عدالت بھری تھی‘ لوگ آ رہے تھے‘ لوگ جا رہے تھے‘ وکیل فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت کی طرف لپک رہے تھے‘ ہرکارے‘ اہلمد‘ سنتری‘ ملزم‘ مجرم اور پولیس اہلکار بھی آ جا رہے تھے اور ٹاﺅٹ بھی آسامیاں سونگھتے پھر رہے تھے‘ وہ اس سارے ماحول سے لاتعلق چپ چاپ بیٹھا تھا‘ وہ صدیوں سے بے مراد‘ محروم اور غلام چلا آ رہا تھا‘ غلامی اس کی ہڈیوں میں بس چکی تھی لہٰذا ہر اہم‘ مقدس اور بااثر جگہ پہنچ کر اس کی ہڈیاں خود بخود سکڑ جاتی تھیں اور وہ بے اختیار ہو کر کسی کونے‘ کسی کھدرے‘ کسی سیڑھی اور کسی ٹوٹی ہوئی دیوار پر ٹک جاتا تھا۔
غلاموں کی طرح اس کی گردن اور کندھے بھی خود بخود جھک جاتے تھے اور وہ چاکروں کی طرح کن اکھیوں سے دائیں بائیں دیکھتا تھا‘ وہ چھ ستمبر کو بھی عدالت کے کونے میں بیٹھا تھا‘ اس کی فائل اس کی گود میں رکھی تھی‘ وکیل برآمدے میں ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر سگریٹ پی رہا تھا اور منشی کے ساتھ عمران خان کی تازہ ترین تقریر پر گفتگو کر رہا تھا‘ جمعہ‘ ہاں اس کا نام محمدجمعہ تھا‘ وہ کبھی وکیل صاحب کی گفتگو سننے کی کوشش کرتا تھا اور کبھی عدالت میں گونجتی آوازیں جمع کرنے میں جت جاتا تھا‘ وہ اس سارے ماحول میں ”مس فٹ“ تھا‘ وکیل‘ پولیس‘ ہتھکڑیوں میں جکڑے ملزم اور عدالتوں کے ہرکارے اسے عدالت کی ہر چیز‘ ہر کردار اینگزائٹی محسوس ہوتا تھا‘ وہ اینگزائٹی سے تنگ آ کر شہادت کی انگلی سے بینچ پر لکیریں کھینچنے لگا‘ اس کی ہر لکیر آخر تک پہنچ کر سانپ بن جاتی تھی‘ وہ لکیروں کے سانپ دیکھتا تھا اور پھر اپنے آپ سے پوچھتا تھا ”دنیا میں اتنے زیادہ سانپ کیوں ہیں“ اس کے پاس اپنے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا‘ وہ لکیروں کے سانپوں کو دیکھ رہا تھا‘ اچانک اسے غیر مانوس آوازوں میں ایک مانوس سی آواز سنائی دی‘ کوئی دور سے ابا ابا کہہ رہا تھا‘ اس نے چونک کر دائیں بائیں دیکھا اور پھر اس کے خون کی گردش تیز ہو گئی‘ اس کا دل پسلیوں سے نکل کر کانوں اور کنپٹی میں آ گیا‘ اسے گردن کے بالکل نیچے درد کی لہر سی محسوس ہوئی‘ وہ بے چین ہو کر اٹھا‘ اس کے منہ سے چیخ نکلی‘ سینے میں خوف ناک دھماکا ہوا‘ ٹانگیں لرزیں اور وہ دھڑام سے فرش پر گر گیا۔
دل نے ایک لمبی انگڑائی لی اور اس نے درد کی لہروں پر چپو کی طرح تین چار بار پاﺅں چلائے لیکن وہ زندگی کی سطح پر ابھر نہ سکا‘ اس کی بانچھوں سے رالیں ٹپکنے لگیں‘ ناک سے خون کی لکیر نکلی اور اس کی آنکھوں کی پتلیاں کھچ گئیں‘ وکیل اور منشی اس کی طرف دوڑے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی اس کی روح اس کے جسم کا مندر خالی کر گئی‘ وہ دنیا سے رخصت ہو گیا‘ اس کا وکیل سمجھ دار تھا‘ اس نے اس کی نبض ٹٹولی‘ سینے پر کان رکھ کر دھڑکنیں ٹٹولیں اور اس کی آنکھوں میں انگلی ڈالی لیکن اس کے بدن کے کسی کونے میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں تھی۔
وہ اپنے دکھوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو چکا تھا‘ لوگ بڑھتے چلے جا رہے تھے‘ ہجوم میں سے اچانک ایک لڑکی آگے بڑھی‘ ابا جی کی آواز لگائی لیکن پھر مرد آگے بڑھا‘ اس نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے ہجوم میں گم ہو گیا‘ پیچھے کمرے میں صرف محمد جمعہ کی لاش رہ گئی‘ اس کی ایک ٹانگ آ گے کی طرف پھیلی تھی‘ دوسری الٹی وی کی طرح دھری ہو کر ٹھنڈے جسم کے نیچے پھنسی ہوئی تھی‘ ہاتھ جسم کے دائیں بائیں فرش پر پھیلے ہوئے تھے‘ منہ کھلا اور آنکھوں کی بے حرکت پتلیوں میں کمرے کا عکس پھیل سکڑ رہا تھا۔
