سفید گینڈا دنیا کے وزنی ترین جانوروں میں شامل ہے‘ یہ عموماً ساڑھے چار میٹرلمبا‘ دومیٹراونچا اورپانچ ٹن وزنی ہوتا ہے‘ یہ چلتا ہے تو زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘ سفید گینڈے کے سر پراڑھائی کلو گرام کا نوکیلا سینگ بھی ہوتا ہے‘ گینڈا جب سو فٹ کے فاصلے سے دوڑتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت کے ساتھ سینگ مارتا ہے تو یہ ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کو بھی درمیان سے چیر دیتا ہے‘ یہ سینگ چٹانوں کو ہلا دیتا ہے اور سو سو فٹ بلند درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ دیتا ہے۔
سفید گینڈے کے بارے میں کہا جاتا ہے آپ اسے سامنے سے شکار نہیں کر سکتے‘کیوں؟ کیونکہ یہ جب خود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے تو یہ شکاری کو گاڑی‘ بندوق اور مچان سمیت اڑا کر پھینک دیتا ہے‘ اس کی جلد موٹی اور سخت ہوتی ہے‘ اس پر کارتوس یا گولی اثر نہیں کرتی‘ آپ اسے گولی سے نہیں مار سکتے چنانچہ شکاری اسے دو طریقوں سے شکار کرتے ہیں‘ یہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان گولی مارتے ہیں‘ گینڈے کی آنکھوں کے درمیان جلد پتلی اور سر کی ہڈی کمزور ہوتی ہے‘ گولی صرف یہاں اثر کرتی ہے تاہم آنکھوں کے درمیان گولی مارنے کےلئے انتہائی مہارت چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ گینڈا اپنی جسمانی خامی سے واقف ہوتا ہے لہٰذا یہ ہمیشہ سرجھکا کر بھی چلتا ہے ‘ یہ اپنا سر بچانے کےلئے جسم کو دائیں بائیں بھی گھماتا رہتا ہے اور یہ زیادہ دیر تک ایک پوزیشن میں بھی نہیں بیٹھتا‘ یہ جگہ اور پاسچر بدلتا رہتا ہے لہٰذا شکاریوں کےلئے گینڈے کے سر پر آنکھوں کے درمیان وار کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ جوں ہی نشانہ چوکتا ہے‘ گینڈا شکاری کو وین یا درخت سمیت اڑا کر رکھ دیتا ہے‘ گینڈے کو شکار کرنے کا دوسرا طریقہ نسبتاً آسان اور محفوظ ہے‘ گینڈے کی دُم آنکھوں کے درمیانے حصے سے بھی زیادہ نرم ہوتی ہے چنانچہ شکاری اس کی دُم کو نشانہ بناتے ہیں‘ یہ دُم پر حملہ کرتے ہیں‘ دُم کاٹ دیتے ہیں یا پھر دُم کے دائیں بائیں گولیاں مار کر گینڈے کو شدید زخمی کر دیتے ہیں‘ یہ خون بہنے کی وجہ سے حرکت نہیں کر پاتا۔
گینڈا پانی کے بغیر چار دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا‘ یہ زخموں کی وجہ سے پانی تک نہیں پہنچ پاتا اور یوں یہ زمین پر پڑا پڑا ہلاک ہو جاتا ہے‘ گینڈے کی اس کمزوری کی وجہ سے شکاریوں میں یہ محاورہ عام ہے‘ گینڈے کو سر سے نہیں دُم سے شکار کریں‘ آپ کبھی ناکام نہیں ہوں گے‘ یہ محاورہ بھی عام ہے اناڑی شکاری گینڈے کو ہمیشہ سامنے سے شکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں جان سے جاتے ہیں۔عمران خان بھی یہ غلطی کر رہے ہیں چنانچہ گینڈے ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ان کی مچان کی طرف دوڑرہے ہیں اور یہ کسی بھی وقت ان کے پورے ٹرک کو روند ڈالیں گے۔
یہ حقیقت ہے ہمارے ملک میں کرپشن ہے اور یہ ناسور دیمک کی طرح پورے سسٹم کو چاٹ رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے ہماری معیشت قرضوں کی ہیروئن کی عادی ہو چکی ہے‘ ہم جس دن یہ ہیروئن نہیں دیں گے مریض اس دن مر جائے گا‘ یہ دونوں حقیقتیں مل کر گینڈا بن چکی ہیں اور آپ اگر ماہر نشانچی نہیں ہیں اور آپ گینڈے کو دونوں آنکھوں کے درمیان گولی نہیں مار سکتے تو پھر آپ گینڈے کو شکار کرنے کی غلطی نہ کریں‘ آپ گینڈے کے سینگوں کا نشانہ بن جائیں گے۔
