ٹونی روبنز دنیا کے دس بڑے موٹی ویشنل سپیکرز میں تیسرے نمبر پر آتے ہیں‘ قد چھ فٹ اور سات انچ ہے‘ آواز بھاری ہے‘ زندگی کو ہر زاویئے‘ ہر اینگل سے دیکھ چکے ہیں‘ مہم جو ہیں‘ نارتھ اور ساﺅتھ پول پر اکیلے سفر کر چکے ہیں‘ دو کتابیں پوری دنیا میں تہلکہ مچا چکی ہیں‘ پرسنل کوچنگ کےلئے 15 ہزار ڈالر فی کس وصول کرتے ہیں‘ دنیا کے سو طاقتور ترین لوگوں کی فہرست میں شامل رہے ہیں اور 480 ملین ڈالر کے مالک ہیں ‘ آج سے پانچ سات سال پہلے تک یہ تصور کیا جاتا تھا آپ کسی بھی مسئلے کا شکار ہوں‘ آپ بس ٹونی روبنز کے پاس چلے جائیں‘ یہ آپ کو دیکھیں گے اور آپ کو آپ کے مسئلے کا حل بتا دیں گے۔
مجھے ایک بار ان کا سیشن اٹینڈ کرنے کا موقع ملا‘ یہ واقعی کمال کر دیتے ہیں‘ سیشن کے آخر میں سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو کسی نے ان سے پوچھا‘ آپ کو کون سا مسئلہ ناقابل حل محسوس ہوتا ہے‘ ٹونی روبنز نے چند لمحے سوچا اور پھر اداس لہجے میں بولے‘ میرے پاس ہر قسم کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا ہے‘ میں نے ہمت کی انتہائی پست سطح پر گرے لوگوں کو بھی قدموں پر کھڑا کر دیا اور میں نے کوڑی کوڑی کے محتاج انسانوں کو ارب پتی بھی بنا دیا لیکن زندگی کا صرف ایک ایسا ایشو ہے میں جس میں ہمیشہ ناکام ہو جاتا ہوں اور وہ ایشو اولاد کے انتقال کا دکھ ہے‘ میرے پاس جب بھی کوئی ایسا شخص آتا ہے جس نے تازہ تازہ اپنا بچہ کھویا ہو تو میں بے بس ہو جاتا ہوں چنانچہ میں اپنی 32 سال کی پریکٹس میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں جوان اولاد کے انتقال کا دکھ دنیا کا سب سے گہرا دکھ ہوتا ہے اور دنیا کا کوئی موٹی ویشنل سپیکر انسان کو اس غم‘ اس دکھ سے باہر نہیں لا پاتا۔میں ہفتہ 18مئی کی دو پہر قمر زمان کائرہ کے صاحبزادے اسامہ قمر کے جنازے میں شریک ہوا‘ میں بڑی ہمت کر کے قمر زمان کے سامنے پہنچا‘ یہ میرے گلے لگا اور میری گردن اس کے آنسوﺅں سے گیلی ہو گئی‘ میں شاید پوری زندگی اس کے چہرے کے تاثرات‘ اس کی سسکیوں اور اس کے وجود سے نکلی دکھ کی لہروں کو بھلا نہیں سکوں گا‘ وہ سر سے پاﺅں تک جوان اولاد کے جانے کے دکھ میں مبتلا شخص تھا اورمیں اس کے سامنے پہنچ کر تسلی کے لفظ‘ ہمت بڑھانے کے حرف تک بھول گیا تھا۔
میں واپسی پر سارا راستہ ٹونی روبنز کے الفاظ یاد کرتا رہا اور یہ سوچتا رہا اولاد کا غم واقعی ناقابل تلافی غم ہوتا ہے‘اللہ تعالیٰ کسی دشمن کو بھی اس امتحان میں نہ ڈالے۔قمر زمان کائرہ کا بیٹا اسامہ قمر گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ائیرکلاس کا طالب علم تھا‘ عمر18سال تھی‘ یہ 17مئی کو گھر سے نکلا‘ گاڑی میں اس کا دوست حمزہ بٹ اورایک اور دوست بھی سوار تھا‘ یہ کھاریاں سے لالہ موسیٰ آ رہے تھے‘ گاڑی کی سپیڈ زیادہ تھی‘ گاڑی کے سامنے اچانک موٹر سائیکل آ گیا۔
یہ موٹر سائیکل سوار کو بچاتا بچاتا درخت سے ٹکرا گیا‘ گاڑی قلابازی کھاتی ہوئی درخت سے ٹکرائی اور مکمل تباہ ہو گئی‘ اسامہ قمر اور حمزہ بٹ دونوں موقع پر اللہ تعالیٰ سے جا ملے ‘ دوسرا دوست شدیدزخمی ہو گیا‘ قمر زمان کائرہ اس وقت اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈروں کے ساتھ میڈیا ٹاک کررہے تھے‘ کسی سنگ دل اور احمق رپورٹر نے نہایت بدتمیزی کے ساتھ اونچی آواز میں بیٹے کے انتقال کی خبر دی‘ میں اس وقت ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا۔
