ڈاکٹر امارتیا کمار سین دنیا کے نامور معیشت دان ہیں‘ یہ 1933ءمیں بنگالی ہندو فیملی میں پیدا ہوئے‘ والد کیمسٹری کے پروفیسر تھے‘ یہ بچپن میں رابندر ناتھ ٹیگور سے متاثر ہوگئے‘ ٹیگور نے ان کی فکری پرورش کی‘ریاضی اور اکنامکس میں تعلیم حاصل کی‘ کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور یادیو یونیورسٹی کلکتہ میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے‘ کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں چار سال کےلئے فیلو شپ دے دی۔
یہ لندن گئے اور چار سال سوشل چوائس تھیوری پر کام کیا‘ یہ غریب ملکوں کےلئے ویلفیئر اکنامکس کا نظریہ تھا‘ یہ چار سال ڈاکٹر امارتیا کمار سین کےلئے وہ آگ ثابت ہوئے جو سونے کو کندن بنا دیتی ہے‘ یہ اس کے بعد پوری زندگی ویلفیئر اکنامکس اور سوشل جسٹس پر کام کرتے رہے‘ ڈاکٹر سین نے ریسرچ سے ثابت کیا دنیا کے جن ملکوں میں جمہوریت نہیں ہوتی وہ قحط کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ان کی سٹڈی تھی آمریت اور قحط کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے‘ ڈاکٹر سین نے ڈیٹا کے ساتھ ثابت کیا آپ اگر ملک کو خوش حال اور سرسبز دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ جمہوریت کی جڑیں مضبوط کردیں‘ آپ کا ملک ہر قسم کے بحران سے نکل آئے گا‘ یہ تھیوری 1980ءسے 1990ءکی دہائی میں بہت کامیاب ہوئی‘ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں نے اس پر کام کیااور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے دنیا کا ہر وہ ملک جس میں آمریت آئی وہاں سے خوش حالی‘ امن اور خوراک ختم ہو گئی اور جو ملک آمریت سے جمہوریت میں آ گئے وہ خود کفیل ہوتے چلے گئے‘ وہ تیزی سے خوراک‘ امن اور خوش حالی کی طرف بڑھتے چلے گئے‘ ڈاکٹر سین کی تھیوری سچ ثابت ہوئی چنانچہ نوبل انعام کمیٹی نے 1998ءمیں ڈاکٹر امارتیا سین کو اکنامکس سائنسز کا نوبل انعام دے دیا‘ یہ اس وقت بھی حیات ہیں ‘ عمر86سال ہے اور یہ ہارورڈیونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور کتابیں اور مضامین لکھتے ہیں۔
ڈاکٹر امارتیا سین کی تھیوری وقت نے ثابت کر دی اور یہ روز اسے مزید ثابت کرتا چلا جا رہا ہے‘ آپ افریقہ کو دیکھ لیجئے‘ 1990ءکی دہائی میں افریقہ کے بیشترممالک میں آمریت تھی‘ افریقہ اس وقت بدحالی کے خوفناک ترین دور سے گزر رہا تھا‘1994ءمیں روانڈا میں نسلی فسادات ہوئے اوردس لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے‘صومالیہ میں قحط کی صورتحال پیدا ہوئی اور تین لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے‘ الجیریا میں سول وار شروع ہوئی اوردو لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے اور سوڈان میں قحط آیا اورایک لاکھ لوگوں کو نگل گیا۔
یہ ملک اس وقت بدترین آمریت کا سامنا کر رہے تھے‘ سوویت یونین کی پانچ ریاستوں اور عرب دنیا کی صورتحال بھی ابتر تھی اور مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ میں بھی جہاں جہاں آمریت تھی وہاں بدامنی‘ غربت اور افلاس کے ڈھیر لگے تھے‘ 1990ءکے آخر میں جس جس ملک میں جمہوریت آئی وہاں حالات تبدیل ہونا شروع ہو گئے یہاں تک کہ افریقہ کے ملک بھی ترقی کی شاہراہ پر آ گئے‘ آپ 1992ءکے تاجکستان‘ ازبکستان‘ قزاقستان‘ بیلاروس‘ لتھونیا‘ لٹویا اور پولینڈ کو دیکھ لیجئے اور آپ 2000ءمیں ان کی گروتھ اور خوشحالی کا مشاہدہ کر لیں۔
