یہ ولیم کی زندگی کے برے دن تھے‘ وہ شمالی کیرولینا میں شاندار زندگی گزار رہاتھا‘ وہ ہفتے میں ساڑھے چار دن کام کرتا تھا اور اڑھائی دن موج مستی۔ اسے شکار کا بھی شوق تھا‘ کتابیں پڑھنے کا بھی‘ ڈسکو میں ڈانس کرنے کا بھی اور جھیل کے کنارے بیٹھ کر کافی کے بڑے بڑے گھونٹ بھرنے کا بھی اور وہ اپنی اس زندگی سے مطمئن تھا لیکن پھر اس کے برے دن شروع ہو گئے۔ یہ 1921ء کی جولائی تھی‘ وہ رائفل لے کر شمالی کیرولینا کے مضافات میں گھوم رہا تھا‘ فضا میں اچانک فائر کی آوازگونجی اور وہ فائر کے مقام کی طرف چل پڑا۔
راستے میں اسے ایک شخص کی تازہ لاش ملی‘ لاش میں زندگی کے آثار تلاش کرنے کیلئے وہ اس پر جھکا‘ اس دوران وہاں پولیس آ گئی اور اس نے ولیم کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا‘ ولیم کے خلاف مقدمہ چلا اور عدالت نے اسے تیس سال قید با مشقت کی سزا دے دی‘ ولیم جیل میں پہنچ گیا۔ولیم کے پاس اب تین آپشن تھے۔ وہ امریکا کے پولیس اور جسٹس سسٹم کو کوستا رہتا اور جیل میں تیس سال نفسیاتی مریض بن کر گزار دیتا‘ ساٹھ سال کی عمر میں جیل سے رہا ہوتا اور باقی زندگی دنیا کو اپنی بے گناہی کا یقین دلاتے ہوئے گزار دیتا۔ دو‘ یہ اپیلوں اور درخواستوں کے چکر میں پڑ جاتا‘ یہ دنیا بھر کے قیدیوں کی طرح عدالتوں‘ گورنرز‘ وزراء اور صدر کو رحم کی اپیلیں بھجواتا رہتا‘ جیل میں اپنا رویہ اچھا رکھتا اور قید میں رعایت لے کر تیس سال کو پچیس سال میں بدل لیتا یا پھر امریکن صدر یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو اس پرترس آ جاتا‘ اس کا کیس دوبارہ کھلتا‘ یہ بے گناہ ثابت ہو جاتا اور عدالت اسے رہا کر دیتی اور تیسرا اور آخری آپشن‘ ولیم جیل کے ان برے دنوں کو فرصت کے لمحات سمجھ لیتا‘ یہ اپنے آپ کو کسی تخلیقی سرگرمی میں مصروف کر لیتا اور یہ دن اسے دنیا میں دائمی شہرت دے جاتے۔ ولیم نے تیسرے آپشن کا انتخاب کیا‘ اس نے ان برے دنوں کو نعمت بنانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے سوچا وہ ان دنوں کو کسی تخلیقی کام میں صرف کرے گا اور دنیا میں کوئی ایسا کام کر جائے گا جس سے اس کی شہرت اور نیک نامی آفاقی شکل اختیار کر جائے۔
ولیم کو اسلحے میں خصوصی دلچسپی تھی‘ اس نے دس سال کی عمر میں لکڑی کی رائفل بنائی تھی اور وہ اس رائفل سے چڑیوں اورطوطوں کا شکار کیا کرتا تھا‘ وہ ہمیشہ یہ رائفل لے کر گھر سے باہر نکلتا تھا‘ اس وقت رائفلوں میں بے شمار خامیاں تھیں‘ ولیم نے سوچا وہ جیل میں رہ کر دنیا کی جدید اور بہترین رائفل ایجاد کرے گا‘ ولیم نے جیل حکام سے کاغذ‘ مختلف قسم کی پنسلیں اور ربڑ لئے اور کاغذ پر جدید ترین رائفل کے خاکے بنانا شروع کر دئیے۔ وہ دو سال تک مسلسل کام کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے جدید رائفل کا ڈیزائن تیار کر لیا۔