رپورٹر نے بآواز بلند کہا ”کائرہ صاحب آپ کےلئے بھی ایک خبر ہے‘ آپ کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے“ قمر زمان کائرہ کے تاثرات دیکھ کر میرا کلیجہ منہ میں آ گیا‘ ان تاثرات کا اندازہ کوئی صاحب اولاد ہی کر سکتا ہے‘ صحافت میرا پہلا اور آخری پروفیشن ہے‘ میں نے پوری زندگی صحافی ہونے پر فخر کیا لیکن میں نے جب ایک صحافی کو اونچی آواز میں یہ کہتے سنا تو یقین کیجئے مجھے زندگی میں پہلی بار صحافی ہونے پر شرمندگی ہوئی‘ میں نہیں جانتا وہ رپورٹر کون تھا۔
وہ جو بھی تھا وہ انتہائی سنگ دل‘ بے رحم اور بدتمیز انسان تھا۔پوری دنیا میں کسی شخص کو اس کے عزیز کے انتقال کی خبر اس طرح نہیں دی جاتی ہے‘ کاش یہ رپورٹر خاموش رہتا یا پھر زیادہ سے زیادہ کائرہ صاحب کے دائیں بائیں موجود کسی لیڈر کے کان میں سرگوشی کر دیتا اور وہ لیڈر پریس کانفرنس ختم کر کے کائرہ صاحب کو سائیڈ پر لے جاتا‘ انہیں لالہ موسیٰ جانے کا مشورہ دے دیتا لیکن ہمارے رپورٹر بھائی نے سرعام اعلان کر کے ایک والد کو جس طرح اذیت دی‘ یہ ناقابل برداشت تھی۔
آپ مزید ظلم ملاحظہ کیجئے اسامہ قمر کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر آئی تو لوگوں نے اس کے نیچے انتہائی واہیات کمنٹس کرنا شروع کر دیئے‘ میں نے چند کمنٹس پڑھے اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ یہ کون لوگ ہیں اور کیا ان کے والدین‘ بہن بھائی اور بچے نہیں ہیں‘ کیا یہ زندگی اور موت کے عمل سے واقف نہیں ہیں‘ کیا یہ کبھی کسی قبرستان میں نہیں گئے‘ کیا انہوں نے کبھی کوئی جنازہ نہیں پڑھا‘ کیا یہ انسان نہیں ہیں اور کیا ان کا کوئی مذہب‘ کوئی خدا نہیں؟
آپ یقین کیجئے جانور بھی اس سطح تک نہیں گرتے جتنے ہم لوگ گر چکے ہیں‘ کسی شخص کے جوان بیٹے کی موت بھی ان کے دل نرم نہیں کر پاتی‘ یہ حادثوں کوبھی اپنی نفرت کے اظہار کا ذریعہ بنا دیتے ہیں‘ یہ ان کا بھی مذاق اڑاتے ہیں‘ یہ اگر انقلاب ہے‘ یہ اگر نئی نسل ہے اور یہ اگر پڑھے لکھے لوگ ہیں توپھرمیں تعلیم‘ نئی نسل اور انقلاب تینوں پر لعنت بھیجتا ہوں‘ ہم پھر انقلاب اور تعلیم کے بغیر ہی اچھے تھے ‘ ہمیں پھر پرانی نسل ہی سوٹ کرتی تھی‘ میں جنازے میںموجود لوگوں کو دیکھ کر بھی حیران رہ گیا۔
جنازے میں ہرجماعت اور ہر طبقہ فکر کے لوگ آئے‘اگر نہیں تھے تو پاکستان تحریک انصاف کے جینوئن کارکن اور لیڈر نہیں تھے‘ حکومت میں شامل شخصیات مثلاً گورنر پنجاب چودھری سرور‘ ندیم افضل چن‘ فواد چودھری اور صمصام بخاری جنازے میں شریک ہوئے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کی سیاسی پرورش پرانے پاکستان کی ان پرانی جماعتوں میں ہوئی تھی جنہیں عمران خان اور ان کے حواری چور کہتے ہیں‘ یہ ”چور“ اس قدر وضع دار اور وسیع القلب لوگ ہیں کہ یہ اپنے سیاسی مخالفین کے جنازوں میں بھی شریک ہوتے ہیں اور ان کے مشکل اوقات میں بھی جبکہ نئے پاکستان کی عظیم‘ صاف ستھری اور ایماندار قیات کے منہ سے تعزیت کےلئے ایک لفظ بھی نہیں نکلتا۔
یہ لوگ تو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے والد کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوتے‘آپ کمال دیکھئے وزیراعظم عمران خان میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے سلام سے بچنے کےلئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں جاتے اور اگر جانا پڑ جائے تو یہ کرسیوں سے ٹھڈے کھاتے ہوئے دوسری سمت سے آتے ہیں‘یہ کیا لوگ ہیں‘ یہ سلام کرنا‘ ہاتھ ملانا‘ تعزیت کرنا اور جنازہ پڑھنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں‘ مجھے ان میں‘ اپنے رپورٹر بھائی میں اور سوشل میڈیا میں اذیت ناک کمنٹس دینے والوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا‘ یہ تمام لوگ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
