ڈاکٹر اطہر محبوب صاحب نے دوسرے دن لال سوہانرا ریسٹ ہاﺅس میں لنچ کا اہتمام کر رکھا تھا‘ یہ ریسٹ ہاﺅس میاں نواز شریف نے بنوایا تھا‘ ان کا بیڈروم بھی آج تک یہاں موجود ہے‘ ریسٹ ہاﺅس کے ساتھ ایک طویل واکنگ ٹریک اور چھوٹی سی جھیل ہے‘ جھیل میں وینس کے کنڈولے جیسی چھوٹی سی کشتی تیرتی رہتی ہے‘ میاں نواز شریف اس کشتی میں بیٹھ کر شام کو رات میں تبدیل ہوتے دیکھتے تھے‘ یہ جگہ انہیں بے تحاشا پسند تھی‘ میں نے یہ ریسٹ ہاﺅس اور کشتی دیکھی تو میں میاں نواز شریف کے ذوق کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
یہ مقام ہر زاویے سے یورپ محسوس ہوتا تھا‘ گھنا جنگل‘ چھوٹی سی جھیل‘ صحرا کی خوشبو دار ہوائیں اور اوپر سے دسمبر کی دھند یہ تمام چیزیں مل کر حقیقت کو خواب بنا رہی تھیں‘ماحول وین گو کی پینٹنگز‘ گوگول کی نظموں اور بانسری کی کوک کی طرح خواب ناک تھا۔مجھے لال سوہانرا میں اپنے پرانے استاد شیراز پراچہ صاحب سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا‘ یہ میرے ایام جہالت میں مجھے پڑھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے تھے‘ میں ڈھیٹ مٹی کا بنا ہوا انسان ہوں لہٰذا یہ بری طرح ناکام رہے ‘ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ ان کے چہرے کا طرہ امتیاز ہوتا تھا‘ یہ بزرگ ہو چکے ہیں لیکن ان کی شرمیلی مسکراہٹ آج بھی جوان ہے‘ میں دل سے ان کی قدر کرتا ہوں‘ ڈاکٹر شہزاد رانا میرے بہاولپور کے زمانے کے دوست ہیں‘ ہم جس زمانے میں یونیورسٹی میں پڑھتے تھے یہ اس وقت پنجاب ہائی وے میں ملازم تھے‘ یہ یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے تو تعلیم کا شوق واپس آگیا‘ بی اے کیا‘ پھر ایم اے کیا‘ یونیورسٹی میں لیکچرار ہوئے اور پھر پی ایچ ڈی کر کے اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے‘ یہ جوانی کی پرانی یاد کی طرح میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں‘ یہ دو دن میرے ساتھ رہے‘ ہم رات کے سناٹے میں پرانے شہر کی پرانی گلیوں میں پرانی یادیں بھی تلاش کرتے رہے اور ہم دن میں بھی اکٹھے رہے‘ شہزاد صاحب نے مہربانی فرمائی‘ یہ مجھے لینے اور واپس چھوڑنے کے لیے ملتان آئے ۔بہاولپور میری اصلیت ہے‘ میں ذاتی زندگی میں بور‘ چڑچڑا اور نالائق ہوں۔
میری یہ تینوں ”خوبیاں“ بہاولپور کے زمانے میں جوبن پر تھیں‘ میں اس قدر نالائق تھا کہ یونیورسٹی کے تمام درخت اور اینٹیں تک میری نالائقی کی گواہی دیتی تھیں‘ میں کسی بھی وقت کوئی بھی بات محسوس کر کے کسی کے ساتھ بھی ناراض ہو سکتا تھا اور میں اس قدر بور تھا کہ لوگ سارا سارا دن میرے ساتھ بیٹھے رہتے تھے مگر مجال تھی جو میں مسکراتا یا ہنستا تھا‘ میرا سارا دن تین محوروں کے گرد گھومتا تھا‘ میں لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتا رہتا تھا‘ اندھا دھند واک کرتا تھا اور شام کو چڑیا گھر چلا جاتا تھا اور بندروں کے ساتھ مکالمہ شروع کر دیتا تھا۔
میں نے اس زمانے میں محسوس کیا تھا میں بندروںاور بندر مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں‘ ہم میں کوئی ٹوٹی پھوٹی کڑی موجود تھی چناں چہ میں نے زیادہ تر وقت بندروں کی صحبت میں گزارہ‘ میں نے زندگی کے تمام بنیادی گُر بھی بہاولپور سے سیکھے مثلاً میرے جیسے کھوٹے سکے نے ایک دن سوچا دنیا میں ایسی بے شمار دھاتیں موجود ہیں جن کو اگر مسلسل رگڑا جائے تو یہ سونے کی طرح چمکنا شروع کر دیتی ہیں‘ مجھے خود کو بھی ایک بار رگڑ کر دیکھ لینا چاہیے شاید میں بھی چمکنا شروع کر دوں چناں چہ میں نے اپنے آپ کو رگڑنا شروع کر دیا۔
