جیمز وکس برطانیہ میں پیدا ہوا‘ بچپن سے مارشل آرٹس کا شوقین تھا‘ جوڈو کراٹے‘ باکسنگ اور باڈی بلڈنگ سیکھی اور ایوارڈز پر ایوارڈز حاصل کرتا چلا گیا‘ یہ مکس مارشل آرٹس کا ایکسپرٹ بن گیا‘ 2000ءمیں برطانیہ سے امریکا چلا گیا‘ اپنا جم بنایا اور امریکی نیوی اور فوج کو مارشل آرٹس کی ٹریننگ دینے لگا‘ زندگی شان دار گزر رہی تھی‘ بیوی بھی تھی‘گھربھی تھا‘ نام بھی تھا اور روزگار بھی لیکن پھر یہ 2012ءمیں انٹرنل انجریز کا شکار ہو گیااور چھ ماہ کے لیے دونوں گھٹنوں سے معذور ہو گیا۔
ڈاکٹروں نے اسے ایکسرسائز اور ٹریننگ سے روک دیا‘ یہ پابندی اور یہ حادثہ شروع میں اس کے لیے بیڈ لک تھا لیکن پھر یہ بیماری پوری دنیا کے لیے گڈ لک ثابت ہوگئی‘ جیمز وکس کا حادثہ ایک نئی ریسرچ‘ ایک نئے انکشاف کا ذریعہ بن گیا‘ آج جیمز وکس اپنے حادثے کو معجزہ اور اپنے ”بیڈریسٹ“ کو دنیا کے لیے عظیم تحفہ قرار دیتا ہے‘ یہ تحفہ کیا تھا؟ یہ تحفہ خوراک تھی‘ جیمزوکس نے گھر میں بیٹھ کر خوراک پر تحقیق شروع کر دی‘ تحقیق کے دوران پتا چلا انسان کے لیے پودوں سے حاصل ہونے والی خوراک بہترین ہوتی ہے‘ انسان اصل میں ویجی ٹیرین (سبزی خور) ہے‘ یہ جب تک سبزی اور پودوں تک محدود تھا تو یہ اس وقت تک صحت مند بھی رہتا تھا‘ خوش بھی اور ایکٹو بھی‘ اس کی عمر بھی اس وقت تک زیادہ ہوتی تھی اور صحت بھی‘ انسان نے جب گوشت کھانا شروع کیا تو اس کی عمر بھی کم ہو گئی اور یہ بیماریوں کا شکار بھی ہونے لگا‘ جیمزوکس کو پتا چلا انسان کو زیادہ تر بیماریاں گوشت اور انڈوں سے لگتی ہیں‘ یہ جتنی ریسرچ کرتا گیا اسے پتا چلتا گیا دنیا کے تمام بڑے جنگجو سبزی خور تھے‘روم کے گلیڈی ایٹرز پوری زندگی سبزیاں کھاتے تھے‘ ماہرین نے 68 گلیڈی ایٹرز کی ہڈیوں کا معائنہ کیا‘ یہ عام لوگوں سے کئی گنا طاقتور ہڈیوں کے مالک تھے اور یہ تمام سبزیاں کھاتے تھے‘جیمزوکس کو یہ بھی معلوم ہوا سپورٹس میں ورلڈ ریکارڈز قائم کرنے والے 95 فیصد کھلاڑی بھی ویجی ٹیرین تھے‘ اسے پتا چلا دنیا کے طاقتور ترین شخص پیٹرک بابو مین نے پوری زندگی انڈہ‘ دودھ اور گوشت نہیں کھایا‘ یہ صرف سبزیاں اور دالیں کھاتا ہے۔
امریکا کا سب سے بڑا ویٹ لفٹر اور اولمپک گولڈ میڈلسٹ کنڈرک جیمز فیرس بھی سبزی خور ہے‘ سائیکل میں ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے والی خاتون ڈوٹسی بوسچ ‘ چار سو میٹر کی ریس دو مرتبہ جیتنے والی آسٹریلین ایتھلیٹ مارن مچل‘ نو گولڈ میڈل حاصل کرنے والا ایتھلیٹ کارل لیوس‘ چار گولڈ میڈل لینے والا موری روز اور ڈیوی نورمی اور 100 میل کی میراتھن ریس کا ریکارڈ قائم کرنے والا سکاٹ جورک بھی سبزی خور ہیں‘ جورک24 گھنٹوں میں 266 کلو میٹر دوڑنے والا چوتھاامریکی ایتھلیٹ ہے‘ اس نے 135 کلو میٹر لمبی ڈیتھ ویلی بھی دوڑ کر عبور کی‘ یہ بھی گوشت اور انڈے نہیں کھاتا تھا۔
جیمز وکس تحقیق کرتا چلا گیا اور اس تحقیق کے دوران اسے پتا چلتا گیا سبزی خور لوگوں میں گوشت خوروں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ہوتی ہے‘ یہ ان سے زیادہ تیز اور صحت مند بھی ہوتے ہیں‘ اسے یہ بھی پتا چلا سبزیوں اور دالوں میں ریکوری اور صحت کی بحالی کے عناصر بھی زیادہ ہوتے ہیں‘ مریض اگر سبزیوں کا سوپ پئیں تو یہ جلدی صحت یاب ہو جاتے ہیں‘ جیمزوکس کی تحقیق نے دنیا کو حیران کر دیا‘ اس نے بعد ازاں دی گیم چینجر کے نام سے ڈاکو منٹری فلم بنائی اور پوری دنیا میں تہلکا مچا دیا۔