قمر زمان کائرہ نہ ختم ہونے والے دکھ سے گزر رہے ہیں‘ یہ دکھ کوئی شخص ختم نہیں کر سکتا لیکن یہ ایک طریقے سے اپنا دکھ کم ضرور کر سکتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانی دکھ کم کرنے کا ایک شاندار طریقہ وضع کر رکھا ہے‘ ہم انسان اگر اپنی تکلیف کو ویلفیئر کے کسی منصوبے میں لگا دیں تو ہمارا غم بھی کم ہو جاتا ہے اور مرحوم کی ذات کو بھی بعد از مرگ فائدہ پہنچتا رہتا ہے‘ میری قمر زمان کائرہ سے درخواست ہے یہ اپنے بیٹے اسامہ قمر کے نام سے ایک ایمرجنسی چیریٹی ہسپتال بھی بنا دیں اور یہ اپنی باقی زندگی ٹریفک رولز کی آگاہی اور گاڑیوں کے سیفٹی فیچرز کی امپروومنٹ کےلئے وقف کر دیں۔
پاکستانی گاڑیاں سیفٹی فیچرز میں دنیا کی پست ترین گاڑیاں ہیں‘ ملک میں11لاکھ سوزوکی مہران اور آلٹو گاڑیاں ہیں‘ ان گاڑیوں میں ائیربیگز نہیں ہیں‘ ہونڈا سٹی کے 15سو سی سی اور ٹویوٹا کے تیرہ سو سی سی سے ائیر بیگز شروع ہوتے ہیں لیکن حادثوں کے وقت یہ بیگز نہیں کھلتے‘ اسامہ قمرکی گاڑی کے بیگز بھی نہیں کھلے تھے‘ بیگز کھل جاتے تو شاید اس کی جان بچ جاتی‘ پاکستانی گاڑیوں کی باڈی بھی انتہائی ناقص ہوتی ہے‘ ہم گتے اور ٹین کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں چنانچہ معمولی حادثے میں پورا پورا خاندان اجڑ جاتا ہے۔
قمر زمان کائرہ بااثر سیاستدان ہیں‘ یہ اگر اپنی زندگی کو پاکستان میں گاڑیوں کے سیفٹی فیچرز کی امپروومنٹ اور ٹریفک رولز کی سختی سے پابندی کیلئے وقف کر دیں گے تو سینکڑوں ہزاروں اساموں کی جان بچ جائے گی‘ یہ فیصلہ کر لیں یہ پاکستان کی قیادت کومجبور کر دیں گے پاکستان کی کسی سڑک پر ائیر بیگز کے بغیر کوئی گاڑی نہیں چلے گی اور حادثے کے دوران اگرکسی گاڑی کے ائیر بیگز نہ کھلے تو کمپنی کو کم سے کم پچاس کروڑ روپے جرمانہ ہو گا۔
پاکستان میں گاڑیوں کی باڈیز کا معیار بھی عالمی ہو گا اور اس پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا جائے گا‘ کائرہ صاحب کا یہ فیصلہ پاکستان میں صدقہ جاریہ بن جائے گا‘دنیا میں آج تک جتنے بھی سیفٹی فیچرز بنے ہیں‘ یہ اسامہ قمر جیسے نوجوانوں اور حادثوں کی پیداوار ہیں مثلاً آپ سیمیول مورس کی مثال لے لیجئے‘یہ دنیا کا نامور مصور تھا‘ یہ 1825ءمیں واشنگٹن میں کسی رئیس تاجر کی پینٹنگ بنا رہا تھا‘ بیوی کا انتقال ہو گیا لیکن سیمیول مورس کو وقت پر اطلاع نہ ہو سکی۔
سیمیول مورس کو پتہ چلا تو اس نے باقی زندگی کسی ایسے سسٹم کی ایجاد کےلئے وقف کر دی جس کے ذریعے بیماریوں اور انتقال کی خبریں بروقت پہنچائی جا سکیں‘ سیمیول مورس نے بعد ازاں 19 سال لگا کر ٹیلی گراف ایجاد کیا‘ یہ ایجاد ڈیڑھ سو سال تک پوری دنیا میں بیماریوں اور انتقال کی بروقت خبریں پہنچاتی رہی‘ قمر زمان کائرہ بھی اپنی زندگی گاڑیوں کے سیفٹی فیچرز کےلئے وقف کر کے پاکستان کے سمیویل مورس ثابت ہو سکتے ہیں‘ یہ ہزاروں لوگوں کی جان بچا سکتے ہیں‘ یہ بس بسم اللہ کریں‘ ہزاروں لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