آپ کو پھر کوئی نہیں بچا سکے گا‘ میں دل سے چاہتا ہوں عمران خان کامیاب بھی ہوں اور یہ پانچ سال بھی پورے کریں‘ کیوں؟ کیونکہ عمران خان کی ناکامی کے ساتھ ہی معاشرتی انقلاب‘ سٹیٹس کو کے خاتمے اور پسے ہوئے طبقوں کے اوپر آنے کے سارے خواب بھی ٹوٹ جائیں گے‘ ملک میں بڑی مشکل سے روایتی سیاسی جماعتوں کا جادو ٹوٹا‘ ایک نئی اور لبرل پارٹی سامنے آئی‘ یہ پارٹی بھی اگر ناکام ہو گئی تو پھر روایتی جماعتیں زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آئیں گی یا پھرپی ٹی آئی کی سپیس کو شدت پسند گروپ پر کریں گے اور یہ دونوں آپشن ملک کےلئے ٹھیک نہیں ہیں۔
پاکستان میں 15سے 29 سال کے نوجوان آبادی کا29فیصد ہیں‘ یہ نوجوان شاید پہلی اور آخری بار سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں‘ عمران خان کی ناکامی کے ساتھ یہ لوگ سیاست سے مکمل مایوس ہو جائیں گے اور یہ حقیقت ہے دنیا کے جس جس ملک میں نوجوان سیاست سے پرہیز کر رہے ہیں وہ تیزی سے تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے‘ افریقہ میں دنیا میں سب سے زیادہ معدنیاتی وسائل ہیں لیکن یہ ان کے باوجود دنیا کا پسماندہ ترین خطہ ہے‘کیوں؟ کیونکہ افریقی نوجوان پوری دنیا کے مقابلے میں فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہیں۔
امریکا‘ روس‘ جاپان‘ چین‘ فرانس اور جرمنی کیوں ترقی کر رہے ہیں؟ کیونکہ ان تمام ملکوں کے نوجوان سیاسی اور حکومتی نظام میں شریک ہیں لہٰذا عمران خان کی ناکامی پاکستانی نوجوانوں کا دل توڑ دے گی‘ یہ دوبارہ تنہائی کے غاروں میں جا گریں گے چنانچہ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عمران خان کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں‘ یہ بدلتے ہوئے پاکستان کی آخری امید ہیں لیکن میری ساتھ ہی درخواست ہے عمران خان اپنے اناڑی ساتھیوں کی باتوں میں آ کر گینڈے کو سامنے سے شکار کرنا بند کر دیں‘ یہ گینڈے کی دُم کی طرف جائیں‘ یہ مسائل کو وہاں سے پکڑیں جہاں سے یہ حل ہو سکتے ہیں‘یہ کامیاب ہو جائیں گے۔
ہم اب مسائل کی دُم کی طرف آتے ہیں‘ وزیراعظم کسی دن ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اپنے آپ سے پوچھیں عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں‘ وزیراعظم چند لمحوں میں جان لیں گے عوام پولیس‘ پٹواری اور لوئر جوڈیشری سے تنگ ہیں‘ یہ تعلیم‘ صحت اور روزگار کے مسائل کا شکار ہیں اور یہ بے ہنگم اور بے ترتیب ٹریفک‘ عدم برداشت اور جہالت کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان تمام مسائل کے حل کےلئے کوئی راکٹ سائنس دان نہیں چاہیے‘ یہ سماجی خرابیاں ہیں اور دنیا بھر میں ان خرابیوں کے حل کے ہزاروں فارمولے موجود ہیں۔
وزیراعظم نے چند ماہ پہلے ڈی جی خان میں شیخ عمر نام کے ایک پولیس افسر کو آر پی او لگایا‘ اس افسر نے صرف ایک کام کیا‘ اس نے پولیس کے اوپر پولیس لگا دی‘ 32 پولیس اہلکاروں کو سزائیں دیں اور ڈی جی خان میں جرائم بھی رک گئے اور عوام کے مسائل بھی حل ہو گئے‘ آپ یہ ماڈل پورے پنجاب میں نافذ کر سکتے ہیں‘ آپ پولیس پر پولیس لگا دیں‘ لوگوں کی سانس میں سانس آ جائے گی‘ میاں شہباز شریف نے پنجاب بھر کی زمینیں کمپیوٹرائزڈ کر دی تھیں‘ آپ یہ سسٹم اپ گریڈ کردیں۔
لوگوں کی پٹواریوں سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے جان چھوٹ جائے گی‘یہ سکھ کا سانس لے لیں گے‘ مقدمات خاندانوں کے معاشی وسائل بھی چوس جاتے ہیں اور نسلوں کا وقت بھی برباد کر دیتے ہیں‘ حکومت عدلیہ کے ساتھ مل کر تمام ”پینڈنگ کیسز“ ختم کرا دے‘ آپ نئے جج بھرتی کریں‘ سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں میں شام کی عدالتیں لگائیں اور تین چار پیشیوں میں مقدمات بھگتا دیں‘ آپ مقدموں میں رکاوٹ بننے والے اہلکاروں کو بھی ملزمان کے ساتھ جیل بھجوا دیں‘ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
