فیصلے کی گھڑی آ پہنچی

22  اگست‬‮  2019

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سٹاف نے 15 اگست کو وزیراعظم عمران خان کے عملے سے رابطہ کیا‘ وزیراعظم نتھیا گلی میں تھے‘ صدر ٹرمپ عمران خان سے فوراً بات کرنا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر اسلام آباد پرواز کے لیے تیار تھا‘ عملے نے تھوڑا سا وقت مانگا‘ وائیٹ ہاﺅس سے دوبارہ رابطہ کیا گیا‘ پاکستانی سٹاف نے بتایا‘ وزیراعظم موسم کی خرابی کی وجہ سے نتھیا گلی سے واپس نہیں آ سکے‘ صدر ٹرمپ کے سٹاف کو وزیراعظم کا موبائل نمبر دے دیا گیا لیکن وائیٹ ہاﺅس کا کہنا تھا یہ کال سیکرٹ ہے‘ ہم کسی موبائل فون نمبر پر کال ٹرانسفر نہیں کر سکتے۔

وزیراعظم اور صدر دونوں لینڈ لائین نمبر پر ہی بات کریں گے‘ اس وقت تک شام ہو چکی تھی‘ وزیراعظم کو اسلام آباد پہنچانا مشکل تھا چناں چہ 16 اگست جمعہ کادن طے ہو گیا‘ وزیراعظم آفس پہنچ گئے اور یوں صدر ٹرمپ اور عمران خان کا براہ راست رابطہ ہوگیا‘ میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو ایک اور نقطہ بھی بتاتا چلوں‘ آپ کو یاد ہو گا صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 22 جولائی کو وائیٹ ہاﺅس میں عمران خان سے ملاقات کے دوران دو امریکی مغویوں کا ذکر کیا تھا اور وزیراعظم نے امریکی صدر سے وعدہ کیا تھا ہم ان کی رہائی کے لیے کوشش کریں گے‘ طالبان کی حراست میں موجود مغویوں میں پہلا شخص کیون کنگ ہے‘ یہ ساٹھ سال کا پروفیسر ہے‘ امریکن یونیورسٹی کابل میں پڑھاتا تھا‘ یہ 7 اگست 2016ءکو اپنے آسٹریلوی پروفیسر دوست ڈاکٹر ٹموتھی ویکس کے ساتھ یونیورسٹی سے گھر جا رہا تھا‘ طالبان نے دونوں کی گاڑی روکی‘ افغان سیکورٹی گارڈز اور ڈرائیور کو بھاگ جانے کا حکم دیا اور یہ دونوں کو اغواءکر کے کسی نامعلوم مقام پر لے گئے یوں اغواءہونے والوں میں ایک امریکی اور دوسرا آسٹریلین ہے‘ طالبان نے 11 جنوری 2017ءکو دونوں پروفیسرز کی ویڈیو جاری کر دی‘ پروفیسروں نے ویڈیو میں صدر ٹرمپ سے مدد کی درخواست کی‘ آسٹریلین پروفیسر ڈاکٹر ٹموتھی ویکس نے آسٹریلوی وزیراعظم سے بھی اپیل کی‘ اکتوبر 2017ءمیں پروفیسر کیون کنگ کی ایک اور ویڈیو ریلیز کی گئی۔

پروفیسر اس ویڈیو میں بیمار اور خستہ حال دکھائی دے رہا تھا‘امریکا اور آسٹریلیا یہ دونوں پروفیسرز رہا کرانا چاہتے ہیں لیکن طالبان ان لوگوں کے عوض اپنے سات لوگ مانگ رہے ہیں‘ طالبان کے مطلوب لوگوں میں ملا انس حقانی پہلے نمبر پر آتے ہیں‘ ملا انس” حقانی نیٹ ورک“ کے بانی مولوی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے اور امیر مولوی سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں‘ ملا انس کو اکتوبر 2014ءمیں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب یہ بحرین سے قطر جا رہے تھے۔

یہ گرفتاری کے بعد افغانستان کے حوالے کر دیے گئے تھے‘ طالبان کی فہرست میں باقی چھ لوگ کون ہیں؟ یہ نام تاحال خفیہ ہیں‘ ہم یہاں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں امریکا سات طالبان دے کر اپنے دو یا تین مغوی واپس کیوں نہیں لے لیتا؟ امریکا نے یہ سات مغوی طالبان اہم اور فیصلہ کن مذاکرات کے لیے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں‘ میں یہ نقطہ سمجھانے کے لیے آپ کو ایک بار پھر ماضی میں لے جاﺅں گا‘ طالبان نے 2009ءمیں ایک امریکی سارجنٹ بو بر گ ڈاہل کو اغواءکر لیا تھا۔