آپ 1990ءکے ترکی کو دیکھ لیں اور آپ 2000ءمیں ترکی کو دیکھ لیں اور آپ 1990ءکی دہائی میں یوگوسلاویہ کی ریاستوں کی حالت دیکھ لیں اور آپ آج کے بوسنیا‘ کروشیا‘ مقدونیا‘مونٹی نیگرو‘ سربیا اورسلونیاکو دیکھ لیں آپ کو زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ آپ اسی طرح 1990ءکی دہائی میں لاطینی امریکا کے ملکوں کو دیکھ لیں‘ وینزویلا تیل پیدا کرنے والا دنیا کا واحد عیسائی ملک ہے‘ یہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں 11ویں اور تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر آتا ہے لیکن یہ آج بھی بدحال‘ غریب اور پسماندہ ہے‘کیوں؟ کیونکہ وہاں جمہوری آمریت ہے۔
آپ عرب ملکوں کی حالت بھی دیکھ لیجئے‘ عراق‘ تیونس‘ لیبیا اور مصر کن حالات سے گزر رہے ہیں اور کیوں گزر رہے ہیں‘ ایک لفظی تشخیص ہے آمریت‘ آپ اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں عربوں کی یہ حالت فوج نے نہیں کی‘ یہ حالات امریکا اور یورپ کے پیدا کردہ ہیں‘ یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن ایشو یہ ہے اگر ان ملکوں میں جمہوریت ہوتی تو منتخب اسمبلی اور منتخب حکمران حالات کو کبھی جنگ تک نہ جانے دیتے‘ یہ طاقتور ملکوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرتے اور یوں کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر تنازعے ختم ہو جاتے۔
لیبیا میں بھی اگر جمہوری حکومت ہوتی تو یہ کبھی لاکروبی جیسا واقعہ نہ ہونے دیتی‘ کرنل قذافی آمر تھا چنانچہ اس نے پین ایم مسافر کا طیارہ اڑانے کا حکم دے دیا اور عبدالباسط المقرحی نے لاکروبی میں طیارہ اڑا دیا‘ 270مسافر ہلاک ہو گئے اور کرنل قذافی اور پورے لیبیا کو اپنے خون سے ان مسافروں کا تاوان ادا کرنا پڑ گیا‘ لیبیا آج بھی یہ تاوان ادا کر رہا ہے‘ عراق میں بھی اگر جمہوری حکومت ہوتی تو یہ کبھی کویت اور ایران پر حملے کرتی اور نہ امریکا کو لال جھنڈی دکھاتی
اور یوں لاکھوں عراقی اپنے خون سے حماقت کے یہ دھبے نہ دھوتے اور شام میں بھی اگر اصل جمہوریت ہوتی تو یہ بھی عالمی طاقتوں کی شکار گاہ نہ بنتا‘ لاکھوں شامی کیمپوں میں نہ پڑے ہوتے اور شامی شہر ملبے کا ڈھیر نہ بنتے‘ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے جمہوریت اور ترقی دونوں جڑواں بھائی ہیں‘ یہ دونوں جب بھی چلتے ہیں تو اکٹھے چلتے ہیں اور کسی ایک کی کمی ملک کو دوسرے بھائی سے بھی محروم کر دیتی ہے‘ ڈیٹا اور ڈاکٹرسین دونوں یہ بتاتے ہیں۔
میں نے چند دن قبل ٹیلی ویژن پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی لائیو میڈیا ٹاک دیکھی‘ جنرل صاحب نے اپنی گفتگو کے دوران فرمایا ” اگر 1971ءمیں آج کا میڈیا ہوتاتو یہ بھارتی حالات بے نقاب کرتا‘ وہاں کے حالات اور زیادتیوں کی رپورٹنگ کرتا اور یوں مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا“ میں ان سے اتفاق کرتا ہوں‘ یہ بات سو فیصد درست ہے‘ میڈیا ہر دور میں ملکوں کے استحکام کی ضمانت ہوتا ہے‘ یہ ماضی میں بھی ”بائینڈنگ فورس“ تھا اور یہ آج بھی استحکام کی علامت ہے۔
آپ ریسرچ کر لیجئے دنیا کے جن ملکوں میں میڈیا آزاد تھا وہ آج کہاں ہیں اور جن ممالک میں میڈیا مکمل پابند تھا وہ آج کس جگہ کھڑے ہیں یا آج بھی جن ملکوں کا میڈیا حکومت کے پنجے میں سسک رہا ہے وہ کہاں ہیں اور جہاں میڈیا مکمل آزاد ہے وہ ملک کہاں پہنچ چکے ہیں توآپ بڑی آسانی سے نتائج اخذ کر لیںگے‘ اب سوال یہ ہے ملکوں کی ترقی اور استحکام میں میڈیا کا کردار کیوں ہوتا ہے‘ یہ صرف مشینیں ہیں اور مشینیں کسی قوم‘ کسی ملک کو کیسے ترقی یافتہ بنا سکتی ہیں؟ بات سیدھی اور سادی ہے‘ میڈیا جمہوریت کی ”بائی پراڈکٹ“ ہوتا ہے۔
