طارق فاطمی کو کون نہیں جانتا‘ یہ مسلک کے لحاظ سے شیعہ سید ہیں‘ مشرقی پاکستان میں ڈھاکا میں پیدا ہوئے‘ 1969ئمیں فارن سروس جوائن کی‘ 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو یہ بنگالی ہونے کے باوجود پاکستان میں رہ گئے اور ترقی کرتے کرتے ملک کے سینئر ترین سفارت کار بن گئے‘ روس اور امریکا دونوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں‘ یہ دنیا کی دونوں سپر پاورز کے ماہر ہیں اور یہ بنگالی‘ اردو‘ رشین اور انگریزی کے ساتھ ساتھ فرنچ اور سپینش بھی بول سکتے ہیں۔
ہم ان کے بعض نظریات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ ان کی محبت اور ایمان داری دونوں شک سے بالاتر ہیں‘ نواز شریف کے تیسرے دور میں یہ فارن افیئرز میں وزیراعظم کے خصوصی معاون بھی تھے اور وزیراعظم کی کچن کیبنٹ کا حصہ بھی تھے‘ 2015ء میں یمن کے ایشو پر پاکستان پر مشکل وقت آ گیا‘ سعودی عرب نے ہم سے حوثی باغیوں کو کچلنے کے لیے فوج مانگ لی‘ حوثیوں کو ایرانی پاس داران کا القدس بریگیڈ سپورٹ کرتا تھا‘ یہ پراجیکٹ بھی جنرل قاسم سلیمانی چلا رہے تھے‘ ہم پھنس گئے‘ ہم ایران کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور ہم میں سعودی عرب کو انکار کی جرات بھی نہیں تھی لہٰذا ہم بری طرح الجھ گئے‘ میاں نواز شریف نے اس کا دل چسپ حل نکالا‘ یہ 2016ء میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث بن گئے‘ یہ 18جنوری کو ریاض گئے اور19جنوری کو ایران چلے گئے‘ جنرل راحیل شریف اور طارق فاطمی بھی وزیراعظم کے ساتھ تھے‘ میں نے پی اے ایف بیس پر فاطمی صاحب سے پوچھا ”کیا ہماری ثالثی کام یاب ہو جائے گی“ یہ ذرا سا مسکرائے اور بولے ”وزیراعظم نے بھی مجھ سے یہ پوچھا تھا‘ میں نے میاں صاحب سے عرض کیا تھا‘ جناب یہ مسئلہ 632ء سے آج تک حل نہیں ہو سکا‘ شاید ہم یہ ساڑھے چودہ سو سال بعد حل کر لیں“ ہم سب مسکرانے پر مجبور ہو گئے‘ وزیراعظم کا سٹاف بھی منہ پیچھے کر کے ہنسنے لگا۔
طارق فاطمی صاحب کے فقرے میں سب کچھ تھا‘ میری وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے یہ اپنے دفتر میں ایک نوٹس بورڈ لگائیں‘ اس پر عرب‘ ایران اور امریکا لکھیں اور ان کے نیچے 632ء لکھ دیں‘ 632ء کا ہندسہ انہیں روز ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ سمجھا ئے گا‘ یہ انہیں بتا ئے گا وہ مسئلہ جو چار خلفاء راشدین کے دور میں حل نہیں ہو سکا‘ جو بڑے بڑے صحابہؓ حل نہیں کر سکے‘ جو امویوں‘ عباسیوں‘ فاطمیوں‘ عثمانیوں اور ایوبیوں کے طاقت ور ادوار میں حل نہیں ہو سکا۔
اور جو مسئلہ شاہ ایران‘ امام خمینی‘ شاہ فیصل‘ کرنل قذافی‘ صدام حسین‘ حافظ الاسد‘صدر سوہارتو‘ یاسرعرفات‘ انوار السادات‘ ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق حل نہیں کر سکے‘ وہ ہم کیسے اور کب حل کر سکتے ہیں؟632ء کا یہ ہندسہ وزیراعظم کو بتائے گا ایران عرب اور سنی شیعہ آج کا مسئلہ نہیں‘ یہ ساڑھے چودہ سو سال پرانا ایشو ہے اور خلیفہ ہارون الرشید‘ سلطان صلاح الدین ایوبی‘ امیر تیمور‘ عثمان غازی (سلطنت عثمانیہ کے بانی) اور خلیفہ عبداللہ المہدی (فاطمی سلطنت کے بانی) جیسے بادشاہ بھی یہ مسئلہ حل کرتے کرتے قبروں میں جا سوئے مگر یہ ایشو جوں کا توں رہا۔
عرب اور ایران کی تقسیم ختم نہ ہو سکی‘ شیعہ اور سنی ایک میز پر نہ بیٹھ سکے اور شاید کوئی بھی انہیں ہمیشہ کے لیے اکٹھا نہ بٹھا سکے‘ یہ صرف مسلک کا ایشو نہیں‘ یہ دو تہذیبوں کی لڑائی بھی ہے اور تاریخ بتاتی ہے مسلکی اختلافات ختم ہو سکتے ہیں مگر تہذیبوں کا ٹکراؤ نہیں تھمتا لہٰذا ہم اگر ایران اور عربوں کے درمیان سے فقہی اختلافات نکال بھی دیں تو بھی ایران ایران اور عرب عرب رہیں گے‘ یہ پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے‘ کیوں؟