یہ اپنے بیس سے باہر نکلا‘ بھٹک گیا‘ اغواءہوا اور مختلف لوگوں سے ہوتا ہوا طالبان تک پہنچ گیا‘ طالبان نے اس کے بدلے امریکا سے اپنے دس لیڈرز مانگے‘پانچ سال مذاکرات ہوتے رہے یہاں تک کہ یکم جون 2014ءکو امریکابر گ ڈاہل کے بدلے پانچ طالبان لیڈرزرہا کرنے پر تیار ہو گیا‘ یہ پانچ لیڈرز طالبان کے ڈپٹی انٹیلی جینس چیف عبدالحق واسق‘ بلخ اور لغمان کے گورنر نور اللہ نوری‘ طالبان آرمی کے چیف آف سٹاف محمد فضل‘ طالبان کے وزیر داخلہ خیر اللہ خیر خواہ اور طالبان کے کمیونی کیشن چیف محمد نبی عمری شامل تھے۔

یہ لیڈرز گوانتانا موبے میں بند تھے اور یہ کتنے اہم ہیں آپ اس کا اندازہ مارچ 2019ءمیں دوحہ میں افغان‘ طالبان اور امریکا مذاکرات سے لگا لیجیے‘ یہ پانچوں لیڈرز ان مذاکرات میں شامل ہوئے‘ امریکا نے یہ پانچ لیڈرز رہا کرنے کے بعد ”بیلنس“ قائم رکھنے کے لیے اکتوبر 2014ءمیں ملا انس حقانی کو گرفتار کر لیا اور طالبان نے امریکا کو بلیک میل کرنے کے لیے اگست 2016ءمیں پروفیسر کیون کنگ اور پروفیسر ٹموتھی کو اٹھا لیا اور یوں سودے بازی کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ہم اب 16 اگست 2019ءکی طرف واپس آتے ہیں‘ صدر ٹرمپ نے ٹیلی فون پر عمران خان سے پوچھا ‘آپ نے ہمارے دو مغوی رہا کرانے تھے‘ وزیراعظم نے جواب دیا‘ طالبان ہماری بات نہیں مان رہے‘ یہ اپنے سات لوگ چھڑوائے بغیر آپ کے لوگ واپس کرنے کے لیے تیار نہیں‘ ٹرمپ نے اس پر کہا‘ وزیراعظم تین کے بدلے سات کا سودا ٹھیک نہیں‘ آپ ان سے کہیں یہ ریزن ایبل بات کریں‘ عمران خان نے اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی بات چھیڑ دی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا ہم افغانستان میں آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کے دوست مودی نے مشرقی سرحد گرم کر دی‘ ہمارے پاس اب افغان بارڈر سے اپنی فوجیں واپس بلا کر انڈین بارڈر پر تعینات کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ‘ ہم زیادہ انتظار نہیں کر سکتے‘ ٹرمپ نے کہا‘ آپ مودی سے بات کیوں نہیں کرتے‘ عمران خان کا کہنا تھا‘ ہم ٹرائی کر چکے ہیں لیکن وہ بات نہیں کرنا چاہتا‘ صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا آپ مجھے تھوڑا سا وقت دیں‘ میں اس سے بات کرتا ہوں اور وہ اس کے بعد آپ کو فون کرے گا۔

ہم آپ کو یہاں ایک اور نقطہ بھی بتاتے چلیں‘ نریندر مودی تین سال سے اپنے اتحادیوں کو یہ تاثر دے رہا ہے افغانستان میں امن کے بعد تمام مجاہدین مقبوضہ کشمیر اور بھارت کا رخ کر لیں گے اور یہ انڈیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘وہ یہ بات بار بار صدر ٹرمپ کے کانوں میں ڈال رہا ہے‘ مودی نے عمران خان کے 20 جولائی کے امریکا کے وزٹ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا اور آرٹیکل 370 ختم کر دیا‘ امریکا کی طرف سے جب اعتراض اٹھایا گیا توحکومت نے دہلی میں موجود امریکی سفیرکینتھ جسٹر کو یہ بتایا ”آپ لوگ افغانستان سے نکل رہے ہیں‘ آپ کے جانے کے بعد وہ لوگ جنہوں نے آپ کی ناک میں دم کر دیا تھا وہ ہماری طرف آ جائیں گے‘ ہم آپ کے جانے سے پہلے اپنی سرحدیں محفوظ بنانا چاہتے ہیں“۔

