ملک میں 1990ءکی دہائی تک ناولوں اور ڈائجسٹوں کا زمانہ تھا‘ اس زمانے میں ہر شہر اور ہر محلے میں لائبریریاں بھی ہوتی تھیں اور بک سٹالز بھی‘ لوگ بھی دھڑا دھڑ کتابیں‘ ناول اور ڈائجسٹ پڑھتے تھے‘ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے‘ یہ سچ ہر زمانے میں مارکیٹنگ کی نئی نئی فلاسفیز کو جنم دیتا ہے‘ پاکستان میں موجود لاکھوں قارئین نے بھی ناولوں اور ڈائجسٹوں کی ڈیمانڈ پیدا کر دی‘ ملک میں اب لکھنے والے کم تھے اور ڈیمانڈ زیادہ چنانچہ سپلائی کا بحران پیدا ہو گیا۔
پبلشرز نے اس کا ایک دلچسپ حل نکالا‘ انہوں نے ڈائجسٹوں میں قسط وار سلسلے اور کتابوں میں ناولوں کی سیریز شروع کر دی‘ ڈائجسٹوں میں شکیل عادل زادہ‘ محی الدین نواب‘ تسنیم بلگرامی اور الیاس سیتا پوری جیسے عظیم لکھاری سامنے آئے اور ایسے ایسے شاندار قسط وار سلسلے شروع کئے کہ لوگ ”ایڈکٹ“ ہوتے چلے گئے‘ لاکھوں لوگ ہر مہینے ڈائجسٹ کا انتظار کرتے تھے‘ ناولوں میں بھی یہی صورت حال تھی‘ ابن صفی‘مظہر کلیم اور اشتیاق احمد جیسے لکھاریوں نے سیریز لکھنا شروع کیں اور کمال کر دیا‘ یہ لوگ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ تک پہنچ گئے‘ ابن صفی نے زندگی میں ساڑھے پانچ سو‘ ایم کلیم نے 407 اور اشتیاق احمد نے 800ناول لکھے اور یہ عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی‘ آپ کتابوں کی تعداد سے ان لوگوں کے ٹیلنٹ اور محنت کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ اس زمانے میں اس کتاب کو کتاب اور اس ناول کو ناول نہیں سمجھا جاتا تھا جس کا سیکوئل نہیں آتا تھا چنانچہ ہمارے بچپن میں رابعہ اور پھر رابعہ کی واپسی جیسے فقرے عام تھے‘ ہم جو بھی ناول پڑھتے تھے ہمیں یقین ہوتا تھا اس ناول کا سیکوئل بھی ضرور آئے گا‘ اس زمانے میں برطانوی مصنف ایچ رائیڈر ہیگرڈ کا ناول شی پاکستان میں بہت مشہور ہوا۔ ”آشا“ کے نام سے اس کا ترجمہ ہوا اور یہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا‘ آشا کی پاپولیرٹی سے متاثر ہو کر کسی ستم ظریف نے ”آشا کی واپسی“ کے نام سے بھی ایک کتاب شائع کر دی‘ یہ کتاب بھی ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئی۔
ٹارزن ہر دور میں بچوں کا محبوب کردار رہا‘ یہ ہمارے دور میں بھی مشہور تھا‘ ٹارزن کے نام سے بھی درجنوں ناول شائع ہوئے اور یہ بھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئے‘ مارکیٹ میں جب ٹارزن کا نام بکنا شروع ہو گیا تو پبلشرز نے ”ٹارزن کی واپسی“ کے نام سے بھی ناول چھاپنا شروع کر دیئے‘ میں اس زمانے میں اپنا زیادہ تر وقت لائبریریوں اور بک سٹالز پر گزارتا تھا‘ میرا ایک دوست بھی میرے ساتھ لائبریریوں میں دھکے کھاتا تھا لیکن دلچسپ بات یہ تھی وہ کتابیں پڑھنے کا بالکل شوقین نہیں تھا۔
وہ میرے ساتھ لائبریری میں جاتا تھا‘ میں کتابیں پڑھتا تھا اور وہ خاموش بیٹھ کر مکھیاں مارتا رہتا تھا‘ میں نے ایک دن دیکھا وہ بک شیلف کے قریب کھڑا تھا‘ وہ پہلے ”آشا“ اٹھاتا تھا پھر ”آشا کی واپسی“ اٹھا کر دیکھتا تھا‘ وہ پھر ٹارزن کے ریک کی طرف جاتا تھا‘ ٹارزن کے ناول اٹھاتا تھا اور پھر ”ٹارزن کی واپسی“ اٹھا کر دیکھتا تھا‘ مجھے اس کے چہرے پر سراسیمگی اور پریشانی بھی دکھائی دے رہی تھی‘ میں دیر تک اسے دیکھتا رہا‘ وہ جب اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو میں اٹھ کر اس کے قریب گیا اور سرگوشی میں پوچھا ”مجیدے آخر تیرا مسئلہ کیا ہے“۔