میرا پہلا ہدف کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنا تھا‘ پنجاب یونیورسٹی میں صحافت کے ایک استاد ہوتے تھے‘ شفیق جالندھری‘ مجھے ان سے گیدڑ سنگھی مل گئی‘جالندھری صاحب نے بتایا آپ اگر آدھ گھنٹے میں 26 صفحے لکھ لو تو آپ بیس میں سے انیس نمبر حاصل کر سکتے ہو‘ میں پیدائشی رٹے باز تھا‘ میں نے اپنے نوٹس بنائے‘ انہیں رٹا لگایا اور تیزی سے لکھنے کی پریکٹس شروع کر دی‘ میں تین ماہ تیزی سے لکھنے کی پریکٹس کرتا رہا یہاں تک کہ میری شہادت کی انگلی ٹیڑھی ہو گئی۔
میرے ہاتھ میں آج بھی درد ہوتا ہے لیکن میں نالائق ترین ہونے کے باوجود اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ٹاپ کر گیا‘ یہ میری زندگی کی پہلی کام یابی تھی اور یہ کام یابی مجھے بتا گئی دنیا میں محنت کا کوئی متبادل نہیں‘ محنت دنیا کا سب سے بڑا مذہب‘ سب سے بڑی شہریت‘ سب سے بڑا استاد‘ سب سے بڑا نوٹ اور سب سے بڑا اعزاز ہے‘ آپ بس آنکھیں بند کر کے پہاڑ کاٹنا شروع کر دیں‘ دودھ نکلے یا نہ نکلے لیکن آپ فرہاد بن کر ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جائیں گے‘ میں نے دنیا جہاں کے کام یاب لوگوں کی داستانیں پڑھیں۔
https://docs.google.com/forms/d/e/1FAIpQLSeVjVL4AN-dvPKf7cKZl5jq2hNbHGzxfPKRMNMLJRg1cAERnw/viewform
مجھے ہر کام یاب شخص کے پیچھے دو ہاتھ ملے‘ ایک اللہ کا ہاتھ اور دوسرا اس کا اپنا ہاتھ‘ مجھے اس کام یابی نے بتایا دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں‘ زبان کی دعا اور جوڑوں کی دعا‘ اللہ زبانوں کی دعائیں سنے یا نہ سنے لیکن یہ انسانی جوڑوں کے اندر سے کراہتی‘ چیختی اور چلاتی دعائیں ضرور سنتا ہے چناں چہ ہم اگر اللہ کی مشیت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اتنی محنت‘ اتنی مشقت کرنی چاہیے کہ ہمارے جسم کا ایک ایک جوڑ دعا بن جائے‘ یہ اللہ سے کہے یا پروردگار اس کی سن لے نہیں تو یہ مجھے کہنے سننے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔
محنت دنیا کی سب سے بڑی تکنیک ہے اور یہ تکنیک مجھے بہاولپور سے ملی ‘ میں یہ ساتھ لے کر لاہور گیا اور پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ میں آج بھی جو دروازہ کھولنا چاہتا ہوں میں اس پر دستک دیتا چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ وہ دروازہ کھلتا ہے یا پھر ٹوٹتا ہے‘ میں نے اس تکنیک کے ذریعے اپنی خامیوں تک کو شکست دی مثلاً شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو اللہ تعالیٰ نے مجھے عام انسانوں کے مقابلے میں زبان سیکھنے کی کم صلاحیت دے رکھی ہے۔
مجھ میں تحریری اور زبانی دونوں زبانیں سیکھنے کی اہلیت نہیں‘ میں اس وقت بھی اہلیت کے ہجے بھول گیا تھا‘ میں ایک زبان میں دوسری زبان کا لفظ بھی نہیں ملا سکتا‘ اردو بولتے وقت انگریزی کا لفظ آجائے تو میں پہلے اسے غلط بولتا ہوں اور پھر رک کر اسے ٹھیک کرتا ہوں‘ یہ صرف اور صرف اللہ کا کرم اور محنت جیسے استاد کی مہربانی ہے میں 27 سال سے لکھ رہا ہوں‘ 12 سال سے ٹیلی ویژن شو کر رہا ہوں اور میں اب سیلف ڈویلپمنٹ اور موٹی ویشن کے سیشن بھی لیتا ہوں۔
