”یہ مارشل لاءکے لیے آئیڈیل صورت حال ہے“ صاحب نے سگار سلگایا‘ کافی کا کپ ناک کے قریب لا کر لمبی سانس لی اور میز پر پڑی ریت گھڑی کو الٹا دیا‘ ریت اوپری خانے سے نیچے سرکنے لگی‘ وہ مسکرائے اور پھر آہستہ سے بولے ”آپ حالات دیکھ لیں‘ پورا ملک بند ہو چکا ہے‘ فیکٹریاں رک گئی ہیں‘ پیداوار سلو ہو گئی ہے‘ درآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں اور برآمدات منجمد ہیں‘ آپ کسی دکان دار سے پوچھ لیں‘ آپ صنعت کاروں‘ تاجروں اور ڈسٹری بیوٹرز سے ان کے حالات پوچھ لیں‘ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر دہائی دیں گے۔
ملک میں معیشت کے تین پہیے تھے‘ یہ تین پہیے پورے ملک کو چلا رہے تھے‘ رئیل سٹیٹ‘ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز اور موبائل فون کمپنیاں‘ یہ تینوں شعبے ملک کی جڑوں تک پہنچ چکے تھے‘ آپ کو 2017-18ءمیں ہر تیسرا خوش حال شخص پراپرٹی ڈیلر ملتا تھا‘ ملک کے بڑے بڑے گروپوں نے باپ دادا کا کام چھوڑ کر ہاﺅسنگ سوسائٹیاں‘ ہاﺅسنگ کمپلیکس اور بلڈنگز بنانا شروع کر دی تھیں‘ رئیل سٹیٹ دنیا میں مدر انڈسٹری کہلاتی ہے‘ یہ اکیلی انڈسٹری ساٹھ انڈسٹریز کو چلاتی ہے‘ یہ دنیا میں جابز کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے‘ آپ دو مرلے کا گھر بنائیں‘ آپ 260 لوگوں کا چولہا جلائیں گے چناں چہ ملک میں رئیل سٹیٹ بوم آیا اور اس بوم کی وجہ سے ملک میں چار ماہ اینٹ نہیں ملتی تھی‘ آپ کو ٹائلیں لگانے والے اور پلمبر تک دستیاب نہیں ہوتے تھے‘ تعمیراتی مٹیریلز میں بھی نئی نئی اختراعات آ رہی تھیں‘ آپ نے ملک میں جتنی قسم کا کنسٹرکشن مٹیریل پچھلے پانچ سالوں میں دیکھا ہو گا آپ کو یہ پوری زندگی نہیں ملا ہوگا لیکن پھر یہ حکومت آئی اور رئیل سٹیٹ کی پوری انڈسٹری بیٹھ گئی‘ کنسٹرکشن‘ ڈویلپمنٹ اور سیل پرچیز تینوں بند ہو گئیں‘ کیوں ہوئیں؟ تین وجوہات تھیں‘ حکومت نے رئیل سٹیٹ ٹائی کونز کے کیس کھول دیے اور یہ لوگ ڈویلپمنٹ کا کام چھوڑ کر عدالتوں اور ایف بی آر میں دھکے کھانے لگے‘ لوگوں کی پرچیزنگ پاور کم ہو گئی‘ لوگ اب بل دیں‘ بچوں کو تعلیم دلائیں‘ گھر کا راشن پورا کریں یا پھر مکان یا دکان بنائیں چناں چہ لوگ اپنے خوابوں کے پاﺅں سمیٹ کر بیٹھ گئے۔
اور تیسری وجہ لوگوں نے ملک کے غیر یقینی معاشی حالات کی وجہ سے اپنا سرمایہ بینکوں سے نکال کر ڈالرز اور پاﺅنڈز میں تبدیل کیا اور گھروں میں چھپا دیا چناں چہ بیڑہ غرق ہو گیا‘ صرف رئیل سٹیٹ کے انجماد کی وجہ سے پچاس لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں‘ آپ کو جن دفتروں میں روزانہ لوگوں کی قطاریں ملتی تھیں وہ اب سنسان اور بیابان دکھائی دیتے ہیں‘ آپ جن کاریگروں سے کام کرانے کے لیے راتوں کے وقت ان کے گھروں کے چکر لگاتے تھے وہ اب دن کے وقت بھی اپنی دہلیز پر بیٹھے ہوتے ہیں۔
دوسرا پہیا موبائل فون کمپنیاں تھیں‘ یہ کمپنیاں بھی زوال کا شکار ہو گئیں‘ ان کا ریونیو 40 فیصد کم ہو گیا ‘ لوگ اب صرف ضرورت کے تحت کال کرتے ہیں‘ یہ اب واٹس ایپ بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ انٹرنیٹ کی راشنگ بھی کرتے ہیں اور پیچھے رہ گئے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز ‘یہ بھی ڈاﺅن سائزنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں‘ تنخواہیں کم ہو چکی ہیں‘ ریونیو ڈاﺅن سے ڈاﺅن ہو رہا ہے اور ورکرز کو تین تین ماہ معاوضہ نہیں ملتا‘ ملک کے دس نیوز چینلز بندش کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یہ سارے حالات مارشل لاءکے لیے آئیڈیل ہیں“ ۔
