جیمز پیرٹ پہلا شخص تھا‘ وہ تاریخ کا تیز رفتار ترین ایتھلیٹ تھا‘ وہ 9 مئی 1770ء کو لندن میں دوڑا اور اس نے چار منٹ میں ایک میل طے کر کے ریکارڈ قائم کر دیا‘یہ انسانی تاریخ کی تیز ترین دوڑ تھی‘ دنیا نے جیمز پیرٹ کی وجہ سے مان لیا انسان چارمنٹ سے کم وقت میں ایک میل طے نہیں کر سکتا‘ گلین کیو ننگھم دوسرا شخص تھا‘اس نے ڈیڑھ سو سال بعد جیمز پیرٹ کاریکارڈ توڑنے کا فیصلہ کیا‘ پریکٹس کی‘ دوڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکا‘ وہ اپنے دور کا سٹار ایتھلیٹ تھا‘ وہ ناکام ہوا تو چار منٹ فی میل کی حد پر مہر لگ گئی‘۔
یہ طے ہو گیا چارمنٹ میں ایک میل انسانی ٹانگوں اور پھیپھڑوں کی انتہا ہے‘ دنیا میں اس کے بعد لوگوں نے کوشش ہی ترک کر دی لیکن راجر بینسٹر آیا اور اس نے یہ چیلنج قبول کر لیا۔راجربینسٹر بھی برطانوی تھا‘ 1929ء میں لندن میں پیدا ہوا‘ جوان ہوا تو قد چھٹ فٹ اور دو انچ نکلا‘ آکسفورڈ یونیورسٹی میں میڈیکل میں داخلہ لے لیا‘ ایتھلیٹکس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی‘ وہ ایم بی بی ایس کر کے نروس سسٹم میں سپیشلائزیشن کرنا چاہتا تھا‘ سپورٹس میں یہ روایت حقیقت سمجھی جاتی ہے اگر کوئی کھلاڑی ایک بار رنگ سے باہر نکل جائے تو وہ میدان میں دوبارہ واپس نہیں آ سکتا لیکن 1945ء میں ملر سڈنی ووڈرسن نے یہ متھ توڑ دی‘ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران تمام جوان مردوں کو فوج میں بھرتی کر لیا تھا‘ ملر سڈنی ووڈرسن برطانیہ کا کامیاب ترین ایتھلیٹ تھا‘وہ 1936ء کے اولمپکس میں شریک ہوا‘ ماہرین کا خیال تھا سڈنی ووڈرسن 1500میٹر کی دوڑ میں سونے کا تمغہ جیت جائے گا لیکن وہ ٹخنے کی انجری کی وجہ سے ریس میں شریک نہ ہو سکاتاہم1937 میں اس نے 800میٹر اور880گز کی دوڑ میں ایک منٹ 48سکینڈ اور چارنینو سیکنڈ اور ایک منٹ 49سیکنڈ اور دو نینو سیکنڈ کے ورلڈ ریکارڈ بنائے لیکن بعد ازاں وہ بھی فوج میں زبردستی بھرتی کر لیا گیا‘ ملرسات سال مختلف محاذوں پر لڑتا رہا‘ وہ اس دوران پریکٹس بھی نہ کر سکا اور اس کا وزن بھی بڑھ گیا‘ جنگ عظیم دوم ختم ہوئی‘سڈنی ووڈرسن واپس آیا اور اس نے چند ماہ میں اپنی پرانی پوزیشن بحال کر لی۔
یہ سپورٹس اور میڈیکل دونوں شعبوں کیلئے حیران کن واقعہ تھا‘ یہ کیس آکسفورڈ کے میڈیکل کالج میں ڈسکس ہوا‘ راجر بینسٹر نے سنا اور اس نے ایتھلیٹ بننے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ اگلے دن گراؤنڈ میں گیا اور پریکٹس شروع کر دی‘ وہ ہفتے میں تین دن آدھ گھنٹے ٹریننگ کرتا تھا اور دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا تھا‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی کا سٹار ایتھلیٹ بن گیا‘ 1948ء میں لندن میں اولمپکس ہوئے‘ راجر بینسٹر ان میں شریک ہوا لیکن وہ عین وقت پر ڈراپ کر دیا گیا۔
وہ اگر عام ایتھلیٹ ہوتا تو یہ صدمہ اس کا حوصلہ توڑ دیتا لیکن بینسٹر ایک مختلف انسان تھا‘ اس نے اگلے‘ اگلے اور پھر اگلے مقابلوں کی منصوبہ بندی کر لی اور وہ ریس کے ہر مقابلے میں شریک ہونے لگا‘ راجر بینسٹر یورپین چیمپیئن شپ میں 800 میٹر کی دوڑ میں شریک ہوا اور یہ فاصلہ ایک منٹ 50 سکینڈ اور 7 نینو سکینڈ میں طے کر کے تیسری پوزیشن حاصل کر لی‘ وہ 1952ء میں ہیلسنکی اولمپکس میں شریک ہوا لیکن وہ 1500 میٹر کی ریس ہار گیا اور یہ وہ ہار تھی جس سے دنیا کے ایک حیران کن ریکارڈ ہولڈر نے جنم لیا۔