وکیل اور اس کا منشی بھی چپ چاپ نکل گیا‘ لاش اب لاوارث ہو چکی تھی‘ ہجوم کو دیکھ کر ٹریفک پولیس کی ایک لیڈی افسر آگے آئی‘ ایمبولینس کا پتا کیا‘ پتا چلا ہائی کورٹ کراچی میں ایمبولینس نہیں ‘ فائل اٹھا کر دیکھی‘ پتے کی جگہ سندھ کے ضلع سجاول کے کسی غیر معروف گاﺅں کا نام لکھا تھا‘ پولیس بلائی‘ آدھ گھنٹے میں تھانے کے دو لاغر سے اہلکار آ گئے‘ محمد جمعہ کو گزرے ہوئے دو گھنٹے ہو چکے تھے‘ پولیس کے پاس لاش سنبھالنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا‘ اہلکاروں نے ایک دوسرے سے کھسر پھسر کی اور وہ پھر ٹریفک لیڈی افسر کی طرف بڑھ گئے۔
وہ دونوں چند لمحوں تک کھسر پھسر کرتے رہے‘ فیصلہ ہوا چندہ جمع کر کے لاش سجاول بھجوا دی جائے‘ لیڈی پولیس افسر نے چندے کی اپیل کی‘ لوگوں نے نقدی جمع کی‘ پک اپ منگوائی‘ مقدمے کی فائل اور کرائے کی رقم ڈرائیور کے حوالے کی گئی اور ڈرائیور لاش لے کر سجاول روانہ ہو گیا لیکن کراچی ہائی کورٹ کے کمرہ انصاف میں محمد جمعہ کی آخری پھڑک‘ ٹپکی ہوئی رالوں اور انگلی سے بنائے سانپوں کے نشان رہ گئے‘ یہ نشان شاید اب کبھی نہ مٹ سکیں‘ کیوں؟ کیوں کہ عدالتوں کے کمروں میں مظلوموں کے نشان کبھی نہیں مٹا کرتے‘ یہ ہمیشہ سلامت رہتے ہیں۔
محمد جمعہ کون تھا؟ یہ سجاول کا رہنے والا تھا‘ سال پہلے گاﺅں کے کسی بااثر شخص نے اس کی جوان بیٹی اغواءکر لی‘ یہ بیٹی کی واپسی کے لیے تھانے تھانے اور محلے محلے ذلیل ہونے لگا لیکن کسی پراس کی آہ و زاری کا اثر نہ ہوا‘ یہ ذلیل وخوار ہوتا ہوا کراچی ہائی کورٹ پہنچ گیا‘ زندگی بھر کی جمع پونجی وکیلوں اور منشیوں کے حوالے کر دی‘ عدالت نے پولیس کو لڑکی پیش کرنے کا حکم دے دیا‘ لڑکی کا اغواءکار فاروق اس دوران مر گیا‘ لڑکی بے آسرا ہو گئی‘ اغواءکار خاندان نے لڑکی کو فاروق کے کزن کے ساتھ بیاہ دیا اور یوں وہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہو گئی۔
کیس اس دوران چلتا رہا یہاں تک کہ پولیس لڑکی کو عدالت لے آئی‘ باپ نے بیٹی کی آواز سنی‘ وہ بے تاب ہو کر اٹھا‘ ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ لڑکھڑا کر فوت ہو گیا‘ پولیس لڑکی کو واپس لے گئی اور لیڈی پولیس افسر نے چندہ جمع کر کے لاش پک اپ میں ڈالی اور سجاول پہنچا دی‘ جمعہ کو خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا گیا اور یوں وہ اور اس کی کہانی دونوں زمین کا رزق بن گئے‘ پانی کا قطرہ پانی اور مٹی کا ڈھیلا مٹی میں مل کر فنا ہو گیا اور دو دن بعد جی ہاں صرف دو دن بعد جمعہ جیسے تھا ہی نہیں‘ وہ وقت کی سلیٹ سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا‘ قصہ پاک ہو گیا۔
یہ ہے ارض پاک اور اس ارض پاک کے انصاف کا نظام‘ ملک کے کسی بھی حصے سے کسی بھی وقت کوئی بھی لڑکی اٹھا لی جائے‘ اس کا کسی سے بھی زبردستی نکاح کر دیا جائے‘ پھر اس سے رضا مندی کا بیان لے لیا جائے‘ پولیس کو چند ہزار روپے دے کر اپنے ساتھ ملا لیا جائے اور پھر والدین کو ظالم نظام کی کھردری سڑک پر ایڑیاں رگڑنے کے لیے چھوڑ دیا جائے اور والدین کرالنگ کر کے قیمہ بن جائیں اور بات ختم‘ یہ ہے ارض پاک اور اس کا مقدس نظام‘ آپ کسی دن کسی شہر سے دو تین کلومیٹر باہر نکل جائیں‘ آپ کو ہر دوسرے قدم بعد کوئی نہ کوئی محمد جمعہ مل جائے گا۔
