”یہ دیکھو“اس کے منہ سے نکلا اور اس نے شارٹ لگا دی‘ سفید گیند نیم دائرے میں اوپر اٹھی اور درختوں‘ چوٹیوں‘ ریت اور پلوں سے ہوتی ہوئی سیدھی سبز گھاس پر جا گری اور پھر ناممکن شرما کر‘ لجا کر ممکن بن گیا‘معجزہ ہو گیا‘ پوری دنیا کے گالفر جذباتی ہو کر کھڑے ہوئے‘ زندہ باد کے نعرے لگائے اور خوشی سے آنسو پونچھنا شروع کر دیئے۔یہ شارٹ اور ٹائیگرووڈز کی واپسی دونوں ناممکن تھے‘ اتنے ہی ناممکن جتنا ناممکن بل کلنٹن کی سیاست میں واپسی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر تیسری بار امریکا کا صدر بننا ہے یا پھر زمین سے پانی لے جا کر مریخ پر آلوؤں کی فصل کاشت کرنی ہے۔
یہ اگر معجزے ہیں تو پھر یہ بھی معجزہ تھا اور اس شخص نے اس معجزے کیلئے مسلسل گیارہ سال محنت کی تھی‘ دن رات محنت۔ٹائیگرووڈز کا اصل نام ایلڈرک ٹانٹ تھا‘ والد نیوی میں ملازم تھا‘ وہ اپنے دوست کرنل وانگ ڈینگ فونگ سے بہت متاثر تھا‘ کرنل فونگ ٹائیگرکہلاتا تھا چنانچہ والد نے ایلڈرک کو ٹائیگرووڈز کہنا شروع کر دیا‘ ٹائیگر دو سال کی عمر میں گالف کورس میں داخل ہوا اور کمال کر دیا‘ ٹائیگر قدرتی گالفر تھا‘ وہ پانچ سال کی عمر تک گالف ڈائجسٹ اور اے بی سی کے شو ڈیٹس انکریڈیبل میں انٹرویو دے چکا تھا‘ وہ 13 سال کی عمر میں قومی گالف کے مقابلے میں شریک ہوا‘ 15 سال کی عمر میں امریکا کا کم عمر ترین چیمپیئن بنا اور 16 سال کی عمر تک چار مرتبہ جونیئر ورلڈ چیمپیئن شپ جیت لی‘ یہ ریکارڈ تھا‘ ٹائیگرووڈز نے پروفیشنل کیریئر کا آغاز 1996ء میں کیا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا‘ اس نے ایک سال میں پروفیشنل گالفرز ایسوسی ایشن کے تین مقابلے جیتے‘ 1997ء میں ماسٹرز جیت کر کیریئر کی پہلی بڑی کامیابی حاصل کی اور وہ 2005ء تک گالف کا کنگ بن گیا‘ وہ 13 مرتبہ گلف چیمپیئن بنا اور اس کا نام 16 مرتبہ گالف کے دس بڑے کھلاڑیوں کی فہرست میں آیا‘ وہ اپنی 21 ویں سالگرہ پر دنیا کے بڑے سیلی برٹیز میں شامل ہو چکا تھا‘جنرل موٹرز‘ جنرل ملز‘ امریکن ایکسپریس اور نائیکی جیسی کمپنیاں کروڑ کروڑ ڈالرز کے چیکس لے کر اس کے دروازے پر کھڑی ہوتی تھیں لیکن پھر بدقسمتی نے اس کے دروازے پر دستک دی اور وہ شہرت سے گم نامی کی طرف چل پڑا‘ 2008ء میں اس کے گھٹنے کی سرجری ہوئی اور پھر کمر کے آپریشن ہوئے اور وہ ان فٹ ہوتا چلا گیا۔
وہ ذاتی زندگی میں بھی سکینڈلز کی زد میں آ گیا‘ چیکس ڈس آنر ہو ئے‘ پولیس کیس بنے‘ گرل فرینڈز کے ساتھ جھگڑے ہوئے اور بے وفائیوں کی کہانیاں میڈیا تک پہنچنے لگیں‘ وہ گونا گوں نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہو گیا حتیٰ کہ اس نے 2009ء میں گالف سے علیحدگی اختیار کر لی‘ لوگ اس سے نفرت کرنے لگے‘ وہ خود بھی لوگوں سے آنکھیں نہیں ملاتا تھا۔میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں گالف بظاہر آسان دکھائی دیتا ہے لیکن یہ دنیا کامشکل ترین کھیل ہے۔