راجر بینسٹر نے چار منٹ سے کم وقت میں ایک میل طے کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ ہم کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں ایک میل میں 1760 گز یا 1609 اعشاریہ 34 میٹر ہوتے ہیں اور انسان کیلئے یہ فاصلہ چار منٹ میں طے کرنا ممکن نہیں ہوتا‘ اللہ تعالیٰ نے ہماری ٹانگوں‘ پاؤں اور گھٹنوں کے جوڑوں اور ہماری ران اور دھڑ کی ہڈی میں اتنی طاقت نہیں رکھی‘ ہمارے پھیپھڑے اور ہمارا دل بھی چار منٹ فی میل سے زیادہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتا۔
م انسان اگر کوشش بھی کریں تو بھی ہماری ٹانگیں جواب دے جائیں گی اور ہم اگر پھر بھی ٹانگوں کے الارم پر توجہ دیئے بغیر بھاگتے رہیں تو ہمارے دل اور پھیپھڑوں کے پھٹنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ یہ ممکن نہیں تھا‘ دوسرا دنیا بھر کے ایتھلیٹس کا خیال تھا تاریخ میں اگر جیمز پیرٹ اور گلین کیوننگھم جیسے لیجنڈ یہ نہیں کر سکے تو پھر کوئی ایتھلیٹ نہیں کر سکے گا‘ یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو چکا ہے تاہم راجر بینسٹر کے دور میں دو ایتھلیٹ اس ٹارگٹ کے قریب پہنچے لیکن وہ بھی یہ ٹارگٹ اچیو نہیں کر سکے۔
سویڈش ایتھلیٹ گوندر ہاگ نے چار منٹ دو سیکنڈ اور 6 نینو سیکنڈ میں ایک میل کا فاصلہ طے کیا تھا جبکہ امریکی ایتھلیٹ ویس سینٹ چار منٹ دو سیکنڈ اور چار نینو سیکنڈ تک پہنچ سکا تھا لہٰذا جب راجر بینسٹر نے یہ اعلان کیا تو پوری دنیا نے اسے پاگلوں کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا مگر وہ ڈٹا رہا اور پھر 6 مئی 1954ء کا وہ دن آ گیا جب 184 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا اور انسان نے پہلی بار چار منٹ سے کم وقت میں ایک میل کا فاصلہ طے کر کے نئی تاریخ رقم کر دی۔
یہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا گراؤنڈ تھا‘ تین ہزار تماشائی موجود تھے اور راجر بینسٹر ان کے سامنے ایتھلیٹکس کی تاریخ کا جمود توڑنے کیلئے موجود تھا‘ ریس شروع ہونے سے پہلے 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا چلنے لگی‘ ہوا کا دباؤ زیادہ تھا چنانچہ راجر بینسٹر نے دو بار ریس میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا لیکن آپ معجزہ دیکھئے‘ ریس شروع ہونے سے چند منٹ پہلے ہوا بند ہو گئی‘ گراؤنڈ کلیئر ہو گیا‘ راجر بینسٹر نے دوڑنا شروع کیا اور اس نے 3 منٹ 59 سیکنڈ اور 4 نینو سیکنڈ میں ایک میل طے کر کے 184 سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔
وہ تاریخ کا پہلا انسان بن گیا جس نے چار منٹ کا بیریئر توڑا تھا‘ یہ ایتھلیٹکس کی تاریخ کا حیران کن واقعہ تھا‘ وہ پوری دنیا میں مشہور ہو گیالیکن اس کا یہ ریکارڈ محض ڈیڑھ ماہ قائم رہ سکا‘ آسٹریلین ایتھلیٹ جان لینڈے نے چوالیس دن بعد 21 جون 1954ء کوفن لینڈ کے شہر ترکو میں اس کایہ ریکارڈتوڑ دیا‘ اس نے ایک میل کا فاصلہ3 منٹ57 سیکنڈ اور9نینو سیکنڈ میں طے کیا‘ 30 جولائی 1954ء کو وینکور میں برٹش ایمپائر اینڈ کامن ویلتھ گیمزہونا تھیں۔