ڈاکومنٹری کا خلاصہ یہ تھا ہم جو کھاتے ہیں ہم ویسے بن جاتے ہیں‘ انسان صرف سبزی خور جانوروں کا گوشت کھا سکتا ہے‘ یہ گوشت خور جانوروں کا گوشت ہضم نہیں کر سکتا چناں چہ پھر ہم وہ چیزیں (سبزیاں اور پودے) کیوں نہ کھائیں جنہیں کھا کر بیل بیل‘ گائے گائے اور بکری بکری بنتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ہم کیا ہیں اور ہمارے رویے کیا ہیں؟ یہ فیصلہ ہماری چند عادتیں کرتی ہیںاور ان عادتوں میں پہلی عادت خوراک ہوتی ہے‘ گڈ فوڈ گڈ لائف ‘بیڈ فوڈ بیڈ لائف‘ ہم اگر اچھی اور صحت مند خوراک کھائیں گے تو ہماری جسمانی‘ ذہنی اور جذباتی صحت اچھی ہو گی۔
ہم کیا ہیں اس کا دوسرا فیصلہ پانی اور ہواکرتے ہیں‘ پانی میں اگر جراثیم‘ فضلا اور کیمیکل ہوں گے اور ہوا میں اگر آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ نائیٹروجن اور سیسہ زیادہ ہو گا تو ہمارا دماغ بے قابو ہو جائے گا‘ ہمارے اعصاب کم زور پڑ جائیں گے‘تیسرا فیصلہ ماحول اور میڈیا کرتا ہے‘چوتھا فیصلہ معاشی دباﺅ‘ روزگاراورضروریات زندگی کرتی ہیں‘پانچواں فیصلہ رشتے داروں کے رویے‘ توقعات‘ دوست اور لوگ کرتے ہیں اور آخری فیصلہ نیند ہماری زندگی میں بے انتہا اہم ہوتی ہے‘ ہم اگر آٹھ سے نو گھنٹے نہ سوئیں تو بھی ہم جذباتی عدم استحکام کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ وہ حقیقتیں ہیں جن پر ہم نے آج تک غور نہیں کیا۔
ہماری خوراک غیر متوازن اور جعلی ہے‘ ہمارا پانی گندا‘ فضا میں آلودگی‘ معاشرے میں شور اور افراتفری‘ میڈیا بری اور خوف ناک خبروں کا بازار‘ روزگار غیر مستحکم‘ بڑھتا ہوا معاشی دباﺅ‘ ضروریات زندگی میں مسلسل اضافہ‘ رشتے دار‘ دوست احباب اور دائیں بائیں موجود لوگ انتہائی ناشائستہ اور بے اعتبار اور ان کے ساتھ ساتھ ہم میں سے ہر شخص نیند کی کمی کا شکاربھی ہے‘ آپ کسی دن صرف اپنی زندگی دیکھ لیں آپ کو اس میں بھی کوئی چیز سیدھی نظر نہیں آئے گی۔
آپ کسی دن جیب میں ٹیپ ریکارڈر رکھیں‘ سارا دن اپنی گفتگو ریکارڈ کریں اور رات کو سنیں آپ کو اپنا آپ بھی برا لگے گا لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا ہم اوپر سے لے کر نیچے تک ایک بیمار قوم ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص کوئی نہ کوئی دوا کھا رہا ہے‘ آپ کو ہر گھر میں دوائی بھی ملے گی اور آپ لوگوں کو رات کے وقت ادویات کے لفافے لے کر گھر جاتے بھی دیکھیں گے‘ آپ کو ڈاکٹر بھی ادویات کھاتے نظر آئیں گے اور ان سب سے بڑھ کر آپ کسی دن اپنے ہیروز کے بارے میں بھی ریسرچ کر لیں‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جایں گے ہمارے سارے ہیروز لڑنے والے ہیں‘ یہ غازی ہیں یا پھر شہید ہیں۔
ہم نے آج تک کسی ادیب‘ شاعر‘ مفکر‘ سائنس دان‘ سوشل ورکر‘ استاد‘ موسیقار‘ فلم ساز اور بزنس مین کو ہیرو نہیں بننے دیا‘ یہ لوگ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے‘ اس حد سے آگے صرف اور صرف لڑنے‘ مرنے اور مارنے والے جاتے ہیں چناں چہ غلط عادتوں‘ رویوں اور خرابیوں کے ساتھ ساتھ ذوق لڑائی بھی ہماری سوچ‘ ہماری فکر کا حصہ بن چکا ہے لہٰذا ہم ذہنی‘ جسمانی اور روحانی تینوں سطحوں پر بیمار قوم بن چکے ہیں اور یہ بیماری ایوان صدر سے لے کر بشیرے کے کھوکھے تک کامن ہے‘ بشیرا بھی بیمار ہے اور ایوان صدر بھی۔
