دنیا میں کچھ لوگ ہوا میں رسہ باندھ کر اس کے اوپر چلتے ہیں‘ یہ لوگ انگریزی میں ’’ٹائیٹ روپ واکر‘‘ کہلاتے ہیں اور یہ پوری دنیا میں ہوتے ہیں‘ آپ نے بھی زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کا تماشا ضرور دیکھا ہوگا‘ یہ لوگ صدیوں سے ان ٹائیٹ روپس پر چلتے آ رہے ہیں‘روس میں سووکرا (Tsovkra)نام کا ایک گائوں ہے‘ اس گائوں کے تمام باشندے ٹائیٹ روپ پرچلنے کے ماہر ہیں۔
یہ لوگ پورے روس میں سرکسوں میں کام کر کے روزی کماتے ہیں‘امریکا میں بھی ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں‘ ان جنونیوں نے آج تک کیا کیا نہیں کیا؟ نیاگرا فال دنیا کی چند بڑی اور خوف ناک آب شاروں میں شمار ہوتی ہے‘ یہ جنونی لوگ اس آب شار پر بھی ٹائیٹ روپ باندھ کر چل لیتے ہیں‘ سینکڑوں فٹ کھائیوں پر چلنے کے بھی بے شمار واقعات ریکارڈ ہو چکے ہیں‘ یہ لوگ صدیوں سے یہ کام کر رہے ہیں لیکن جب موٹر سائیکل آیا تو ان جنونی واکرز نے ٹائیٹ روپ پر موٹر سائیکل چلانا شروع کر دیا‘ لاتعداد واکرز اس کوشش میں اپنی جان اور اعضاء دونوں سے محروم ہو گئے مگر بے شمار کام یاب بھی ہوئے‘ ان کام یاب لوگوں میں جان ٹرابر(Johann Traber) سب سے آگے ہے‘ یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو چکا ہے‘ جان ٹرابر جرمن ہے‘ اس نے ٹائیٹ روپ پر موٹرسائیکل چلانا شروع کی‘ یہ خود بھی موٹر سائیکل چلاتا رہا اور اس نے اپنی بیوی اور بچوں حتیٰ کہ شیرخوار بیٹے کو بھی موٹر سائیکل پر بٹھا کر ٹائیٹ روپ سے گزار دیا لیکن 2005ء میں اس نے کمال کر دیا‘ اس نے جرمنی کے شہر فرائی برگ میں 13 اگست 2005ء کو 40 میٹر اونچے ٹائیٹ روپ پر 53 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹر سائیکل چلا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا اور اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا لیا۔
یہ سٹوری کا ایک اینگل ہے‘ آپ اب دوسرا اینگل بھی ملاحظہ کیجیے‘ جان ٹرابر ریکارڈ قائم کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوا‘وہاں اس وقت سینکڑوں لوگ موجود تھے‘ اس نے لوگوں سے کہا ’’آپ جانتے ہیں میں کئی برسوں سے رسے پر موٹر سائیکل چلا رہا ہوں‘ میں نے اپنی بیوی اور بچوں کو بھی ساتھ بٹھا کر موٹر سائیکل چلایا‘ میری پروفیشنل لائف میں آج تک کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔
میں جب بھی رسے پر چڑھا‘ میں نے موٹر سائیکل کو دوسری سائیڈ تک پہنچایا‘ کیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے‘‘ لوگوں نے تالیاں بجا کر جواب دیا ’’نہیں‘ بے شک تم اپنے فن میں لازوال ہو‘‘ اس نے پھر پوچھا ’’کیا آپ مانتے ہیں میں نے آپ کے سامنے رسے پر 53 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹر سائیکل چلائی‘‘ لوگ بولے ’’یس‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا آپ مانتے ہیں‘ میں نے آپ کے سامنے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا‘‘
لوگوں نے چلا کر جواب دیا ’’یس‘ ہم سب مانتے ہیں‘‘ جان ٹرابر نے قہقہہ لگا کر کہا ’’پھر تم میں سے کون ہے جو موٹر سائیکل پر میرے پیچھے بیٹھے گا‘ میں اسے ساتھ لے کر 40 میٹر اونچے اس رسے پر دوبارہ ریکارڈ قائم کرنا چاہتا ہوں‘‘ مجمع کو سانپ سونگھ گیا‘ وہاں سینکڑوں لوگ موجود تھے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی جان ٹرابر کے پیچھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ وہ جان ٹرابر اور اس کے فن کو مانتے تھے لیکن کیا وہ انہیں موٹر سائیکل پر بٹھا کر دوسری سائیڈ تک پہنچا سکتا ہے انہیں یہ یقین نہیں تھا۔