کھلاڑی جب تک چار علوم فزکس‘ جیومیٹری‘ جغرافیے اور نفسیات کا ماہر نہ ہو جائے یہ گالف میں کامیاب نہیں ہو سکتا‘ گالف میں 14سٹکس ہوتی ہیں‘ گیند کا وزن محض 45.93گرام ہوتا ہے‘ گالفر گیند کو شارٹ لگانے سے پہلے زمین کا اندازہ کرتا ہے‘ یہ سطح مرتفع‘ چوٹیوں کے سائز‘ گھاس‘ چٹانوں‘ پلوں‘ ندیوں‘ نالوں‘ درختوں‘ ہوا کے دباؤ اور گیند نے جہاں گرنا ہے اس مقام کا تعین کرتا ہے اور یہ جغرافیے کے علم کے بغیر ممکن نہیں ہوتا‘ گالف میں مناظر‘ ہوا‘ درجہ حرارت‘ سٹک کا نمبر‘ بال اور ہول کے زاویئے بھی اہم ہوتے ہیں اوران کا تعین جیومیٹری کے علم کے بغیر ممکن نہیں۔
گالف میں ٹانگوں‘ بازوؤں‘ کمر‘ سٹک اور گیند کے وزن‘ ہوا میں بال کی گردش‘ رفتار اور زاویہ بھی اہم ہوتا ہے اور اس کیلئے فزکس کا علم ضروری ہوتا ہے اور کھلاڑی کو ان تینوں علوم کو ایک جگہ یکجا کرنے کیلئے نفسیات کا علم بھی درکار ہوتا ہے اور آپ اگر نفسیاتی طور پر کمزور ہیں‘ آپ خودکو فوکس نہیں رکھ سکتے اور آپ اگر چند سیکنڈ میں فیصلہ نہیں کر سکتے تو آپ پھر بھی اچھے گالفر نہیں بن سکتے اور ٹائیگر ووڈز کی زندگی سے یہ چاروں علوم کھسک گئے تھے‘ وہ نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔
وہ لوگوں سے آنکھیں چراتا تھا مگر پھر ایک عجیب معجزہ ہوا‘ ٹائیگرووڈز نے گالف کورس میں آنا شروع کر دیا‘ وہ چپ چاپ آتا اور گھنٹوں پریکٹس کرتا رہتا تھا‘ وہ صرف ہارنے کیلئے مقابلوں میں بھی شریک ہوتا تھا‘دس سال تک لاؤڈسپیکر سے جب بھی اس کا نام پکارا جاتا تھا توبہت کم تماشائی تالی بجاتے تھے‘ وہ شارٹ لگاتا تھا تو بھی کوئی شخص اس کی تعریف نہیں کرتا تھا‘ مبصرین کا خیال تھا یہ وقت ضائع کر رہا ہے‘ یہ کامیاب نہیں ہو سکے گا‘ یہ بات درست بھی تھی‘ کیوں؟ کیونکہ گالف کی تاریخ میں آج تک کسی چیمپیئن کا ”کم بیک“ نہیں ہوا تھا۔
دنیا کا کوئی کھلاڑی گالف کورس سے باہر جا کر واپس نہیں آیا تھا لیکن ٹائیگرووڈز اس کے باوجود گالف کورس میں بھی آتا رہا اور کھیلتا بھی رہا‘ یہ مسلسل گیارہ سال محنت‘ پریکٹس اور کوشش کرتا رہا‘ اس نے اس دوران جغرافیے کا علم بھی امپروو کیا‘ فزکس کے اصول بھی ازسر نو سیکھے‘ یہ جیومیٹری کے زاویئے بھی سمجھتا رہا اور یہ اپنی نفسیات بھی بہتر بناتا رہا یہاں تک کہ 2018 آ گیا‘ ٹائیگرووڈز نے دس سال بعد پہلی مرتبہ تماشائیوں اور گالف لورز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ورلڈ چیمپیئن بروکس کوپیکا کے چھکے چھڑا دیئے۔
ٹائیگرووڈز یہ ٹورنامنٹ ہار گیا لیکن اس نے حریف کو ٹھیک ٹھاک ٹف ٹائم دیا‘ تماشائیوں نے دس سال بعد کھل کر ٹائیگرووڈز کیلئے تالیاں بجائیں‘یہ اس کی واپسی کا پہلا قدم تھا‘ 2018ء کے آخر میں اس نے اپنے کیریئر کا 80 واں ٹورنامنٹ جیت لیا‘ لوگ حیران ہو گئے لیکن اس کا اصل کمال 11اپریل 2019ء سے شروع ہونے والاماسٹرز ٹورنامنٹ تھا‘فائنل راؤنڈ میں اس کا مقابلہ ڈسٹن جونسن‘ زینڈر شافیلے اور بروکس کوپیکاجیسے ورلڈکلاس پرفارمرز سے تھالیکن آخر میں ٹائیگرووڈز نے شارٹ لگائی۔
گیند پانی کے اوپر سے نیم دائرے کی شکل میں اڑی‘ آہستہ آہستہ زمین پر اتری‘ ڈھلوان سے 120 فٹ نیچے آئی اور لڑھکتی ہوئی ہول سے 15 انچ کے فاصلے پر رک گئی‘ ٹائیگرووڈز ہول کی طرف بڑھا‘ تماشائی اور کیمرے بھی اس کے ساتھ ساتھ چل پڑے‘ ٹائیگرووڈز گیند کے قریب رکا‘ گیند کو ہلکی سی ہٹ لگائی اور وہ ہول میں گر گئی‘ پوری دنیا کے گالفرز نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور وہ معجزہ ہو گیا جس کی توقع تک گناہ سمجھی جاتی تھی‘ ٹائیگرووڈز 43 سال کی عمر میں 11 سال بعد ایک بارپھر ماسٹرز چیمپیئن بن گیا۔