مجیدے نے سر کھجایا اور چاروں کتابیں میرے سامنے رکھ کر بولا ”میں ایک بات سے پریشان ہوں‘ یہ آشا اور یہ ٹارزن آخر گئے کہاں تھے جہاں سے یہ واپس آئے ہیں“ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ انسان اگر ایک بار ٹارزن ہو جائے تو یہ جاتا بھی ضرور ہے اور پھر یہ واپس بھی ضرور آتا ہے“۔اسد عمربھی ایک ایسے ہی ٹارزن ہیں‘ یہ آئے ہی واپس جانے کےلئے تھے لیکن یہ جاتے جاتے ملک کی معیشت‘ سرمایہ کاروں کا اعتماد‘ انقلاب کا رومان اور عمران خان کی ساری کریڈیبلٹی بھی ساتھ لے گئے۔
یہ اکیلے ملک کو دو ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچا گئے‘ سرمایہ کاروں کا اعتماد‘ ٹیکس پیئرز کی عزت نفس‘ سٹاک مارکیٹ کی ساکھ‘ بینکوں کا کانفی ڈینس‘ صنعت کاروں کی حب الوطنی اور تاجروں کے جذبات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ علاوہ نقصانات خفیہ چوٹوں کی طرح ہیں‘ یہ دس بارہ سال تک ملک کے ہر شہری کو اٹھتے بیٹھتے ہر بار محسوس ہوں گے‘ ہم جس طرح اپنے کھیتوں کو سیلاب سے پہلے اور سیلاب کے بعد دو ادوار میں دیکھتے ہیں ہم بالکل اسی طرح مدت تک اپنی معیشت کو بھی اسد عمر سے پہلے اور اسد عمر کے بعد دو حصوں میں رکھ کر دیکھتے رہیں گے۔
اسد عمر کو دنیا جہاں کا نالج تھا‘ انہیں بس ایک چیز کا پتہ نہیں تھا اور وہ چیز تھی معیشت اور ہم نے اس اناڑی کو بوئنگ 747 کی ڈرائیونگ سیٹ پر بھی بٹھا دیا اور یہ 9 مہینے جہاز بھی اڑاتے رہے لیکن آپ کمال دیکھئے اسد عمر نوماہ میں پائلٹ نہیں بن سکے تاہم جہاز کا کوئی پرزہ سلامت نہیں رہا‘ ان کے آخری دو حادثے آئی ایم ایف پیکج اور ایمنسٹی سکیم تھے‘ یہ اپنی پوری ٹیم کی شبانہ روز محنت کے باوجود نو ماہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ پیکج فائنل نہیں کر سکے۔
یہ 9 اپریل کو آئی ایم ایف سے حتمی مذاکرات کےلئے امریکا گئے لیکن وہاں امریکی وزارت خزانہ کے کسی بڑے افسر نے ان سے ملاقات کی اور نہ ہی آئی ایم ایف کی سربراہ اور اس کے کسی اہم نمائندے نے ان سے مذاکرات کئے‘ یہ تیسرے اور چوتھے درجے کے لوگوں سے مل کر واپس آگئے اور پاکستان میں آ کر اعلان کر دیا ”ہمارا آئی ایم ایف سے پیکج فائنل ہو گیا“ ٹیلی ویژن چینلز میں بریکنگ نیوز اور اخبارات میں ہیڈ لائینز چل گئیں‘ اگلے دن آئی ایم ایف نے اس خبر کی تردید کر دی۔
یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا لیکن اسد عمر نے اس کے بعد بھی ایک اور تنکا رکھ دیا‘یہ دن رات کی محنت کے باوجود ایمنسٹی کا ڈرافٹ تیار نہ کرا سکے‘ کابینہ میں جو ڈرافٹ پیش کیا گیا وہ پرانے ڈرافٹس کا چربہ تھا‘ وہ ”کٹ پیسٹ“ تھا‘یہ تنکا فائنل ثابت ہوا‘ عالمی ادارے بھی اسد عمر کی کارکردگی سے سر پکڑ کر بیٹھ چکے تھے ‘دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی تھی لیکن عمران خان اس کے باوجود اسد عمر کو پائلٹ کی سیٹ سے اٹھانے کےلئے تیار نہیں تھے چنانچہ یہ فیصلہ پھر قوم کے وسیع تر مفاد میں کرنا پڑ گیا۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی عمران خان کو یہ خبر بھی ٹیلی ویژن کے ذریعے ملی تھی‘ حکومت دو دن تک اس خبر کی تردید کرتی رہی لیکن پھر جب ”ساری کشتی یا پھر کشتی کے بوجھ“ کا مرحلہ آ گیا تو حکومت نے بوجھ اتارنے کا فیصلہ کر لیا اور اسد عمر واپس جانے پر مجبور ہوگئے لیکن سوال یہ ہے کیا اسد عمر کے جانے سے حکومت کے مسائل ختم ہو جائیں گے‘ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ جواب ہے نہیں‘ کیوں؟کیونکہ وزیراعظم پر سات عہدیدار تبدیل کرنے کےلئے دباﺅ ہے۔
