دنیا کے تمام والدین اپنے بچوں اور تمام بچے اپنے والدین کو فرشتے‘ ہیرو اور ٹیپو سلطان سمجھتے ہیں‘ مجھے بھی اپنے والد میں یہ ساری خوبیاں نظر آتی تھیں اور وہ بھی مجھے دنیا کا شاندار ترین بیٹا سمجھتے تھے لیکن بات اس احساس سے کہیں آگے ہے‘ میں لفظوں کا بیوپاری ہوں‘ میں نے پوری زندگی لفظ بوئے اور لفظ کاٹے ہیں ‘ میں آج اگر چاہوں تو میں اپنے والد کے انتقال پر ایک جذباتی کالم لکھ کر آپ سب کو واہ واہ اور سبحان اللہ سبحان اللہ پر مجبور کر سکتا ہوں۔
میں ثابت کر سکتا ہوں میرے والد ایک اساطیری کردار اور قرون اولیٰ کے مسلمان تھے اور ان کا سینہ ایمان اور دماغ دانش کا عظیم خزانہ تھا لیکن میں نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا ہے اصل چیزیں اور اصل باتیں مشکل نہیں ہوتیں‘ یہ سادہ ترین ہوتی ہیں‘ آپ کو جہاں ہوا کو بادصبا اور لٹکنے کو آویزاں لکھنا پڑ جائے آپ وہاں منافقت کرتے ہیں اور میرے والد نے مجھے زندگی میں جو چار چیزیں سکھائی تھیں ان میں پہلی چیز منافقت سے نفرت تھی چنانچہ میں آج لفظوں کے دریا بہا کر ان کی ٹریننگ کی توہین نہیں کرنا چاہتا‘میں آج کے کالم کو کاروبار یا بیوپار نہیں بنانا چاہتا‘ یہ میری زندگی کا سادہ ترین کالم ہے۔میرے والد میرے والد کم اور استاد زیادہ تھے‘ میں نے زندگی میں اگر کسی سے کچھ سیکھا تو وہ میرے والد تھے‘ میں نے زندگی میں ہزاروں کتابیں پڑھیں‘ میں دنیا کے درجنوں مشاہیر سے ملا اور میں نے آدھی سے زیادہ دنیا دیکھی لیکن آپ یقین کیجئے مجھے اس پوری دنیا میں اپنے والد جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں ملا‘میرے والد نے دنیا میں کوئی ملک نہیں بنایا‘ کوئی ادارہ‘ کوئی تنظیم‘ کوئی فرقہ اور کوئی بزنس گروپ نہیں بنایا لیکن وہ اس کے باوجود ایک عظیم انسان تھے‘ کیسے؟ آپ ملاحظہ کیجئے‘ دنیا میں صرف دس فیصد لوگ اپنی زندگی کو ٹرانسفارم (تبدیل) کر پاتے ہیں جبکہ باقی نوے فیصد لوگ کسان پیدا ہوتے ہیں اور کسان مرتے ہیں‘ مزدور پیدا ہوتے ہیں اور اگلی نسل کو بھی اوزار پکڑا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔
کلرک کا بیٹا کلرک‘ افسر کا بیٹا افسر‘ تاجر کا بیٹا تاجر‘ سیاستدان کا سیاستدان‘ مولوی کا مولوی اور فوجی کا بیٹا عموماً فوجی ہوتا ہے‘ ہم میں سے صرف دس فیصد لوگ یہ تسلسل توڑ پاتے ہیں لیکن میرے والد نے اپنی زندگی میں چار ٹرانسفارمیشنز کیں اور لوگوں کو حیران کر دیا‘ وہ دشمنیوں میں پیدا اور جوان ہوئے‘ یہ ایک آدھ نسل کا ایشو نہیں تھا‘ یہ چار پانچ نسلوں کا تسلسل تھا‘ میں پورے خاندان کا پہلا بچہ تھا‘ میری عمر دو سال تھی‘ یہ ایک دن اٹھے‘ مجھے اور میری والدہ کو لیا‘ نسلوں کی دشمنیوں پر ہاتھ پھیرا اور گاﺅں چھوڑ دیا اور پھر باقی زندگی کوئی دشمنی پالی اور نہ کسی ہتھیار کو ہاتھ لگایا۔
میں نے بچپن میں ایک بار ائیر گن خرید لی‘ میرے والد نے اس دن مجھے پہلا تھپڑ مارا‘ یہ ان کی پہلی ٹرانسفارمیشن تھی‘ میں سکول جانے والا خاندان کا پہلا بچہ تھا‘ وہ یونیورسٹی تک مجھے خود چھوڑ کر آتے تھے‘ ہم تمام بہن بھائیوں نے زندگی میں تعلیم کے نام پر جو مانگا میرے والد نے فوراً دے دیا‘ ہم ان سے تین تین بار فیس اینٹھ لیا کرتے تھے اور وہ حساب تک نہیں کرتے تھے۔ ان کی دوسری ٹرانسفارمیشن زراعت سے بزنس تھی۔
وہ پانچ ہزار سال سے کسان تھے‘ زمین‘ فصل اور جانور ان کے جینز کی میموری تھے مگر وہ ایک دن اٹھے‘ زراعت کو زندگی سے نکالا‘ کاروبار شروع کیا اور پھر زندگی میں کبھی کاشت کاری کی طرف واپس نہیں گئے‘ زمین لوگ لے گئے‘ ہمارے ڈیرے کی اینٹیں تک لوگوں نے اکھاڑ دیں لیکن والد نے زندگی میں کبھی شکایت نہ کی‘ درجن بھر گھر بنائے مگر کسی میں لان نہیں بنایا‘گملے میں بھی پودا نہیں لگایا‘ میں نے ڈرتے ڈرتے ہمت کی مگر وہ میرے گھر میں کمرے میں رہتے تھے‘ لان میں نہیں جاتے تھے۔