وہ خاموش ہو گئے‘ کمرے میں کافی اور سگار کی ملی جلی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور میں خوف کے عالم میں انہیں دیکھ رہا تھا‘ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خوف پھیلانے کی بے تحاشا صلاحیت دے رکھی تھی‘ یہ کسی بھی وقت کسی بھی اچھے بھلے شخص کا پیشاب خشک کر سکتے ہیں‘ آپ بس ان کے ساتھ گفتگو شروع کریں اور پھر تماشا دیکھیں‘ میں بھی اس وقت اسی عمل سے گزر رہا تھا۔وہ رکے اور بولے ”ملک کا سرکاری نظام بھی پوری طرح بیٹھ چکا ہے‘ حکومت کو سرکاری اداروں کے ڈی جی‘ چیئرمین اور سیکرٹری نہیں مل رہے۔
وزراءفائل سیکرٹریوں کو بھجواتے ہیں اور یہ ان پر سائن کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ نیچے سے آنے والی فائلیں بھی مختلف دفتروں‘ مختلف محکموں میں دھکے کھاتی رہتی ہیں اور کوئی ان پر آرڈر لکھنے کے لیے راضی نہیں ہوتا‘ عدلیہ کے حالات بھی ایسے ہیں‘ ججوں کی ٹیپس نکل رہی ہیں‘ عدالتوں میں مقدمے جاتے ہیں اور دس دس سال فیصلے نہیں ہوتے‘ نیب ریفرنس تیار کرتی ہے‘ مجرموں کو پکڑتی ہے اور پھر نیب کے وکلاءمجرم کو عدالت میں مجرم ثابت نہیں کر پاتے۔
مجرم آسانی سے نکل جاتے ہیں‘ عوامی بہبود کے ادارے بھی بدترین دور سے گزر رہے ہیں‘ کراچی کی سڑکیں کچرہ کنڈی بن چکی ہیں‘ آپ روشنیوں کے شہر میں سانس نہیں لے سکتے‘ پانی‘ صحت اور بجلی کی حالت بھی پتلی ہے‘ ڈی ایچ اے کے رہائشی بھی پانی کے ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں‘ سرکاری دفتروںمیں بھی پانی نہیں ہوتا‘ آپ بلدیہ کی عمارت میں جا کر دیکھ لیں آپ کو اس کے گٹڑ بھی ابلتے ملیں گے‘ پنجاب کے حالات بھی خراب ہیں‘ لاہور میں بارش ہوئی اور پورا شہر ڈوب گیا۔
آپ کسی شہر میں نکل جائیں آپ کو گلیوں‘ سڑکوں اور چوکوں میں گندگی کے ڈھیر ملیں گے‘ سینٹری ورکرز پورے پنجاب سے غائب ہو چکے ہیں‘ پشاور میں حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا‘ 57 ارب روپے اضافی بھی خرچ کردیے لیکن اس کے باوجود میٹرو مکمل نہیں ہو سکی‘ آرمی کے بغیر اب فاٹا اور بلوچستان میں امن ممکن نہیں رہا‘ آپ جس دن فوج کی چوکیاں ختم کرتے ہیں صوبے میں اس دن قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے اور آپ کو فاٹا کے الیکشن بھی فوج کے پہروں میں کرانا پڑے اور یہ حالات بھی مارشل لاءکے لیے آئیڈیل ہیں“۔
وہ رکے‘ سگار کا لمبا کش لیا اور بولے ”اور آپ انٹرنیشنل ریلیشنز بھی دیکھ لیجیے‘ چین اور روس دونوں پاکستان کو بے یقینی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں‘ ہمارے وزیراعظم بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو فون کرتے ہیں اور وہ کال ریسیو نہیں کرتا‘ وزیراعظم امریکا میں جا کر دھرنے کی تقریر کر کے واپس آ جاتے ہیں‘ امریکی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کو بس پر بٹھا کر طیارے سے لاﺅنج تک پہنچایا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فل پروٹوکول دیا‘ پینٹا گان میں انہیں گارڈ آف آنر بھی دیا گیا اور 21 توپوں کی سلامی بھی۔
امریکا میں 21 توپوں کی سلامی پروٹوکول کا سب سے بڑا اعزاز ہوتی ہے‘ یہ سلامی جنرل باجوہ سے پہلے آخری بار بے نظیر بھٹو کو دی گئی تھی‘ یہ سلامی ثابت کرتی ہے امریکا وزیراعظم کی بجائے ہمارے آرمی چیف کو زیادہ اہمیت دیتا ہے‘ یہ حالات بھی مارشل لاءکے لیے آئیڈیل ہیں“ صاحب رکے‘ کافی کا سپ لیا اور پھر سگار کے لمبے لمبے کش لینے لگے‘ میں نے کرسی پر پہلو بدلا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا ”کیا یہ حالات مارشل لاءکے لیے کافی ہیں“ ۔