وہ یہ ڈیزائن لے کر جیل وارڈن ایچ ٹی پیپلز کے پاس گیا‘ جیل میں اسلحہ بنانے پر پابندی تھی لیکن وارڈن اس کا ڈیزائن دیکھ کر حیران رہ گیا‘ اسے محسوس ہوا ولیم مکینیکل جینئس ہے اور اسے سپورٹ دینی چاہئے چنانچہ اس نے ولیم کو رائفل بنانے کی اجازت دے دی۔ ولیم نے جیل میں چھ رائفلوں کے ڈیزائن بنائے‘ یہ حیران کن رائفلیں تھیں‘ ولیم نے ”شارٹ سڑوک پسٹن“ بھی ایجاد کیا‘ یہ پسٹن آج ریوالورز سے لے کر بڑی بڑی توپوں تک میں استعمال ہوتا ہے‘ یہ پسٹن فائر کے بعد گولی کی طاقت سے قوت لیتا ہے اور اس قوت سے اگلی گولی کو چیمبر میں چڑھا دیتا ہے اور یوں فائرنگ کرنے والا ٹرائیگر دباتا چلا جاتا ہے اور گولیاں بارش کی طرح برستی چلی جاتی ہیں۔ یہ شارٹ سڑوک پسٹن اسلحہ کی دنیا میں انقلاب تھا۔
یہ ایجاد جب جیل سے باہر پہنچی تو شمالی کیرولینا کے گورنر نے ولیم کی سزا معاف کر دی‘ وہ آٹھ سال بعد رائفلوں کے چھ نئے ڈیزائن اور شارٹ سڑوک پسٹن کے ساتھ جیل سے باہر نکلا تو امریکا کی بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے نمائندے ہارلے کرگیٹ پر کھڑے تھے۔ ولیم باہر نکلا‘ اس نے چھوٹی سی ورک شاپ بنائی اور رائفلیں اور مشین گنیں ڈیزائن کرنا شروع کر دیں۔ وہ نیا اسلحہ بنا کر امریکن فوج کو بیچتا تھا۔ 1941ء میں امریکی فوج نے ہلکی پھلکی سیمی آٹو میٹک رائفل کا مقابلہ کروایا۔
فوج نے پورے امریکا کے ماہرین کو دعوت دی کہ وہ اپنے اپنے ڈیزائن مقابلے میں بھجوائیں اور جس شخص کا ڈیزائن منظور ہو گا اسے صدارتی اعزاز دیا جائے گا۔ ولیم نے بھی شارٹ سٹروک پسٹن لگا کر اپنا ایک ڈیزائن مقابلے میں بھجوا دیا۔ آپ قسمت کا کمال دیکھئے ولیم کا ڈیزائن پہلے نمبر پر آ گیا‘ اس ڈیزائن کا نام ایم ون کاربین تھا‘ اسلحہ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ کاربین سے واقف ہیں‘ یہ ایک ہلکی پھلکی مشین گن ہوتی ہے جو بارش کی طرح گولیاں برساتی ہے اور اپنے ہدف کو دائیں بائیں ہونے کا موقع نہیں دیتی۔
یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا‘ امریکی فوج جنگ میں کود چکی تھی چنانچہ فوج نے ولیم کو کاربین بنانے کا سودا دے دیا‘ ولیم نے مختلف کمپنیوں سے چار سال میں 6کروڑ کاربین بنوائیں‘ آپ اگر دوسری جنگ عظیم کی فلمیں اور تصویریں دیکھیں تو آپ کو تمام امریکی فوجیوں کے کندھوں پر کاربین لٹکتی دکھائی دے گی اور یہ کاربین ولیم کے ٹیلنٹ کا اعزازتھی۔ ولیم بڑھاپے تک رائفلیں بناتا رہا‘ اس نے ساٹھ کے قریب رائفلیں بنائیں اور یہ رائفلیں آج تک دنیا میں بک رہی ہیں۔
آپ اگر ولیم کی زندگی کا تجزیہ کریں تو چند چیزیں آپ کے سامنے آئیں گی‘ ایک ولیم کم پڑھا لکھا انسان تھا‘ وہ اگر مصیبت میں نہ پھنستا تو وہ گمنام زندگی گزار کر مر جاتا اور لوگ اس کا نام‘ اس کی شکل تک بھول جاتے۔ دو‘ یہ مصیبت اس میں چھپا ہوا ٹیلنٹ باہر لے آئی‘ ولیم کو معلوم ہوا قدرت نے اسے مکینیکل جینئس بنایا ہے‘ وہ قدرتی طور پر رائفلوں کے سسٹم کو سمجھتا ہے اور وہ چند ماہ کی کوشش سے اسلحہ کی دنیا میں انقلاب لا سکتا ہے۔ تین‘ اس نے جیل میں اپنا وقت ضائع کرنے‘ خود کو اور ملک کے انصاف کے نظام کو کوسنے کی بجائے اپنا وقت تعمیری سرگرمی میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے برے دنوں کو نعمت سمجھا اور اپنی یکسوئی اپنے ٹیلنٹ پر لگا دی اور یوں یہ رہتی دنیا تک مشہور ہو گیا۔ چار‘ یہ اگر گورنر یا چیف جسٹس سے اپیلیں کرتا رہتا تو چیف جسٹس یا گورنر نے کبھی اس کی اپیل پر غور نہیں کرنا تھا کیونکہ انہیں اس قسم کی سینکڑوں درخواستیں روزانہ ملتی ہیں اور یہ لوگ جیل میں محبوس لوگوں پر کبھی رحم نہیں کرتے لیکن ولیم اپنے ٹیلنٹ کے ذریعے گورنر تک پہنچا اور گورنر ولیم کی اپیل کے بغیر اس کی سزا معاف کرنے پر مجبور ہو گیا۔
چار‘ اس کہانی میں جیل کے وارڈن ایچ ٹی پیپلز کا کردار بڑا شاندار ہے‘ دنیا بھر کی جیلوں میں کسی قیدی کو اسلحہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن وارڈن نے ولیم کے ٹیلنٹ کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اسے خصوصی رعایت بھی دی اور یوں ایک جینئس دنیا کے سامنے آ گیا اور پانچ‘ ولیم نے دنیا کو برے دنوں سے نبٹنے کا ایک نیا فارمولا دے دیا‘ اس نے رائفلیں بنا کر ثابت کردیا برے دن دراصل برے نہیں ہوتے‘ یہ قدرت کی طرف سے فرصت کے دن ہوتے ہیں اور کوئی بھی انسان اس فرصت کو استعمال کر کے اپنے آنے والے کل کو روشن کر سکتا ہے۔
ولیم کی زندگی میں آٹھ برے سال تھے‘ اس نے یہ آٹھ سال ہر صورت جیل میں گزارنے تھے‘ وہ سارا دن روتا رہتا‘ دیواروں کے ساتھ ٹکریں مارتا رہتا‘ جیل کے عملے کی منتیں کرتا رہتا یا پھر کورٹ میں روزانہ ایک اپیل دائر کرتا رہتا‘ یہ آٹھ سال آٹھ سال ہی رہتے چنانچہ اس نے یہ آٹھ سال تعمیری کام پر لگا دئیے اور جب اس کے برے دن ختم ہوئے تو وہ ”مین آف امریکا“ بن کر جیل سے نکلا۔ پاکستان کی جیلوں میں اس وقت لاکھوں لوگ بند ہیں‘ ان میں نصف سے زائد ولیم کی طرح بے گناہ ہیں۔
یہ لوگ صرف جسٹس سسٹم کی خامیوں کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے بند نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے برے وقت کی وجہ سے قید میں ہیں۔ یہ لوگ بھی اگر ولیم کی تقلید کریں‘ یہ اپنے اپنے ٹیلنٹ کو پہچانیں‘ اس کے مثبت استعمال کا فیصلہ کریں‘ جیلوں کو لیبارٹری‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی سمجھ لیں اور اس فرصت کو ولیم کی طرح یکسوئی میں بدل دیں تو یہ لوگ بھی کمال کر سکتے ہیں‘ اپنے برے وقت کو بہلا بھی سکتے ہیں اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے دلوں میں اپنے لئے رحم بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ لوگ اگر کچھ بھی نہ کریں تو بھی یہ جیل میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کر سکتے ہیں۔ یہ اپنی انگریزی ”امپرو“ کر سکتے ہیں‘ یہ ٹیبل ٹینس اور بیڈ منٹن کے چیمپئن بن سکتے ہیں اور یہ جیل میں ایل ایل بی کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ ہزاروں کام کر سکتے ہیں بس انہوں نے ولیم کی طرح خود کو یہ سمجھانا ہے انسان کیلئے قید بھی نعمت ہو سکتی ہے۔