کیوں کہ ان کے درمیان جنگ اسلام سے دو ہزار سال پہلے شروع ہوئی تھی اور اسلام قبول کرنے کے بعد دونوں کے درمیان تمدنی اختلاف میں اضافہ ہو گیا تھا۔ایک اللہ‘ ایک رسول اور ایک قرآن کے بعد بھی دونوں کا اختلاف برقرار رہا‘عمران خان کو ایران‘ عرب اور امریکا کے درمیان کودتے ہوئے یہ حقیقت جاننا ہوگی دنیا کے ہر آج کا ایک گزرا ہوا کل بھی ہوتا ہے اور انسان جب تک اس گزرے ہوئے کل کو نہ سمجھ لے اسے اس وقت تک آج اور آنے والے کل کا اندازہ نہیں ہو سکتا اور ایران عرب اور سنی شیعہ تنازع کا گزرا ہوا کل بہت خوف ناک اور بہت خونی تھا‘ یہ کل 632ء میں شروع ہوا تھا۔
https://docs.google.com/forms/d/e/1FAIpQLSeVjVL4AN-dvPKf7cKZl5jq2hNbHGzxfPKRMNMLJRg1cAERnw/viewform
نبی اکرم ؐ 632ء میں دنیا سے پردہ فرما گئے تھے‘ آپؐ کے وصال کے فوراً بعد خلافت کا ایشو بن گیا‘ یہ شروع میں مہاجرین اورانصار کا مسئلہ تھا لیکن یہ بعد ازاں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت علیؓ تک جا پہنچا‘ یہ دونوں نبی اکرمؐ کے قریب ترین اور عزیز ترین ساتھی تھے‘ یہ دونوں دنیاوی عہدوں سے بالاتر تھے لیکن دنیا کو اپنی نفرت‘ اپنے اختلاف کے لیے شخصیات چاہیے ہوتی ہیں چناں چہ اسلامی دنیا خاموشی سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
ایک گروپ نے حضرت علیؓ کا پرچم تھام لیا اوردوسرے نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا‘ یہ تقسیم حضرت عمرؓ کے دور میں مزید واضح ہو گئی‘636ء میں ایران فتح ہوا‘ ایرانی بادشاہ یزدگرد کی دو شہزادیاں بی بی شہر بانو ؑ اور بی بی گیہان بانو ؑ لونڈیاں بن کر مدینہ آئیں‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا‘ یہ شہزادیاں ہیں اور یہ شہزادوں کے عقد میں جائیں گی لہٰذا بی بی شہربانو ؑ کو حضرت امام حسینؓ اور بی بی گیہان بانو ؑ کو محمد بن ابو بکرؓ کے عقد میں دے دیا گیا‘ میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو حضرت محمد بن ابو بکرؓ کا بیک گراؤنڈ بھی بتاتا چلوں۔
حضرت جعفر طیارؓ حضرت علیؓ کے بڑے بھائی تھے‘ آپؓ کی اہلیہ محترمہ کا نام حضرت اسماء بنت عمیسؓ تھا‘ حضرت جعفر طیارؓ 629ء میں جنگ موتہ میں شہید ہو گئے (موتہ اردن میں ہے‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے حضرت جعفر طیارؓ کے مزار پر حاضری کی سعادت عطا فرمائی)حضرت جعفر طیارؓ کی شہادت کے بعد حضرت اسماءؓ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نکاح فرما لیا‘ حضرت محمد بن ابو بکرؓ حضرت اسماءؓ کے بطن سے پیدا ہوئے‘ یہ ابھی چھوٹے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا وصال ہو گیا اور حضرت اسماءؓ دوسری بار بیوہ ہو گئیں۔
اس بار حضرت علیؓ نے آپؓ سے نکاح کر لیا یوں حضرت محمد بن ابوبکرؓ اپنی والدہ کے ساتھ حضرت علیؓ کے گھر تشریف لے آئے اور آپؓ نے حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے ساتھ پرورش پائی یوں آپؓ بھی شہزادے ہو گئے‘ حضرت عمرؓ نے اس مناسبت سے بی بی شہربانو ؑ کو حضرت امام حسینؓ اور بی بی گیہان بانو ؑ کو حضرت محمد بن ابوبکرؓ سے جوڑ دیا‘یہ دو نکاح ایران کو اہل بیت کے مزید قریب لے گئے‘ خلیج مزید وسیع ہو گئی جب کہ واقعہ کربلا کے بعد یہ خلیج ناقابل عبور ہو گئی۔