آپ کو اس کی بغل میں کوئی نہ کوئی فائل بھی مل جائے گی‘ آپ فائل کھول کر دیکھ لیں آپ کو اس میں نسلوں کا دکھ رینگتا ہوا نظر آئے گا‘ کسی کی زمین پر قبضہ ہو گیا‘ کسی کا بیٹا قتل کر دیا گیا‘ کسی پر جعلی مقدمہ بنا دیا گیا‘ کسی کی بیٹی یا بہن اغواءکر لی گئی اور کسی کو کسی مقدمے میں شامل کر دیا گیا اور وہ اور اس کے لواحقین فائل اٹھا کر چل پڑے‘ آپ حوالات‘ جیلوں اور قبرستانوں پر تحقیق کر لیں‘ آپ کو ہر دوسری کہانی میں کوئی نہ کوئی محمد جمعہ ملے گا۔
وہ محمد جمعہ اگر مرنے سے بچ گیا تو وہ حوالات یا جیل ضرور پہنچ گیا اور باقی زندگی بے گناہی کی صلیب پر لٹک کر گزار دی‘یہ ملک انصاف کی ٹکٹکی ہے اور ہم سب محمد جمعہ کی شکل میں اس پر لٹک رہے ہیں‘ ہمیں روز کوڑے اور جوتے مارے جا رہے ہیں اور ہم یہ جوتے اور کوڑے اس وقت تک کھاتے رہتے ہیں جب تک ہماری جان میں جان رہتی ہے‘ ہم جب تک آخری سانس نہیں لے لیتے‘ ملک کا انصاف کا نظام کیا ہے آپ یہ افتخار محمد چودھری‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھ لیجیے۔
آپ جنرل پرویز مشرف‘ میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری ‘ شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناءاللہ سے بھی پوچھ لیجیے‘ ہم اس نظام انصاف کے سائے میں پل رہے ہیں جس سے انصاف لینے کے لیے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو سڑکوں پر ذلیل ہونا پڑا تھا‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی آج بھی اپنی اپیل کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی کرسی پر بیٹھ کر جوڈیشل کونسل کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف اس نظام عدل سے خوف زدہ ہو کر دوبئی میں بیٹھے ہیں۔
اس سے آصف علی زرداری صدر‘نواز شریف تین بار کے وزیراعظم اور شاہد خاقان عباسی سیاست میں ایمان داری کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد بھی مایوس ہیں اور ججوں کی ٹیپس جاری ہو رہی ہیں لیکن جج اس کے باوجود اپنی کرسی پر بیٹھے ہیں‘ یہ ہے ارض پاک کا مقدس نظام انصاف اور اس مقدس نظام میں سجاول کے محمد جمعہ کے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟ یہ اگر عدالت میں انگلی سے سانپ بناتا بناتا نہ مرتا تو یہ کیا کرتا چناں چہ یہ مر گیا۔ہم ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکے‘ کوئی بات نہیں‘ قوموں کو ٹھیک ہوتے ہوتے صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن کیا ہم انصاف کے نظام میں بھی کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لا سکتے؟ ۔
کیا ہم محمد جمعہ جیسے لوگوں اور ان کی بیٹیوں کو بھی انصاف نہیں دے سکتے اور کیا ہم کوئی ایسا نظام تشکیل نہیں دے سکتے جس میں محمد جمعہ جیسے لوگوں کو مرنے سے پہلے انصاف مل جائے؟ ہم اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر ہم پر اللہ کی لعنت ہے‘ ہم پھر کسی قابل نہیں ہیں اور ہمیں اب بس عذاب کا انتظار کرنا چاہیے‘ کوئی ایسا عذاب جس میں ہماری لاشیں عبرت کے لیے عجائب گھروں میں رکھ دی جائیں اور ان پر لکھ دیا جائے‘ ارض پاک کے مقدس بیل‘ جمعہ چلا گیا لیکن وہ جاتے جاتے ہمارے نظام عدل کو ننگا کر گیا‘ وہ ثابت کر گیا پاکستان میں انصاف لینے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے موت۔