ہمارے ملک میں اگر کوئی پالیسی ساز‘ اگر کوئی منصوبہ ساز ہے تو پھر اسے ہسپتال پر وکلاءکے حملے کو نان سیریس نہیں لینا چاہیے‘ یہ واقعہ ہماری قومی سوچ‘ ہمارے مجموعی رویوں کا اظہار ہے‘ ہم من حیث القوم ایسے ہی ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ مسجدوں کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو نمازی وضو خانوں سے لے کر صفوں تک لڑتے نظر آئیں گے‘ ملک میں رمضان کے ہر دن لڑائی ہوتی ہے‘ حکومت چند سال پہلے تک محرم اور بارہ ربیع الاول کے جلوسوں کی نگرانی پولیس کے حوالے کرتی تھی لیکن ہم اب اپنے شہروں میں فوج تعینات کرتے ہیں۔
آپ کو سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی طالب علم ایک دوسرے سے لڑتے اور فائرنگ کرتے ملتے ہیں‘ بیٹے کے ہاتھوں باپ کی موت اور باپ کے ہاتھوں بچوں کا قتل بھی عام ہو چکا ہے‘ مائیں بھی اپنے سارے بچوں کے ساتھ خودکشی کر لیتی ہیں‘ وکیل مکوں‘ ٹھڈوں اور گالیوں کے ذریعے دلائل دیتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑ جائے یہ جج صاحب کو قائل کرنے کے لیے اسے پھینٹا بھی لگا دیتے ہیں‘ ہڑتالیں اور سڑکوں کی بندش بھی ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے ۔
ہمارے ڈاکٹر بھی معمولی معمولی باتوں پر ایمرجنسی‘ آپریشن تھیٹر اور مریض چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور لواحقین بھی ڈاکٹروں پر پستول تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘کیا یہ رویے نارمل ہیں؟ جی نہیں!‘ ہم لوگ واقعی ابنارمل ہو چکے ہیں اورپی آئی سی کا واقعہ اس ابنارمیلٹی‘ اس قومی بیماری کی علامت ہے ‘ انسان کی فطرت ہے یہ جب ڈپریشن اور غصے کی انتہاکو چھوتا ہے تو یہ اپنے آپ کو آگ لگا لیتا ہے‘ یہ اپنے گھر‘ اپنی دکان اور اپنی گاڑی کو بھی تباہ کر دیتا ہے اور ہمیں ماننا ہوگا ہم غصے اور ڈپریشن کی اس حد سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔
ہم مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور قبرستانوں پر حملے کرتے کرتے اب ہسپتالوں تک پہنچ گئے ہیں‘ اس سے اگلی سٹیج مسافروں سمیت ٹرینوں اور بسوں کو آگ لگانا اور بچوں کو کلاس رومز میں بند کر کے سکولوں کو نذر آتش کر دینا ہے چناں چہ ہمیں جاگنا ہوگا‘ حکومت کو اب کوئی نہ کوئی معاشرتی پالیسی بنانا ہو گی‘ ہمیں خوراک‘ پانی‘ ہوا‘ بجلی‘ گیس‘ روزگار‘ تعلیم‘ صحت‘ انصاف اور لوگوں کی عزت کے پیرا میٹرز طے کرنا ہوں گے‘ ہمیں قوم سازی کا کام شروع کرنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں اس ملک کے کتے بھی دوسرے کتوں سے کہتے نظر آئیں گے آﺅ بھاگ چلتے ہیں ورنہ ہم بھی انسانوں کی موت مارے جائیں گے۔
ہم اگر آج بھی نہیں جاگتے‘ ہم اگر آج بھی قوم کو قوم نہیں بناتے تو پھر لکھ لیجیے یہ ملک اگلی نسل نہیں دیکھ سکے گا‘ ہم میں سے آدھے آدھوں کو مار دیں گے اور جو باقی بچ جائیں گے وہ خودکشی کرلیں گے اور بات ختم چناں چہ ہمیں قدرت کی وِسل سننا ہو گی‘ ہمیں اب جاگنا ہو گا‘ اس سے پہلے کہ قدرت ہم سے مکمل مایوس ہو جائے ۔