روس کے دو شہر اہم ہیں‘ ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ‘ میں نے دو دن ماسکو اور دو سینٹ پیٹرز برگ میں گزارے‘ پیٹرز برگ فن لینڈ کے بارڈر پر ہے اور مکمل یورپی شہر ہے‘ یہ ماسکو سے پہلے روس کا دارالحکومت ہوتا تھا‘ زار اس شہر سے پورے روس پر حکومت کرتے تھے‘ دونوں شہروں کے درمیان بلٹ ٹرین چلتی ہے‘ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے‘ میں نے دن ڈیڑھ بجے ٹرین لی اور ساڑھے پانچ بجے سینٹ پیٹرز برگ میں تھا۔
یہ ساحلی شہرہے‘ روس کو” بالٹک سی“ سے جوڑتا ہے‘ فن لینڈ کا دارالحکومت ہیلسنکی ٹرین کے ذریعے صرف ساڑھے تین گھنٹے دور ہے‘ دونوں کے درمیان فیری سروس بھی ہے‘ یورپ کے زیادہ تر سیاح فن لینڈ سے پیٹرز برگ آتے ہیں‘ یہ علاقہ کبھی سویڈن کی ملکیت تھا لیکن پھر پیٹر دی گریٹ نے یہاں قبضہ کیا اور 1703ءمیں یورپ کا شاندار ترین شہر تعمیر کرنا شروع کر دیا‘ زار نے قانون بنایا پورے ملک سے ہر سال چالیس ہزار غلام یہاں بھجوائے جائیں گے‘ یہ غلام شہر کی تعمیرکرتے تھے۔
یہ سال کے اندر بھوک‘ پیاس اور سردی کی وجہ سے مر جاتے تھے‘ اگلے سال نئے آ جاتے تھے‘ یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جو پہلے کاغذ پر بنا‘ بادشاہ نے اس کی ایک ایک گلی‘ کوچے اور عمارت کی منظوری دی اور پھر یہ زمین پر بنایا گیا‘ یہ تین سو سال بعد بھی جوں کا توں ہے‘ اس کی کوئی گلی‘ کوئی عمارت تبدیل نہیں ہوئی‘ عمارت اگر کسی آفت کی وجہ سے زمین بوس ہو گئی تو حکومت نے اس جگہ عین ویسی عمارت دوبارہ کھڑی کی لہٰذا اگر ماضی کا کوئی کردار اپنی قبر سے اٹھ کر سینٹ پیٹرز برگ آ جائے تو وہ آنکھیں بند کر کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ جائے گا۔
یہ سارا شہر عجائب ہے لیکن زاروں کے دو محلات کمال ہیں‘ پیٹر دی گریٹ نے شہر کے مضافات میں اپنا گرمائی محل بنوایا تھا‘ یہ گارڈن پیلس تھا‘ وسیع باغ میں جھیلوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے محلات‘ حرم‘ کچنز‘ ڈائننگ رومز اور باتھ رومز تھے‘ عمارتیں ایک دوسرے سے الگ تھیں اور شاہی خاندان بگھی پر ایک عمارت سے دوسری تک جاتا تھا تاہم ملکہ کا محل ایک تھا اور کمال تھا‘ بادشاہ نے یہ محل اپنی عزیز ترین ملکہ کیتھرائن کےلئے بنوایا تھا‘ محل کی دیواریں تک سونے سے ڈھکی ہوئی تھیں۔
ملکہ کیتھرائن کی بیٹی کوئین ایلزبتھ نے 1750ءمیں اسے نئے سرے سے بنوایا‘ اٹلی سے معمار لائے گئے اور معماروں نے محل کو آرٹ پیس بنا دیا‘ روس کے عظیم شاعرالیگزینڈر پوشکن کا بچپن اور جوانی اسی محل کی دیواروں کے نیچے گزری تھی‘ پوشکن اسی علاقے کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتا تھا‘ روس میں روایت تھی خوش حال لوگ دو گھر بناتے تھے‘ یہ گرمیوں میں شہر سے دیہات میں شفٹ ہو جاتے تھے‘ گرمیوں کے گھر ڈاچے کہلاتے تھے۔