ملک میں جتنی جمہوریت ہوتی ہے میڈیا بھی اتنا ہی آزاد ہوتا ہے اور وہ ملک بھی اتنا ہی ترقی یافتہ اور اتنا ہی خوش حال ہوتا ہے‘ جمہوریت مکمل طور پر مکمل اور آزاد ہے تو میڈیا بھی مکمل آزاد ہو گا‘ یہ مکمل آزادی ملک کو مکمل استحکام دے گی اور یہ مکمل استحکام ملک کو مکمل ترقی یافتہ بنا دے گا ورنہ دوسری صورت میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کنٹرولڈ میڈیا اور کنٹرولڈمیڈیا ملک کو کنٹرولڈ اکانومی دیتا ہے اور یوں ملک کنٹرولڈ پراگریس کرتا ہے۔
جمہوریت اگر سیمی لبرل ہے تو میڈیا بھی سیمی لبرل اور پھر ملک بھی سیمی پراگریس ہو گا اور اگر جمہوریت سلیکٹڈ ہے تو پھر میڈیا بھی سلیکٹو ہو گا اور اس کے نتیجے میں ترقی اور خوش حالی بھی سلیکٹڈ ہو گی‘ آپ کو پھر پورے ملک میں سلیکشن نظر آئے گی‘ ہم اگر 1971ءکا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا ملک میں اس دور میں جتنے بلند قامت اخبارات‘ میگزینز اور صحافی تھے ہم آج اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ وہ لوگ لکھتے اور بولتے بھی رہے مگر مشرقی پاکستان اس کے باوجود ہم سے الگ ہو گیا‘ کیوں؟ کیونکہ ملک میں آمریت تھی اور آمریت کے دور میں میڈیا جتنا بھی آزاد ہو جائے یہ آزاد نہیں ہوتا۔
آمریت میں حکومت اگر دریا دلی کا مظاہرہ بھی کر لے تو یہ زیادہ سے زیادہ پرندے کا پنجرہ کمرے سے لان میں رکھ دیتی ہے اور بس چنانچہ پھر نتیجہ وہی نکلتا ہے جو 1971ءمیں نکلا یا پھر 1990ءکی دہائی میں سوویت یونین‘1991ءمیں یوگوسلاویہ‘2003ءمیں عراق اور 2011ءمیں لیبیا‘ تیونس اور شام میں نکلا اور یہ مسلسل نکلتا چلا جا رہا ہے لہٰذا ہم اگر پاکستان کو ترقی یافتہ‘ خوش حال اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں میڈیا سے زیادہ جمہوریت پر توجہ دینا ہو گی۔
ہمارے ملک میں جس دن جمہوریت مضبوط اور آزاد ہو جائے گی اس دن میڈیا بھی آزاد اور مضبوط ہو جائے گا اور جس دن میڈیا مضبوط اور آزاد ہو گیا اس دن ہماری معیشت‘ صنعت‘ تجارت اور سٹاک ایکسچینج بھی آزاد اور مضبوط ہو جائے گی اور جس دن یہ سارے شعبے مضبوط اور آزاد ہو گئے اس دن دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ترقی‘ امن اور خوشحالی سے نہیں روک سکے گی‘ ہم اس دن حقیقتاً بحرانوں سے نکل آئیں گے لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا جمہوریت کو صرف بوٹوں سے خطرہ نہیں ہوتا۔
جمہوریت ویسٹ کوٹوں اور شیروانیوں کے ہاتھوں بھی ذلیل ہو تی ہے‘ ملک میں جب پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں ہو گی‘ یہ اگر شخصیات اور خاندانوں کے ہاتھوں پامال ہوتی رہے گی اور پارٹی کا اگلا قائد کون ہوگا یہ فیصلہ پارٹی اور پارٹی کے کارکن نہیں بلکہ قائدین کی بلڈ لائین اور ڈی این اے کرے گا تو پھر جمہوریت کو جمہوریت کون کہے گا اور کون سمجھے گا؟۔ہماری قوم 71 سال میں چار مارشل لاءسہہ چکی ہے‘ یہ چار آمروں کو گھر بھی بھجوا چکی ہے‘اب پارٹیوں کے سربراہوں کو بھی قربانی دینی چاہیے۔
یہ بھی اب گھر چلے جائیں تاکہ ملک میں اصل جمہوریت آ سکے اور جس دن یہ جمہوریت آ گئی اس دن میڈیا بھی آزاد ہو جائے گا اور ملک کی معیشت بھی‘ ہمیں اس دن مدارس اور مرکزی دھاروں کےلئے فوج کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا‘ حکومتوں کو اس دن خود کو جائز ثابت کرنے کےلئے کسی سر ٹیفکیٹ اور کسی ٹویٹ کی ضرورت بھی نہیں رہے گی‘ یہ ملک مستحکم اور خوش حال ہو جائے گا اور یہ وقت کا فیصلہ بھی ہے اور ڈاکٹر امارتیا سین کا بھی‘ اصلی اور سچی جمہوریت کے علاوہ ہمارے پاس ترقی کا کوئی آپشن موجود نہیں۔