میں کیمرہ کانسیش بھی ہوں‘ میں کیمرے کی طرف دیکھ کر بول نہیں سکتا لیکن آپ محنت اور پاگل پن کی انتہا دیکھیے‘ میں اس کے باوجود ٹیلی ویژن شو کر رہا ہوں اور مسلسل کر رہا ہوں‘ میں ذاتی زندگی میں بھی اجڈ‘ لاپرواہ‘ غیر منظم اور غیر تہذیب یافتہ تھا مگر یہ ان تھک محنت اور اللہ کا کرم ہے میں چھوٹے چھوٹے کورسز کر کے ان خامیوں پر بھی قابو پاتا چلا جا رہا ہوں اور تبدیلی کا یہ سلسلہ بہاولپور سے سٹارٹ ہوا تھا ‘ یہ شہر میرا محسن‘ میرا استاد ہے۔
یہ نہ ہوتا تو شاید میں بھی نہ ہوتا اور اگر ہوتا تو شاید میں ویسا نہ ہوتا جیسا میں آج ہوں۔مجھے اگر زندگی میں کبھی موقع ملا تو میں پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں محنت کا ڈیپارٹمنٹ بناﺅں گا اور اس ڈیپارٹمنٹ میں صرف اور صرف ان لوگوں کو داخلہ دوں گا جنہیں لوگ نالائق اور ناکام سمجھتے ہیں‘ دنیا میں ذہین اور چالاک لوگ اپنا راستہ خود بنا لیتے ہیں‘ معاشروں اور ملکوں کو انہیں بنانے کے لیے محنت نہیں کرنی پڑتی‘ اصل کمال نالائقوں اور ادھورے لوگوں کو بنانا اور چلانا ہوتا ہے۔
آپ کتنے بڑے استاد‘ کتنے بڑے سائنس دان ہیں اس کا جواب یہ سوال دے گا آپ نے کتنے ناکام لوگوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا اور آپ نے کتنے نالائقوں کو میزائل کی طرح لانچ کیا‘ ہمارے استاد ہمیشہ ٹاپ کرنے والے طالب علموں پر ناز کرتے ہیں جب کہ اس میں ناز کرنے والی کوئی بات نہیں ہوتی‘ یہ ٹاپ کرنے والے لوگ ہوتے ہی لائق اور ذہین ہیں‘ آپ اگر ان کے استاد نہ بھی ہوں تو بھی یہ ٹاپ کرجاتے‘یہ پھر بھی زندگی میں کام یاب ہو جاتے‘ آپ صرف یہ بتائیں آپ نے زندگی میں کتنے نالائق‘ کند ذہن اور معذوروں کو کام یاب بنایا‘ آپ نے پتھروں میں کتنے پھول‘ بوٹے اور پودے لگائے۔
آپ کا اصل کمال تو یہ ہونا چاہیے لہٰذا میں چاہتا ہوں ہم یونیورسٹی میں محنت کا ڈیپارٹمنٹ بنائیں اور اس ڈیپارٹمنٹ میں صرف نالائق طالب علموں کو محنت کر نے اور کچھوﺅں کی طرح خرگوشوں کو شکست دینے کی ٹریننگ دیں‘ ہم انہیں بتائیں آپ کس طرح کیا کریں اور آپ اپنی زندگی کے تمام بقراطوں کو خاک چٹوا دیں گے‘ یہ خواب بظاہر دیوانے کی بڑ لگتی ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے ڈاکٹر اطہر محبوب میں اس اینی شیٹو کی جان ہے‘ یہ ایسا ڈیپارٹمنٹ ضرور بنا سکتے ہیں۔
یہ ڈیپارٹمنٹ بنائیں‘ دنیا کے ہزار کام یاب لوگوں کی کہانیاں لیں‘ ان کی تکنیکس کی سلائیڈز بنائیں‘ ان کے سٹائل‘ ان کے فارمولوں کو ڈیجیٹل فارم میں لے کر آئیں اور ہر وہ نوجوان جسے ہم نالائق سمجھ کر پیس کر رکھ دیتے ہیں‘ یہ اسے اس ڈیپارٹمنٹ میں لے آئیں‘ اسے ہزار کام یاب لوگوں میں سے اپنی مرضی کے لوگ منتخب کرنے کا موقع دیں اور پھر اس سے کہیں بیٹا جاﺅ اس شخص جیسے بن جاﺅ اور وہ نالائق کمال کر دے گا‘ ہم اگر یونیورسٹیوں میں آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ والٹیئر‘ ایڈیسن اور برنارڈشا پڑھا سکتے ہیں تو ہم بچوں کو کام یابی کا گُر کیوں نہیں سکھا سکتے۔
ہم کام یابی کو ڈیپارٹمنٹ‘ کام یابی کو شعبہ کیوں نہیں بناسکتے؟ ہم لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے آپ سبزیاں اگا اور جانور پال کر بھی پوری دنیا کو حیران کر سکتے ہیں‘ آخر اس میں کیا حرج ہے۔میں آخر میں ایک بار پھر پروفیسر اطہر محبوب کا مشکور ہوں‘ ان کا میری ذات پر احسان ہے‘ انہوں نے مجھے میرے بچھڑے ہوئے بہاولپور سے دوبارہ جوڑ دیا‘ میرے ٹوٹے ہوئے دھاگوں کو دوبارہ گرہ لگا دی‘یہ نہ ہوتے تو شاید میں اپنے ماضی کے ساتھ نہ جڑ پاتا‘ میں اسی طرح جڑوں کے بغیر رہ جاتا۔