ڈاچے فارم ہاﺅسز ہوتے تھے اور یہ لوگ سردیوں میں ڈاچے سے بڑے شہروں میں چلے جاتے تھے‘ پوشکن کا ڈاچا محل کے قریب تھا‘ حکومت نے1837 ءمیں پوشکن کے قتل کے بعد اس علاقے کو پوشکن ٹاﺅن ڈکلیئر کر دیا جبکہ اس کے ڈاچے کو میوزیم بنا دیا‘ میں آخری دن پوشکن ٹاﺅن گیا‘ ملکہ کیتھرائن کا محل بھی دیکھا اور پوشکن کا ڈاچا بھی‘محل دولت کا سفاکانہ قتل تھا جبکہ پوشکن کا گھر مسکین شاعر کا گھر تھا‘ سادہ مگر پروقار۔ زار کا دوسرا محل سینٹ پیٹرز برگ میں تھا۔
یہ ونٹر پیلس کہلاتا ہے اور یہ بھی زمین پر انسانی صناعی کا نقطہ کمال ہے‘ ملکہ ایلزبتھ آرٹ کے خبط میں مبتلا تھی ‘ اس نے اپنے زمانے کے تمام بڑے آرٹس بھی خرید لئے تھے اور قدیم فن پارے بھی‘ آپ کو پیرس کے لوومیوزیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی آرٹ کولیکشن ونٹر پیلس میں ملتی ہے‘ محل میں تین ہزار مجسمے اور پینٹنگز ہیں اور ہر پینٹنگ پانچ پانچ سو ملین ڈالر مالیت کی ہے۔ونٹر پیلس انسانی المیوں کی عبرت گاہ بھی ہے‘ پہلا المیہ ملکہ ایلزبتھ تھی۔
ملکہ نے اربوں روپے خرچ کرکے دنیا کا مہنگا ترین محل بنوایا لیکن وہ محل مکمل ہونے سے پہلے انتقال کر گئی‘ وہ ممتاز محل کی طرح اپنا شاہکار نہ دیکھ سکی۔ دوسرا المیہ الیگزینڈر دوم تھا‘ الیگزینڈر دوم روس کاانقلابی زار تھا‘ اس نے 1861ءمیں روس میں غلامی پر پابندی لگا دی‘ تمام کسانوں‘ ہنر مندوں اور غلاموں کو آزاد کر دیا لیکن یہ آزادی المیہ ثابت ہوئی‘ کسان اور مزدور نسل در نسل غلام چلے آ رہے تھے‘ آزادی کیا ہوتی ہے یہ لوگ سرے سے نہیں جانتے تھے۔.
مالکان نے حکومت کے دباﺅ میں آ کر انہیں نکال دیا‘یہ لوگ پرائیویٹ کام نہیں جانتے تھے‘ غلامی ان کے ڈی این اے کاحصہ بن چکی تھی چنانچہ یہ بھوکے مرنے لگے‘ دوسری طرف لینڈ لارڈز بادشاہ کے خلاف ہو گئے‘ بادشاہ پر سات حملے ہوئے لیکن وہ بچ گیا‘ آخری حملہ نہر کے کنارے ہوا‘ بادشاہ نہر کے کنارے کھڑا تھا‘ کسی نے اس پر بم پھینک دیا‘ بادشاہ کی بگھی تباہ ہو گئی لیکن وہ بچ گیا‘ پولیس نے مجرم کو گرفتار کر لیا‘ بادشاہ نے مجرم سے لائیو تفتیش شروع کر دی۔
اس دوران مجرم کا دوسرا ساتھی بم لے کر آیا اور بادشاہ کے قریب پہنچ کر بم پھاڑ دیا‘ یہ تاریخ کا پہلا خودکش بارودی حملہ تھا‘ حملہ آور مارا گیا لیکن بادشاہ شدید زخمی ہو گیا‘ بادشاہ کے جسم کا آدھا خون بہہ گیا‘ خون پتھروں پر گرا اور جم گیا‘ بادشاہ کے بیٹے اور اگلے بادشاہ الیگزینڈر سوم نے ان پتھروں کے گرد شاندار چرچ تعمیر کرایا‘ یہ واقعہ 1881ءمیں پیش آیا تھا چنانچہ چرچ کی اونچائی 81 میٹر رکھی گئی‘ یہ چرچ آج بھی موجود ہے اور یہ بلڈ کیتھڈرل کہلاتا ہے‘ یہ پیٹرز برگ کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔
بادشاہ چھ دن نزع کے عالم میں رہا‘ ڈاکٹر اس کا خون نہ روک سکے اور یوں وہ انتقال کر گیا لیکن اس کے خون کے دھبے آج بھی زمین پر موجود ہیں اور ان دھبوں کے گرد چرچ بھی‘ میں چرچ بھی گیا اور آنجہانی بادشاہ کے خون کے دھبے بھی دیکھے‘ الیگزینڈر دوم ونٹر پیلس میں فوت ہوا تھا‘ محل کی دیوارپر اس کی پینٹنگ موجود ہے اور محل کا آخری المیہ انقلاب روس تھا‘ لینن نے انقلاب کا آغاز سینٹ پیٹرزبرگ سے کیا تھا‘ لینن کی تقریروں نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔
عوام نے ونٹر پیلس کا گھیراﺅ کر لیااور15 مارچ 1917ءکو نکولس دوم کا تختہ الٹ دیا‘ روس کے آخری زار نکولس دوم اور ملکہ الیگزینڈرا کو گرفتار کر لیا گیا‘انقلابیوں نے نکولس دوم کو خاندان سمیت قید میں ڈال دیا‘16 اور 17جولائی 1918ءکی درمیانی شب انقلابیوں نے شاہی خاندان کے تمام افراد قتل کر دیئے ‘ کوئی بچہ اورکوئی بچی تک نہ بچی تاکہ بانس تک محفوظ نہ رہے‘ میں ونٹر پیلس کا وہ ڈائننگ ہال دیکھنے کےلئے خصوصی طور پر ونٹر پیلس گیا جہاں شاہی خاندان نے پناہ لی تھی۔
میز پر کراکری رکھی تھی اور کرسیوں کے زاویے تک انقلاب کی اس خونی شام جیسے تھے‘ روس کے آخری بادشاہ نے خاندان کے ساتھ اس ہال میں اپنا آخری شاہی کھانا کھایا تھا‘ دربار ہال کے دروازے اور کھڑکیاں کھلی تھیں‘ کھڑکیوں سے سمندر کے اداس پانیوں کا بین سنائی دے رہا تھا‘ بادشاہ نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور اس کی سلطنت ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو گئی‘ وہ ان گندے‘ بدبودار اور میلے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہیں وہ انسان نہیں سمجھتا تھا‘ وہ اس کی نظروں میں چمپینزی تھے۔
نکولس دوم اور ملکہ الیگزینڈرا کی پینٹنگ شاہی گیلری کی آخری دیوار کے آخری کونے میں لگی تھی‘ وہ دونوں شاہی لباس میں تھے لیکن نہ جانے کیوں ان کے چہروں پر اداسی کے جال بچھے تھے‘ انقلابیوں نے صرف بادشاہ کی کہنہ عمر ماں کی جان بخش دی‘ماںماریہ فیوڈورووناملک نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لیکن وہ خاندان کے قتل کے بعد لندن شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئی‘وہ وہاں سے ڈنمارک چلی گئی اور 13 اکتوبر1928ءکو ڈنمارک میں انتقال کیا اور روسی حکومت کے حکم پر اس کی لاش روس لا کر دفن کر دی گئی یوں شاہی خاندان کے تمام افراد روسی زمین پر اکٹھے ہو گئے۔