حکومت مقدمات کے خاتمے کے بعد انصاف کا نیام نظام بھی متعارف کرا دے‘ جھوٹے مقدمے درج کرانے والوں کےلئے کڑی سزائیں اور جرمانے طے کر دے اور تفتیش پہلے اور مجرم بعد میں گرفتار ہوں‘ملک میں سپریم کورٹ کے حکم سے 116ماڈل عدالتیں کام کر رہی ہیں‘ حکومت ان عدالتوں میں بھی اضافہ کر دے‘ انصاف کا مسئلہ بھی کسی نہ کسی حد تک حل ہو جائے گا‘ ہمیں آج یہ بھی ماننا ہوگا حکومت اگر اپنا سارا بجٹ سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں پر لگا دے تو بھی عوام اپنا علاج سرکاری ہسپتالوں اور اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں کوالٹی تعلیم نہیں دلا سکیں گے۔
یہ دونوں مسئلے بھارت کو بھی درپیش تھے لیکن یہ دونوں وہاں حل ہو گئے‘ آپ صحت اور تعلیم کے ماڈل بھارت سے لے لیں‘ پاکستان میں پانچ برسوں میں ان دونوں شعبوں میں بڑی تبدیلیاں آ جائیں گی‘ آپ یقین کیجئے دنیا میں مہنگائی کوئی ایشو نہیں‘ آمدنی ایشو ہے‘ آپ کی آمدنی میں اگر اضافہ ہو رہا ہے تو مہنگائی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے یہ آپ کو متاثر نہیں کرے گی‘ حکومت نے عوام کو صرف یہ نقطہ سمجھانا ہے‘ ہم نے لوگوںکو یہ بتانا ہے آپ مہنگائی میں کمی کا انتظار نہ کریں‘ آپ اپنی مہارت اور کمانے والے ہاتھوں میں اضافہ کریں۔
خاندان کے کم از کم آدھے افراد کو کمانا چاہیے‘ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور بے ہنگم ٹریفک‘ عدم برداشت اور جہالت کے خاتمے کےلئے بھی کسی سپرمین کی ضرورت نہیں‘ حکومت معاشرے میں چند سماجی تبدیلیاں کردے اور یہ مسائل بھی ختم ہو جائیں گے‘ مثلاً آپ پورے ملک کےلئے ٹریفک پلان بنائیں‘ کالج کے نوجوانوں کو پارٹ ٹائم ٹریفک پولیس میں بھرتی کر لیں‘ آپ انہیں تھوڑا سا وظیفہ‘ دس بیس اضافی نمبر اور تجربے کا سر ٹیفکیٹ دے دیں اور یہ نوجوان اپنے اپنے علاقے کی ٹریفک کنٹرول کر لیں گے۔
پاکستان کا کوئی شہری اس وقت تک گاڑی خرید سکے‘ فروخت کر سکے اور نہ اس پر ٹوکن لگوا سکے جب تک وہ اپنا ڈرائیونگ لائسنس جمع نہ کرا دے‘ آپ ڈرائیونگ کو ایف اے اور ایف ایس سی کی سند کے ساتھ بھی نتھی کر دیں‘ ڈرائیونگ لائسنس کو پاسپورٹ‘ ووٹ اور بینک اکاﺅنٹس کےلئے بھی لازم قرار دے دیں اور آپ ساتھ ہی ڈرائیونگ لائسنس کو مشکل بنا دیں‘ ٹریفک کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ آپ ملک میں برداشت بڑھانے کےلئے مذہب‘ فرقے اور سیاسی اختلافات کو ذاتی مسئلہ ڈکلیئر کر دیں۔
ملک میں کوئی شخص کسی سے اس کا فرقہ‘ مذہب اور سیاسی وابستگیوں کے بارے میں نہ پوچھ سکے‘ آپ اگر پاکستان کے شہری ہیں تو پھر آپ پاتال میں بھی چلے جائیں تو بھی آپ ریاست کی نظروں سے اوجھل نہ ہو سکیں اور آخری تجویز‘ ریاست اگر کوئی کام شروع کرے تو کوئی ادارہ کام کی تکمیل تک اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔یہ تمام اقدامات گینڈے کی دُم ہیں‘ یہ ملک کے اصل ایشوز ہیں‘ وزیراعظم ان پر توجہ دیں‘ یہ گینڈے کے سامنے کھڑے ہو کر اسے للکارنا بند کر دیں ۔
وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے ان کی ٹیم میں کوئی ماہر شکاری نہیں‘ یہ لوگ زندگی میں پہلی بار شکار کےلئے آئے ہیں اور یہ رائفل کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ جنگل اور گینڈے کے بارے میں‘ یہ زندگی اور موت کے اس کھیل کو گلی ڈنڈا سمجھ رہے ہیںچنانچہ یہ اپنے ناتجربہ کار ساتھیوں اور دوستوں سے بھی بچیں‘ یہ خود بھاگ جائیں گے اور وزیراعظم پھنس جائیں گے۔