یہ جیت شاید اتنا بڑا کمال نہیں تھی‘ اصل اور بڑا کمال اس کی صحت تھی‘ ٹائیگر نے یہ ٹائٹل کمر کی چارسرجریز اور گھٹنوں کے دو فریکچرز کے بعدحاصل کیا تھا‘یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہ ٹویٹ کرنے پر مجبور ہوگیا ”مجھے دباؤ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں سے محبت ہے‘ یہ ایک عظیم شخص کا شاندار کم بیک ہے“۔ٹائیگرووڈز کاکم بیک اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث ہے‘ ماہرین بار بار دنیا کے عظیم گالفر گیری پلیئر کا حوالہ دے رہے ہیں۔
گیری نے ایک بار کہا تھا ”میں جتنی پریکٹس کرتا جاتا ہوں‘ میں اتنا ہی خوش قسمت ہوتا چلا جاتا ہوں“ہم دنیا کے 99 فیصد لوگ خوش قسمتی کو امر ربی سمجھتے ہیں‘ہم میں سے صرف ایک فیصد لوگ اسے محنت‘ محنت اور محنت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں‘ ٹائیگرووڈز ان ایک فیصد لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘ خوش قسمتی نے 2008ء میں اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا‘ وہ گھٹنے اور کمر کی سرجری اور سکینڈلز کی وجہ سے حالات کی پارکنگ میں پارک ہو گیالیکن اس کے باوجوداس نے ہار نہ مانی۔
یہ مسلسل 11 سال پریکٹس کرتا رہا‘ یہ روزانہ آٹھ گھنٹے گالف کورس میں گزارتا تھا‘اس نے گیارہ سال کوئی چھٹی نہ کی‘ پریکٹس نے اسے 43 سال کی عمر میں دوبارہ ماسٹرز چیمپیئن بھی بنا دیا اور امریکی صدر تک اس کی تعریف پرمجبور ہو گئے‘ ٹائیگرووڈز نے ثابت کر دیا ”پریکٹس میکس اے مین پرفیکٹ“ کا محاورہ درست نہیں‘ صرف پریکٹس کسی شخص کو پرفیکٹ نہیں بناتی بلکہ پرفیکٹ پریکٹس لوگوں کو پرفیکٹ بناتی ہے‘ ٹائیگرووڈز صرف پریکٹس نہیں کرتا تھا۔
وہ جغرافیہ‘ فزکس‘ جیومیٹری اور نفسیات کو ذہن میں رکھ کر پرفیکٹ پریکٹس کرتا تھا چنانچہ یہ گیارہ سال بعد ایک بار پھر پوری دنیا کا ہیرو بن گیا اور دوسرا نقطہ کم بیک کی فلاسفی ہے‘ کامیاب لوگ قابل تعریف ہوتے ہیں لیکن یہ ہیرو نہیں ہوتے‘ ہیرو وہ لوگ ہوتے ہیں جو شروع میں کامیاب ہوتے ہیں‘ پھر ناکام‘ ناکام اور مسلسل ناکام ہوتے ہیں اور آخر میں ایک بار پھر کامیاب ہو جاتے ہیں‘ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے ناکامی اس وقت تک ناکامی نہیں ہوتی جدوجہد ہوتی ہے جب تک انسان خود کو ناکام تسلیم نہیں کرتا۔
میدان میں گرنا گناہ نہیں ہوتا گر کر اٹھ نہ سکنا گناہ ہوتا ہے اور ٹائیگرووڈز نے ثابت کر دیا انسان اگر خود کو ناکام نہ سمجھے تو یہ گیارہ سال بعد بھی اٹھ سکتا ہے‘ یہ فخر کے ساتھ اپنا سر بلند کر سکتا ہے‘ دنیا ٹائیگرووڈز کے ٹائٹل کو کم بیک کہہ رہی ہے لیکن میں اسے گریٹ کم بیک سمجھتا ہوں‘ اس صدی کا عظیم کم بیک کیونکہ اس ایک شخص نے ثابت کر دیا انسان اگر ہار نہ مانے تو پوری دنیا مل کر بھی اسے نہیں ہرا سکتی‘ اس نے ثابت کر دیا قسمت ستاروں یا لکیروں میں نہیں ہوتی یہ پریکٹس‘ پریکٹس اور پریکٹس اور محنت‘ محنت اور مسلسل محنت میں ہوتی ہے‘ زم زم زمین میں نہیں ہوتا حضرت اسماعیل ؑ کی ایڑیوں میں ہوتا ہے‘جب تک ایڑیاں نہیں رگڑی جاتیں حاجیوں کا حج مکمل نہیں ہوتا۔