سینٹ پیٹرز برگ کمال شہر ہے‘ فضا میں ایک طراوت‘ ایک مدہوش غنودگی ہے‘ یہ دوستوفسکی‘ پوشکن اور ترگنیف کا شہر تھا‘ ٹالسٹائی‘ میکسم گورکی اور چیخوف بھی لاتعداد مرتبہ سینٹ پیٹرز برگ آئے اور اس کی فضا میں اپنی خوشبو چھوڑ گئے‘ آپ اگر بلڈ کیتھڈرل سے نہر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شہر کی مرکزی شاہراہ کی طرف آئیں تو مرکزی پل کے کنارے اپارٹمنٹس کی ایک بلڈنگ ہے‘ بلڈنگ کے نیچے ”لٹریری کیفے“ ہے‘ آپ کو پوشکن‘ دوستوفسکی‘ ٹالسٹائی اور گورکی کی اکثر تحریروں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
یہ کیفے 1816ءمیں بنا اور یہ ادیبوں‘ اداکاروں‘ مصوروں اور موسیقاروں کا خاص ٹھکانہ ہوتا تھا‘ پوشکن قتل ہونے سے قبل29 جنوری 1837ءکو اسی کیفے سے اٹھ کر گیا تھا اور پھر کبھی واپس نہیں آ سکا تھا‘ پوشکن کی کرسی 182سال بعد آج بھی کیفے میں موجود ہے‘ اس کی کراکری بھی قائم ہے‘ یہ کیفے آج بھی آباد ہے اور دنیا جہاں کے ادیب‘ مصور اور سیاستدان یہاں آتے ہیں اور دیر تک یہاں بیٹھتے ہیں‘ میں نے پانچ مئی کی پوری شام وہاں گزاری۔
دیواروں پر ان تمام مشاہیر کے ناموں کی تختیاں لگی تھیں جو یہاں آتے اور بیٹھتے تھے‘ کیفے کی فضا میں ادب اور فن کی خوشبو بھی تھی اور احترام کی حرارت بھی‘ سیڑھیوں کے سامنے دیوار پر پوشکن کی پینٹنگ بنی تھی‘ وہ گارڈن میں بیٹھا تھا‘ اس کے ہاتھ میں گلدستہ تھا اور وہ سیڑھیوں سے اترنے والے ہر شخص کو دیکھ کر مسکراتا تھا‘ وہ اسی گلی میں نہر کی دوسری طرف اپارٹمنٹ میں رہتا تھا‘ یہ گلی ونٹر پیلس کے قریب تھی‘ پوری گلی میں اپارٹمنٹس کی عمارتیں تھیں۔
زار کے دور میں یہاں امراءرہتے تھے‘ یہ اپنے اپارٹمنٹ اور کمرے کرائے پر بھی دے دیتے تھے‘ پوشکن کرائے پر رہتا تھا‘ کرائے کا یہ فلیٹ بھی اب عجائب گھر ہے‘ آپ ادب اور تخلیقی کام کا کمال دیکھئے اپارٹمنٹ کا مالک گمنامی میں مر گیا لیکن کرایہ دار اپارٹمنٹ کو بھی امر کر گیا‘ یہ اپارٹمنٹ اب عجائب گھر ہے اور یہ روزانہ اتنے پیسے کماتا ہے جتنے پوشکن پورے سال میں فلیٹ کے مالک کو ادا کرتا تھا۔میں سینٹ پیٹرز برگ آﺅں اور میں دوستوفسکی کے گھر کی زیارت نہ کروں یہ کیسے ممکن تھا۔
عمیرلاہور کے رہائشی ہیں‘ یہ سینٹ پیٹرز برگ میں بزنس کرتے ہیں‘ یہ مجھے ملے اور مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا‘ عمیر نے میرے لئے گائیڈ کا بندوبست کر دیا‘ لوبا روسی گائیڈ تھی‘ میں نے اس سے دوستو فسکی کا گھر تلاش کرنے کی درخواست کی‘ لوبا نے بڑی مشکل سے وہ گھر تلاش کیا اور ہم ادب کے اس عظیم انسان کے اس اپارٹمنٹ کی طرف چل پڑے جہاں اس نے زندگی کا آخری حصہ گزارا تھا‘ دوستوفسکی کوئی دیوتا‘ صوفی یا اوتار نہیں تھا لیکن ادب پرست اس کی پرستش کرتے ہیں‘ یہ اسے ادب کا بھگوان سمجھتے ہیںاور ہم اس بھگوان کے دروازے پر کھڑے تھے۔