میرا ذاتی خیال ہے نریندر مودی صرف یہاں تک محدود نہیں رہنا چاہتا‘ یہ موقع کا فائدہ اٹھا کر لائین آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد بھی بنوانا چاہتا ہے اور اس پر لوہے کے تار بھی لگوانا چاہتا ہے اور یہ وہ ثالثی ہے جس کا عندیہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 22 جولائی کو عمران خان کے ساتھ میٹنگ میں دیا تھا یعنی آزاد کشمیر پاکستان کا اور مقبوضہ کشمیر انڈیا کا۔ ہم ایک بار پھر ٹیلی فون کال کی طرف آتے ہیں‘ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان 20 منٹ بات ہوئی‘ ٹرمپ نے اس کے بعد سوموار 19اگست کو نریندر مودی سے 30 منٹ بات کی اور پھر عمران خان کو دوسری کال کی‘ مودی نے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے ذریعے صورت حال کو 5 اگست کی پوزیشن پرواپس لانے کا وعدہ کر لیا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے درمیان ہفتہ 24 اگست کو ملاقات ہو گی‘ بھارت اس ملاقات کے بعد سفارتی تعلقات اور پاکستان سے تجارت بھی بحال کر دے گا اور مذاکرات بھی شروع ہو جائیں گے لیکن پاکستان کو مذاکرات سے پہلے ایف اے ٹی ایف کی ساری شرائط پوری کرنا ہوں گی اور شرائط میں شامل کسی ایک نقطے کی خلاف ورزی سے یہ سارا عمل ضائع ہو جائے گا‘ یہ مذاکرات اب ڈونلڈ ٹرمپ کرائیں گے اور یہ گارنٹر بھی بنیں گے۔ہم اب یہ سوال کر سکتے ہیں کیا یہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔

میرا خیال ہے ہاں‘ مسئلہ کشمیر کے حل کا وقت آ چکا ہے‘ پاکستان میں کشمیر کے پانچ سٹیک ہولڈر ہیں‘ پاک آرمی‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسے چھوٹے سیاسی گروپس‘ جنرل پرویز مشرف 2007ءمیں بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے حل تک پہنچ گئے تھے‘ صدر کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز اور بھارت کے پاکستان میں ہائی کمشنر شیوشنکرمینن نے ڈرافٹ بھی تیار کر لیا تھا بس اعلان باقی تھا لیکن عدلیہ بحالی کی تحریک چلی اور یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ ”کشمیر اکارڈ“ کو بھی بہا لے گئی۔

جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی‘ یہ بھی اس معاملے میں جنرل مشرف کی حامی تھی‘ صدر آصف علی زرداری اور من موہن سنگھ کے درمیان بھی معاملات بہت آگے بڑھ گئے تھے‘ میاں نواز شریف بھی 1999ءمیں واجپائی اور 2017ءمیں مودی کو اس فارمولے تک لے آئے تھے‘ عمران خان بھی تیزی سے اس حل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جنرل باجوہ بھی افغانستان اور کشمیر کا مسئلہ حل کر کے معیشت پر توجہ کے حامی ہیں بس جماعت اسلامی اور چھوٹے گروپس بچے ہیں۔

یہ بھی بہت جلد صورت حال کو سمجھ جائیں گے چناں چہ مسئلہ کشمیر بڑی تیزی سے ”سیٹل منٹ“ کی طرف بڑھ رہا ہے بس ایک رکاوٹ ہے اور وہ رکاوٹ ہے مقبوضہ کشمیر کے نوجوان‘ یہ کرفیو کے بعد کیا کرتے ہیں‘ یہ فیصلہ آنے والے تمام فیصلوں کا مقدر طے کرے گا‘ بہرحال آج نہیں تو کل سہی فیصلہ یہی ہو گا‘ آزاد کشمیر پاکستان کا‘ مقبوضہ کشمیر ہندوستان کااور یہ فیصلہ اگر نہ ہو سکا تو پھر ایٹمی جنگ فیصلہ کرے گی اور وہ فیصلہ کتنا خوف ناک ہو گا ہم اور آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ ہماری حماقت حشر کو زمین پر لے آئے گی‘ زمین کے اندر سوراخ ہو جائے گا اور آدھی دنیا بخارات بن کر فضا میں تحلیل ہو جائے گی۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…