پنجاب میں عثمان بزدار اور کے پی کے میں محمود خان بری طرح ہٹ لسٹ پر ہیں‘ وزارت داخلہ بھی اس وقت آٹو پر چل رہی ہے‘یہ وزارت اکیلے شہریارآفریدی کے بس کی بات نہیں‘ وزیر دفاع پرویز خٹک نیب کے نشانے پر ہیں‘ پشاور میٹرو کا کیس کسی بھی وقت کھل جائے گا اور یہ بھی علیم خان کی طرح زیر حراست ہوں گے اور پٹرولیم کی وزارت میںغلام سرور خان بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں‘ یہ تمام وزارتیں ”ری شفل“ ہو رہی ہیں تاہم میں شاہ محمود قریشی کی خبر پر حیران ہوں‘یہ عمران خان کی ناراضی کا شکار ہیں اور یہ ناراضی کسی بھی وقت وزارت خارجہ میں بھی خوفناک بحران پیدا کر دے گی۔
ہم دوبارہ اس سوال کی طرف آتے ہیں کیا یہ تبدیلیاں ملک کو بحران سے نکال دیں گی‘ میرا خیال ہے نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ایشو لوگوں کی نیت میں نہیں لوگوں کی اپروچ میں ہے‘ یہ لوگ بنیادی طور پر ناتجربہ کار بھی ہیں‘ اہلیت کے خوفناک فقدان کا شکار بھی ہیں اور یہ متکبر بھی ہیں اور یہ تینوں چیزیں جہاں اکٹھی ہو جاتی ہیں وہاں تباہی آ جاتی ہے‘ آپ حکومت کے تمام وزراءکا تجزیہ کر لیں آپ کو 90 فیصد لوگوں کی گردنوں میں سریا ملے گا‘ قوم شاید یہ سریا بھی برداشت کر لیتی لیکن دوسری طرف ان کی پرفارمنس انتہائی ناقص ہے۔
یہ ملک کو گھسیٹ گھسیٹ کر کھائی کے دہانے تک لے آئے ہیں اور یہ حقیقت ہے دنیا کا انتہائی ٹھنڈے مزاج کا شخص بھی کسی نالائق اور ناتجربہ کار شخص کو تکبر کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتا چنانچہ حکومت کو جلد یا بدیر یہ لوگ یا ملک دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا پڑے گا‘ ان کی جگہ تجربہ کار‘ اہل اور منکسرالمزاج لوگ لانا ہوں گے‘ یہ تمام ٹارزن شام سات بجے کے بعد مریخ پر لینڈ کر رہے ہوتے ہیں‘پاکستان کا ٹوٹل بجٹ ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے سالانہ ہے لیکن یہ ٹارزن ملک کے 60 ہزار ارب روپے واپس لانا چاہتے ہیں۔
یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے ایرانی صدرہاشمی رفسنجانی 8 جنوری 2017ءکو انتقال کر گئے تھے‘ یہ 2019ءمیں عمران خان کی ان سے ملاقات کرانا چاہتے ہیں‘یہ سوئس بینکوں سے دو سو ارب ڈالر واپس لا کر سو ارب ڈالر فلاں اور سو ارب ڈالر فلاں کے منہ پر مارنا چاہتے ہیں‘ یہ بے روزگاری کے سمندر میں غوطے کھاتے لوگوں پر نوکریوں کی بارش کرنا چاہتے ہیں اور یہ کراچی کے آف شور پٹرول پر نظریں جما کر بیٹھے ہیں‘ آپ کو بہرحال ان تمام ٹارزنوں کو واپس بھجوانا پڑے گا‘ ملک ”سیریس بزنس“ ہوتے ہیں‘ یہ اناڑیوں کے حوالے نہیں کئے جاتے۔
آپ ان کے پروفائل نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو ان میں سے 80 فیصد لوگ ذاتی زندگی میں بری طرح ناکام ملیں گے‘ یہ سارے اسد عمر ہیں‘ یہ آج تک دکان نہیں چلا سکے اور ہم نے پورا ملک ان کے حوالے کر دیا‘ اس طرح تو کوئی کسی کو اپنی سائیکل نہیں دیتا اور ہم نے انہیں حساس ترین عہدوں پر بٹھا دیا‘ہم نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہ ملک ‘ملک کہلانے کے قابل نہیں رہے گا‘ بہرحال اچھی خبر یہ ہے ٹارزن کی واپسی شروع ہو چکی ہے‘ کھلاڑی واپس جا رہے ہیں‘ کھلاڑیوں کی واپسی سے مسئلہ حل ہو گیا تو شکر الحمدللہ ورنہ دوسری صورت میں کپتان بھی جائے گا۔