جان ٹرابر کے اس واقعے میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے‘ اللہ تعالی کو دیکھنے کا سیدھا سادا راستہ چھپا ہے‘ ہم سب اللہ کو مانتے ہیں‘ ہم ہی کیا اس کائنات کی ہر چیز اللہ کو مانتی ہے‘ مکھی ہو‘ مچھر ہو‘ گائے ہو‘ بھینس ہو‘ ہاتھی‘ بندر یا چوہے ہوں‘ درخت‘ گھاس اور پھول ہوں یا پھر ریت‘ مٹی یا پہاڑ ہوں دنیا کی ہر چیز‘ ہر مخلوق اللہ کو مانتی ہے چناں چہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ یہ ہمارے ماننے سے ہرگز ہرگز متاثر نہیں ہوتا لیکن کیا ہمیں اللہ تعالیٰ پر یقین بھی ہے اور اگر ہے تو کتنا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس سے متاثر ہوتا ہے‘ میں اس پر جتنا یقین کرتا جاتا ہوں وہ اتنا ہی میری طرف متوجہ ہوتا جاتا ہے اور وہ جتنا میری طرف متوجہ ہوتا جاتا ہے‘ میں اتنا ہی اسے دیکھتا جاتا ہوں‘ میری اس سے اتنی ہی ملاقاتیں ہوتی جاتی ہیں‘ ہم سب اللہ کو مانتے ہیں لیکن یہ ماننا اسی طرح ہے جس طرح لوگوں نے جان ٹرابر کو ٹائیٹ روپ موٹر سائیکل ریکارڈ ہولڈر مان لیا تھا لیکن وہ ماننے کے باوجود یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ انہیں پیچھے بٹھا کر رسے کی دوسری طرف پہنچا بھی سکتا ہے‘۔
ہم بھی جان ٹرابر کے تماشائیوں کی طرح اللہ کو مانتے ہیں لیکن ہمیں اس پر یقین نہیں ہوتا‘بالکل گائوں کے اس مولوی صاحب کی طرح جو روز مسجد میں خطاب کرتے تھے‘ انہیں کسی نے بتایا ہمارے گائوں کا ایک لڑکا پانی پر چل لیتا ہے‘ مولوی صاحب کو تعجب ہوا اور وہ اگلے دن دریا پر پہنچ گئے‘ انہوں نے دیکھا ایک نوجوان آیا‘ دریا کے کنارے پہنچا‘ جوتے اتار کر ہاتھ میں پکڑے اور پانی پر چلتا ہوا دریا کے دوسرے کنارے پہنچ گیا‘ مولوی صاحب نے اسے آواز دی۔
وہ دوبارہ دریا پر چلتا ہوا واپس آ گیا‘ مولوی صاحب نے پوچھا ‘بیٹا تم نے یہ آرٹ کس سے سیکھا‘ نوجوان نے جواب دیا‘میں ایک بار مسجد کے قریب سے گزر رہا تھا‘ میں نے مولوی صاحب سے سنا جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ کر دریا میں پائوں ڈال دے وہ پانی پر چل سکتا ہے‘ میں دریا پر آیا‘ سورۃ فاتحہ پڑھی اور پانی پر چل کر دریا پار کر لیا‘ یہ سن کر مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ انہوں نے لڑکے کا ہاتھ چوما اور روتے روتے کہا۔
بیٹا سورۃ فاتحہ کا وہ نسخہ میں نے ہی لوگوں کو بتایا تھا‘ میں اس نسخے کو صرف مانتا تھا چناں چہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے باوجود آج تک پانی پر نہیں چل سکا‘ تمہیں یقین تھا لہٰذا تم روز دریا پارکرتے ہو۔ آپ ایک طالب علم کا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ کسی کلاس میں ٹیچر نے ایک طالب علم کو 14 کا ٹیبل سنانے کا حکم دیا‘ سٹوڈنٹ کھڑا ہوا اور 14 کا ٹیبل سنانا شروع کر دیا‘ استاد نے درمیان میں ٹوک کر کہا‘ بکواس بند کرو‘ تم غلط سنا رہے ہو۔
بیٹھ جائو‘ سٹوڈنٹ سہم کر بیٹھ گیا‘ استاد نے دوسرے سٹوڈنٹ کی طرف اشارہ کیا‘ وہ کھڑا ہوا اور سنانا شروع کر دیا‘ استاد نے اسے بھی ٹوک کر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ رکا‘ وہ سناتا چلا گیا‘ استاد اسے روکتا رہا لیکن سٹوڈنٹ نے پورا ٹیبل سنا کر دم لیا‘ استاد اس کے پاس گیا‘ اس کی کمر ٹھونکی اور اسے شاباش دی‘ پہلا سٹوڈنٹ کھڑا ہوا اور اس نے استاد سے کہا ’’جناب میں بھی تو یہی سنا رہا تھا‘ آپ نے مجھے ڈانٹ کر بٹھا دیا لیکن آپ اسے شاباش دے رہے ہیں‘ کیوں؟‘‘