انتظامیہ نے دونوں ایتھلیٹس کو مقابلے کی دعوت دے دی‘7 اگست کو دونوں ایتھلیٹ وینکور میں ایمپائر سٹیڈیم میں بھاگے‘ یہ دونوں فنشنگ لائین کے قریب پہنچے تو جان لینڈے سے ایک غلطی ہو گئی‘ وہ غیر ارادی طور پر گردن گھما کر دائیں جانب دیکھ بیٹھا اور اولمپکس اور ڈرائیونگ میں نینو سیکنڈز کی یہ غلطیاں مہلک ثابت ہوتی ہیں‘ جان لینڈے دو سیکنڈ سے مار کھا گیا‘ وہ چار منٹ دو سیکنڈ میں ایک میل تک پہنچا جبکہ راجر بینسٹر نے اس بار بھی 3 منٹ 59 سیکنڈ اور چار نینو سیکنڈ کا ریکارڈ برقرار رکھا‘ وینکور کے ایمپائر سٹیڈیم کے باہر آج بھی راجر بینسٹر اور جان لینڈے کے مجسمے لگے ہیں۔
جان لینڈے کا مجسمہ دائیں دیکھ رہا ہے جبکہ راجر بینسٹر سیدھا دوڑ رہا ہے۔راجر بینسٹر کے ریکارڈ کے بعد دنیا میں ایک نئی کہانی شروع ہو گئی‘دنیا نے جان لیا چارمنٹ میں ایک میل کا بیریئر ٹوٹ سکتا ہے چنانچہ اس کے بعد لائین لگ گئی‘ ایتھلیٹس آتے رہے اور نئے ریکارڈ قائم ہوتے رہے یہاں تک کہ نیوزی لینڈ کے جان واکر نے 1975ء میں ایک میل کا فاصلہ تین منٹ 49 سیکنڈ اور 4 نینو سیکنڈ میں طے کر کے 50 سیکنڈ کا بیریئر بھی توڑ دیا‘ امریکی ایتھلیٹ نورو دین مورسلی اس ریکارڈ کو 3 منٹ اور 45 سیکنڈ تک لے گیا اور مراکش کے ایتھلیٹ ہاشم الگیوروجا نے یہ فاصلہ تین منٹ 43سیکنڈ اور 13 نینو سیکنڈ میں طے کر کے نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔
جم رون ہائی سکول کا طالب علم تھا‘ وہ دنیا کا پہلا بچہ تھا جس نے یہ ریکارڈ توڑ دیا‘ دنیا میں اب تک 14 سو لوگ یہ ریکارڈ توڑ چکے ہیں‘ ان میں سکول کے17 طالب علم بھی شامل ہیں یوں جیمز پیرٹ کے ریکارڈ کو ٹوٹنے میں 184 سال لگ گئے لیکن راجر بینسٹر کا ریکارڈ 64 برسوں میں 14 سو مرتبہ ٹوٹا اور توڑنے والوں میں 17 بچے بھی شامل ہیں‘ یہ فرق کیوں اور کیا ہے؟ یہ سوچ کا فرق تھا‘ دنیا جیمز پیرٹ اورگلین کیوننگھم کو ایتھلیٹکس کا دیوتا سمجھتی تھی‘ دنیا نے جب دیکھا یہ دونوں بھی چار منٹ سے نیچے نہیں جا سکے تو پھر دنیا میں کوئی شخص یہ جسارت نہیں کر سکے گا لیکن جب میڈیکل کے ایک عام سے طالب علم راجر بینسٹر نے یہ ریکارڈ توڑ دیا تو پھر دنیا بھر کے ایتھلیٹس کو راستہ مل گیا اور یہ اس راستے پر دوڑتے چلے گئے۔
آپ یہ کہانی پڑھیں اور اپنے آپ سے صرف ایک سوال کریں اگر راجر بینسٹر اور 14 سو ایتھلیٹس وہ کام کر سکتے ہیں جس کی قدرت نے انسانی جسم میں اہلیت نہیں رکھی تھی تو پھر آپ کیا کیا نہیں کرسکتے! آپ نے تو صرف غربت‘ پسماندگی اور ناکامی سے باہر آنا ہے اور یہ چار منٹ فی میل سے بہت چھوٹے اور معمولی کام ہیں‘ آپ اگر راجر بینسٹر کی مثال کے بعد بھی غریب‘ مایوس اور ناکام ہیں تو پھر آپ پوری زندگی خوش حال نہیں ہو سکتے‘ آپ غربت ہی میں مریں گے‘ کیوں؟ کیونکہ آپ نے غربت کو مقدر بنا لیا ہے اور جو شخص ناکامیوں کو اپنا مقدر بنا لے اس کی حالت قدرت بھی نہیں بدل سکتی۔