا نام میری‘ مریم‘ رابیکا یا صفورا نہیں ملے گا‘آپ کو مسلمان طوائفوں کے نام بھی شمع یا پروانہ ٹائپ ملیں گے۔
دنیا جہاں کی طوائفیں ادافروشی سے پہلے اپنے نام تبدیل کرتی ہیں‘ یہ صدقہ خیرات بھی بہت کرتی ہیں اور تمام اسلامی تہوار بھی عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ خشوع وخضوع کے ساتھ مناتی ہیں‘ یہ ہر دوسرے تیسرے دن ختم بھی کراتی ہیں اور ان کے دن کا آغاز بھی مناجات سے ہوتا ہے‘ آپ نے کبھی سوچا ”کیوں؟“ میں نے جواب دیا نہیں‘ یہ بولے انسان کی نفسیات ہے یہ جتنا بڑا جرم کرتا ہے‘ یہ جتنا بڑا مجرم ہوتا ہے‘ یہ وکیل بھی اتنے ہی تگڑے اور زیادہ رکھتا ہے۔
یہ طوائفوں کا گلٹ ہوتا ہے جو انہیں مذہب میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتا ہے‘ مجھے ان کی یہ بات بھی ٹھیک لگی اور اس کے ساتھ ہی مجھے وہ تمام سیٹھ بھی یاد آ گئے جنہوں نے زندگی میں حرام کمانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا لیکن آخر میں شہر کی سب سے بڑی مسجد بھی بنا دی‘ مدرسہ بھی اور ہسپتال بھی‘ یہ ہسپتال‘ مدرسہ‘ مسجد یا پھر لنگر شاید‘ شاید ان کے وکیل ہوں اور وہ یہ سمجھتے ہوں یہ عمارتیں دوسری زندگی میں ان کی وکالت کریں گی‘ تیسرا سردار صاحب نے بتایا میرا ایک بزنس پارٹنر ہوتا تھا۔
وہ میری ساری رقم لے کر بھاگ گیا اور کمپنی میرے سر پر آ گری جس کے بعد میرے پاس دو آپشن تھے‘ میں یہ کاروبار جاری رکھتا یا پھر میں کمپنی بند کر کے نیا کام شروع کر دیتا‘ میں نے کاروبار جاری رکھنے کا فیصلہ کیا‘ میں جاپان چلا گیا اور اس کمپنی کے سی ای او سے ملا جس کی مشینیں ہم پاکستان میں فروخت کرتے تھے‘ سی ای او نے مجھ سے پوچھا ”تمہارے پاس رقم نہیں ہے‘ ہم تمہارے ساتھ کام کیوں کریں“ میں نے اسے بتایا”میرے والد کہا کرتے تھے تمہارا سکہ رات کے وقت جس جگہ گرتا ہے وہ اگلی صبح تمہیں وہیں ملتا ہے چناں چہ تم کھویا ہوا سکہ کسی دوسری جگہ تلاش نہ کرو‘اسی جگہ جاؤ جہاں یہ گرا تھا‘ میرا سکہ کیوں کہ آپ کے دفتر میں گرا ہے لہٰذا یہ مجھے یہاں ہی ملے گا“۔
وہ ہنسا اور اس نے میرے ساتھ کام شروع کر دیا اور میں چند ماہ میں دوبارہ قدموں پر کھڑا ہو گیا‘ مجھے سردار صاحب کی بات روشنی کا طویل راستہ محسوس ہوئی‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ناکامی کے بعد پرانا بزنس‘ پرانی جاب اور پرانی سکل چھوڑ کر نئی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کاروباری ہجرت کے دوران یہ بھول جاتے ہیں یہ جس کام جس سکل کے ماہر ہیں‘ جس میں انہوں نے منافع بھی کمایا اور نقصان بھی برداشت کیا یہ اسے چھوڑ کر اس کام میں قدم رکھ رہے ہیں جس کی یہ الف ب بھی نہیں جانتے۔
یہ لوگ لاہور میں گم ہونے والا سکہ راولپنڈی میں تلاش کرتے ہیں چناں چہ یہ کیسے کام یاب ہوسکتے ہیں اور یہ اگر کام یاب ہو بھی جائیں تو انہیں پہلے سے زیادہ محنت اور زیادہ کام کرنا پڑے گا‘ سردار صاحب نے باتوں ہی باتوں میں مجھے ”سیلف ہیلپ“ کی بہت بڑی ٹپ دے دی اور آخری بات پچھلی تینوں سے زیادہ جان دار اور سٹرائیکنگ تھی‘ سردار صاحب کا کہنا تھا‘ میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ رہا تھا‘ میں جب سورۃ النساء کی 17ویں اور18ویں آیت پر پہنچا تو مجھے محسوس ہوا معافی اور توبہ کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔
ہم جب وہ وقت گزار دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ توبہ اور معافی کے دروازے بند کر دیتا ہے‘ مثلاً جوانی کی غلطیوں اور جرائم کی توبہ اور معافی کا وقت جوانی ہوتاہے‘ اقتدار‘ کام یابی اور خوش حالی کے دوران ہونے والی غلطیوں کا ادراک اور توبہ بھی اس عرصے کے دوران قبول کی جاتی ہے‘ آپ جب عہدے‘ دولت‘ کام یابی‘ اقتدار اور طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں تو پھر آپ معافی اور توبہ کا وقت ضائع کر بیٹھتے ہیں پھر آپ کے لیے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
سردار صاحب کا فرمانا تھا ہمیں چاہیے ہم جس وقت غلطی‘ کوتاہی یا زیادتی کریں ہم اسی وقت معذرت کریں‘ ہم اسی وقت معافی مانگیں اور توبہ کریں‘ ہم شاید رتبہ اور عہدہ ختم ہونے کے بعد معافی کی سہولت سے محروم ہو جائیں‘ یہ نقطہ بھی میرے دل پر لگااور میں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سردار صاحب کا شکریہ ادا کیا۔