وہ ہنس کر بولے ”آپ اگر ان میں پارلیمنٹ کو بھی شامل کر لیں تو تصویر مزید واضح ہو جائے گی‘ پارلیمنٹ نہیں چل پا رہی‘ سال ہو چکا ہے لیکن ابھی تک پارلیمانی کمیٹیاں مکمل نہیں ہوئیں‘ پارلیمنٹ کا ہر سیشن ہلڑ بازی کی نذر ہو جاتا ہے‘ وزیراعظم اپوزیشن اور اپوزیشن وزیراعظم سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں‘ سلیکٹڈ کا لفظ باقاعدہ گالی بن چکا ہے اور پارلیمنٹ نے ایک سال میں کوئی قانون سازی‘ کوئی تعمیری کام نہیں کیا‘ رہی سہی کسر چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کے دوران پوری ہو گی۔
سیاست مزید ننگی ہو کر قوم کے سامنے آ گئی اور یہ بھی مارشل لاءکے لیے آئیڈیل حالات ہیں“ وہ رک گئے‘ میں نے عرض کیا ”کیا یہ کافی ہے“ وہ بولے نہیں ”بس عوام باقی ہیں‘ حکومتی پالیسیوں کے بدترین اثرات نومبر دسمبر میں کھل کر سامنے آ جائیں گے جس کے بعد لوگ باہر آنا شروع کر دیں گے‘ یہ منتخب نمائندوں اور وزراءکا گھیراﺅ کریں گے‘ حکومت دفتروں اور گھروں تک محدود ہو کر رہ جائے گی‘ وزراءعوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔
یہ جہازوں کے اندر بھی عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننے لگیں گے اور لوگ انہیں سڑکوں اور پارکوں میں بھی روک کر کھڑے ہو جائیں گے اور یہ وہ ٹائم ہو گا جب فوج آگے بڑھنے پر مجبور ہو جائے گی‘ عوام کے پاس بھی اس وقت انہیں ویل کم کہنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا‘ وہ وقت نازک ترین ہو گا“ وہ رک گئے۔
میں نے پوچھا ”کیا فوج معاملات کو درست کر لے گی“ وہ قہقہہ لگا کر بولے ”سو فیصد‘ فوج چند ماہ میں ملک کو ٹریک پر لے آئے گی“ میں نے پوچھا ”کیسے؟“ ۔
وہ بولے ” یہ شرح سود کو ساڑھے تیرہ سے ساڑھے سات فیصد پر لے آئے گی‘ رئیل سٹیٹ‘ موبائل فون اور میڈیا انڈسٹری کو دس سال کے لیے ٹیکس ایمنسٹی دے دے گی‘حکومت ایکسپورٹس پر ٹیکس کی چھوٹ بڑھا دے گی‘ یہ سٹاک ایکسچینج کو شوکت عزیز ماڈل پر لے جائے گی‘ یہ پشاور میٹرو سمیت تمام ترقیاتی منصوبے دو تین ماہ میں مکمل کر دے گی‘ یہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کر دے گی‘یہ ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن بنا کر جیلوں میں قید تمام سیاست دانوں کو رہا کردے گی۔
یہ لوگ پوری دنیا میں جہاں جانا چاہیں یہ چلے جائیں بس یہ سیاست نہیں کر سکیں گے‘ یہ ایف بی آر اور نیب دونوں کا سسٹم سادہ اور شفاف کر دے گی‘ یہ ادارے ناقابل تردید ثبوتوں کے بغیر کسی شخص کو گرفتار نہیں کر سکیں گے‘یہ بلوچستان اور فاٹا کے ناراض لوگوں کو قومی دھارے میں لے آئے گی اور یہ انڈیا کے ساتھ مذاکرات شروع کر دے گی اور یوں ملک چند ماہ میں ٹریک پر آ جائے گا‘ وہ رکے‘ سگار منہ سے لگایا اور شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے۔
میں نے عرض کیا ”یہ چیزیں اگر اتنی ہی سادہ ہیں تو یہ پھر یہ حکومت کیوں نہیں کر لیتی‘ ملک بچ جائے گا“ وہ ہنسے اور دیر تک ہنستے چلے گئے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا چلا گیا‘ وہ شاید جواب نہیں دینا چاہتے تھے‘ میں نے آخری سوال پوچھا”آپ کس کو اس صورت حال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں“ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ”عمران خان معصوم ہیں‘ یہ ٹریپ ہو گئے ہیں‘ ان کے دوست صورت حال کو وہاں لے آئے ہیں جہاں اب مکمل ٹیک اوور کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا‘ ملک کو اب نیشنل گورنمنٹ اور شاہ محمود قریشی بھی نہیں چلا سکیں گے“۔ کمرے میں خاموشی ہو گئی‘ گہری خاموشی۔