بی بی شہربانو ؑ ایران شفٹ ہو گئیں‘آپؑ کا انتقال بھی تہران میں ہوا‘ آپ ؑ کا مزار شریف تہران کے مضافات میں ہے‘ آپ حضرت امام زین العابدینؓ کی والدہ ماجدہ تھیں یوں پورا ایران امامؓ کے ہاتھ پر بیعت ہو گیا‘ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں ایک اور ٹرن آیا‘ ہارون الرشید کے دو صاحبزادے تھے‘ امین الرشید اور مامون الرشید‘امین الرشید عربی بیگم کے بطن سے تھا اور مامون الرشید ایرانی بیگم کے بطن سے‘ خلیفہ ہارون الرشید مشہد کے قریب انتقال کر گیا۔
مامون الرشید نے والد کو مشہد میں دفن کیا اور پھر اہل تشیع کے آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضاؒ کو بھی زہر دے کر قتل کرا دیا‘ امام رضاؒ کو بھی مشہد میں دفن فرما دیا گیا یوں خلیفہ ہارون الرشید اور امام رضاؒ دونوں مشہد میں مدفون ہیں‘ مامون الرشید نے اپنے بھائی امین الرشیدسے تخت بھی چھین لیا تھا اور اسے قتل بھی کرا دیا‘ حضرت امام رضاؒ اور امین الرشید کے قتل کے بعد یہ خلیج مزید وسیع ہو گئی‘ اس دوران اسماعیلی شیعوں نے مصر میں فاطمی سٹیٹ بنا لی یوں یہ جنگ عرب کے ساتھ ساتھ افریقہ بھی پہنچ گئی۔
یہ بعد ازاں اردن‘ شام اورلبنان تک چلی گئی‘ یمن بھی اس میں شامل ہو گیا‘ امیر تیمور اور سلطنت عثمانیہ بھی اس جنگ میں کود پڑی اور یہ جنگ سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے عظیم جرنیل کو بھی نگل گئی‘ یورپ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس جنگ میں اترا‘ اس نے عثمانی خلافت توڑ کر مسلم ورلڈ کو شیعہ اور سنی دو حصوں میں تقسیم کر دیا جب کہ امریکا شاہ ایران کے دور میں تیل کی وجہ سے اس جنگ میں کود پڑا‘ تیل کی تمام بڑی کمپنیاں امریکی ہیں لہٰذا امریکا تیل کو ہر صورت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔
یہ شاہ ایران کے دور میں ایران کے ساتھ تھا‘ 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا تو یہ عربوں کے ساتھ کھڑا ہو گیاجب کہ تازہ ترین لڑائی کی وجہ ”شیل ٹیکنالوجی“ ہے‘ امریکا 2010ء تک تیل کا سب سے بڑا امپورٹر تھا‘2010ء میں شیل ٹیکنالوجی آئی اور یہ ایک جست میں دنیا کا سب سے بڑا آئل پروڈیوسر بن گیا‘ شیل ٹیکنالوجی نے دنیا میں ایک نئی آئل وار چھیڑ دی‘آپ خود فیصلہ کیجیے دنیا میں جب تک عرب اور ایران کا تیل منہگانہیں ہوتا‘ امریکا اس وقت تک اپنا تیل کیسے سستا بیچے گا چناں چہ آج مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے‘ یہ مزید بھی جلے گا اور امریکا یہ آگ تاپے گا۔
عمران خان تاریخی شخصیت بننا چاہتے ہیں‘ یہ ضرور بنیں لیکن ہمارے وزیراعظم یہ بھی جان لیں خلفاء راشدین‘ جید صحابہؓ ‘ اولیاء کرامؒ‘ مولانا رومؒ اور ابن عربی سمیت اسلامی دنیا کے ناقابل شکست سپہ سالار اور ورلڈ لیڈر بھی یہ مسئلہ حل نہیں کر سکے تھے‘ یہ تمام ناکام ہو گئے‘ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسی شخصیت نے بھی دل برداشتہ ہو کر آخری عمر گم نامی میں گزار دی تھی‘بھٹو جیسا شخص اس ایشو کو چھیڑ کر پھانسی لگ گیا تھا‘ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ پھٹ گیا تھا۔
شاہ فیصل اپنے محل میں مارے گئے تھے اور بشار الاسد جیسے لیڈر اس وقت اپنی جان بچاتے پھر رہے ہیں چناں چہ پھر ہم کیا ہیں؟ ہم اور ہمارا شوربہ کتنا نکلے گا؟ لہٰذا آپ مہربانی فرما کر احتیاط کریں‘ آپ کچھ بھی نہ کریں‘ آپ بس خاموش بیٹھے رہیں‘ آپ اپنی اور اپنے ملک کی جان بچائیں‘ آپ کوئی ثالثی نہ کریں اور آپ کسی کو نہ سمجھائیں‘ جو آگ صدیوں میں نہیں بجھ سکی‘ وہ آپ بھی نہیں بجھا سکیں گے‘آپ یہ حقیقت پلے باندھ لیں یہ صدیوں کی لڑائی ہے‘ یہ ورلڈ کپ نہیں ہے‘ یہ لڑائی آپ کو بھی نگل جائے گی۔