استاد نے ہنس کر جواب دیا ’’ہاں تم بھی ٹھیک سنا رہے تھے لیکن تمہیں اپنے ٹھیک سنانے پر یقین نہیں تھا‘ میں نے تمہیں ڈانٹا اور تم بیٹھ گئے جب کہ اسے اپنے سنانے پر یقین تھا‘ میں اسے روکتا رہا مگر یہ نہیں رکا‘‘۔دنیا میں کوئی پراڈکٹ ٹھیک یا غلط ہونے سے نہیں چلتی ‘ یقین سے چلتی ہے‘ یقین ہے تو مٹی سونا بن جائے گی‘ یقین نہیں توسونا بھی مٹی کے بھائو بکے گا‘ یقین کیا چیز ہوتی ہے آپ ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے‘ ایک بندہ رات کو چلتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی سے لڑھک گیا۔
ہوا میں ہاتھ چلا یا تو کسی درخت کی شاخ ہاتھ میں آ گئی‘ رات اندھیری تھی‘ شدید سردی تھی‘ بندے نے گڑگڑا کر اللہ سے دعا کی یا باری تعالیٰ میری مدد کر‘ مجھے بچا لے‘ وہ دعا کرتا رہا‘ کرتا رہا‘ اچانک آواز آئی‘ درخت کی شاخ چھوڑ دو‘ تم بچ جائو گئے‘ بندے نے گڑگڑا کر پوچھا‘ آپ کون ہیں‘ آواز آئی میں تمہارا خدا ہوں‘ تم مجھے ہی پکار رہے تھے‘ میں تمہاری مدد کے لیے آ گیا ہوں‘ شاخ چھوڑ دے‘ بندے نے سوچا ‘یہ آواز اصلی نہیں‘ یہ میرا وہم ہے۔
آواز ساری رات مشورہ دیتی رہی مگر وہ اسے اگنور کر کے شاخ سے لٹکا رہا یہاں تک کہ سردی سے اس کی جان نکل گئی‘ اگلے دن لوگوں نے عجیب منظر دیکھا‘ درخت سے لاش لٹک رہی تھی اور اس لاش اور زمین کے درمیان صرف دو فٹ کا فاصلہ تھا‘ یہ شخص بھی اللہ کو صرف مانتا تھا‘ یہ اس پر یقین نہیں کرتا تھا چناں چہ یہ زمین سے دو فٹ کے فاصلے پر لٹکے لٹکے مر گیا‘ دنیا میں ہر چیز ماننے پر آپ کی ہو جاتی ہے‘ آپ عیسائیت کو مان لیں آپ عیسائی ہو جائیں گے۔
فزکس کو مان لیں فزکس آپ کی ہو جائے گی‘ پاکستان‘ انڈیا‘ افغانستان یا برطانیہ کو مان لیں آپ ان کے شہری ہو جائیں گے لیکن اللہ واحد ذات ہے آپ جب تک اس پر یقین نہیں کرتے یہ اس وقت تک آپ کا نہیں ہوتا‘ میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں تم اگر اللہ کو دیکھنا چاہتے ہو‘ تم اگراس سے ملنا چاہتے ہو تو تم اس پر یقین کر لو‘ یہ تمہیں روز ملے گا‘ تم روز اسے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھو گے لیکن افسوس لوگ جان ٹرابرکے تماشائیوں کی طرح اللہ کو مان تو لیتے ہیں لیکن یہ اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے چناں چہ یہ اللہ کے بندے ہونے باوجود
یہ اللہ کو ماننے کے باوجود پوری زندگی اللہ کی موجودگی‘ اللہ کے احساس سے محروم رہتے ہیں‘ آپ زندگی میںایک باراللہ پر یقین کر کے دیکھیں آپ حیران رہ جائیں گے‘ مجھے پچھلے دنوں کراچی میں ایک صاحب ملے‘ یہ ارب پتی ہیں‘ میں نے ان سے کام یابی کا گُرپوچھا‘ یہ بولے میں بینک میں کام کرتا تھا‘ میں نے آیت پڑھی‘ سود کا کام کرنے والے اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے تیار ہوجائیں‘ میں نے اسی وقت نوکری چھوڑ دی‘ کاروبار کیا اور اللہ نے مجھے نواز دیا‘ آپ ملاحظہ کیجیے‘ ایک شخص نے اللہ کے صرف ایک حکم پر یقین کر لیا ا ور اللہ نے اسے نہال کر دیا‘ یہ اگر باقی احکامات پر بھی یقین کر لیتا تو یہ کیا سے کیا ہو جاتا!۔
آپ اس تصور کی مزید وضاحت کے لیے یوٹیوب پر میری ویڈیو ’’اللہ سے ملنے کا طریقہ‘‘دیکھ سکتے ہیں‘ اس کا لنک یہ ہے۔https://www.youtube.com/watch?v=M6kIhmibw_0&t=154s