والد نے کاروبار میں بے تحاشہ پیسہ کمایا‘ اتنے نوٹ گنے کہ انگلی کی پہلی پور کے نشان مدہم پڑ گئے‘ ہم تمام بہن بھائیوں نے بچپن میں اتنی رقم دیکھ لی کہ ہمارے اندر سے لالچ ختم ہو گیا‘یہ کاروبار اباجی کی تیسری ٹرانسفارمیشن تھی‘ میں 1992ءمیں لاہور سے اسلام آباد آ گیا‘ ہم پانچ چھ لڑکے چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے‘ زمین پر چٹائیاں بچھا کر سوتے تھے‘ یہ مجھے ملنے آئے‘ مجھے زمین پر سویا ہوا دیکھاتو سیدھے سی ڈی اے کے آکشن میں بیٹھ گئے‘ دو پلاٹس خریدے اور گھر بنانا شروع کر دیا۔
گھر مکمل ہوا تو لالہ موسیٰ میں اپنی ساری پراپرٹی بیچ دی اور پورے خاندان کو ساتھ لے کر اسلام آباد آ گئے‘ کاروبار بھی بند کر دیا اور پھر کبھی اس طرف مڑ کر نہیں دیکھا‘کاروبار کے دور کے تمام تعلقات تک منقطع کردیئے اور یہ ان کی چوتھی ٹرانسفارمیشن تھی‘ میں نے زندگی میں کسی شخص میں اتنی ٹرانسفارمیشنز نہیں دیکھیں‘ ایک ہی خاندان میں پچاس سال میں اتنی تبدیلیاں اگر ناممکن نہیں ہیں تو مشکل ضرور ہیں‘ ہم لوگ 50 سال پہلے جاہل ہوتے تھے اور ہم آج الحمد للہ پورا خاندان علم کی شاہراہ پر ہیں‘ میرے بیٹے کو آج گوگل اور فیس بک لیکچر کےلئے بلاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے والد کو 84 سال زندگی دی‘ یہ 84 سال انہوں نے ہیرو اور لیڈ ر کی طرح گزارے‘ہم آٹھ بہن بھائی ہیں‘ ہم سب اپنے والدین کے پاس تھے‘ میرے دو بھائی ملک سے باہر چلے گئے تھے‘ ایک کو خود واپس شفٹ کرایا اور دوسرے کے بارے میں کہتے تھے یہ بھی ضرور واپس آئے گا اوروہ بھی مستقل واپس آ گیا‘ ہمیں ان کی یہ حکمت ان کے انتقال کے وقت سمجھ آئی‘ وہ صبح تین بجے دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم نے شام چار بجے ان کا جنازہ پڑھ لیا‘ ہمیں جنازے کےلئے کسی کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔
ہم سب ان کے پاس تھے‘ وہ پوری زندگی ”انڈی پینڈنٹ“ رہے چنانچہ تدفین کےلئے بھی رقم چھوڑ کر گئے تھے‘ آخری تین سال بیمار رہے‘ دل بیس فیصد کام کرتا تھا‘ شوگر چھ ساڑھے چھ سو تک چلی جاتی تھی‘ بینائی تقریباً ختم ہو گئی تھی‘ ہاتھوں میں رعشہ تھا اور آخر میں گردے بھی کمزور ہو گئے تھے لیکن آپ سیلف کنٹرول کی انتہا دیکھئے‘ ٹانگیں بدن کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی تھیں لیکن واش روم جانا ہوتا تھا تو ٹانگوں میں باقاعدہ جان آ جاتی تھی‘ خود اٹھ کر جاتے تھے اور خود واپس آتے تھے۔
پیشاب کے بیگ‘ ڈائیلاسز اور میڈیکل بیڈ سے نفرت تھی‘ ڈاکٹر نے آخر میں مجھے فون کر کے بتایا‘ ہمارے پاس اب ڈائیلاسز اور میڈیکل بیڈ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘ میں نے ڈائیلاسز اور میڈیکل بیڈ کا بندوبست کر لیا‘ بیڈ ان کے کمرے میں لگا دیا گیا‘ اگلے دن ڈائیلاسز ہونا تھا‘ ڈاکٹر سے کہا‘ مجھے ایک دن کےلئے گھرجانے دیں‘ میں کل ڈائیلاسز کرا لوں گا‘ ڈاکٹر نے اجازت دے دی‘ میں نے عرض کیا‘ آپ میرے گھر آ جائیں‘ میں نے بیڈ لگوا دیا ہے‘ کہا میں کل آ جاﺅں گا اور وہ اپنے گھر چلے گئے اور اس رات ڈائیلاسز سے پہلے انتقال کر گئے۔
اباجی نے فیصلہ کیا تھا وہ یورین بیگ لگوائیں گے‘ ڈائیلاسز کروائیں گے اور نہ ہی میڈیکل بیڈ پر لیٹیں گے چنانچہ وہ ان تینوں مراحل سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے‘ یہ ڈسپلن ان کی زندگی کی روٹین تھی‘وہ جو صحیح سمجھتے تھے وہ کرتے تھے‘ دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی تھی‘ وہ دوستیوں کے خلاف تھے‘ وہ کہتے تھے انسان جب بھی خراب ہوتا ہے دوستوں کے ہاتھوں ہوتا ہے لہٰذا وہ دوستوں کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔
وہ سب کے دوست تھے لیکن ان کا کوئی دوست نہیں تھا‘ وہ سب کی سنتے تھے‘ سب کی مدد بھی کرتے تھے لیکن اپنے لئے کسی سے مدد مانگتے تھے اور نہ اپنی تکلیف کسی کے ساتھ شیئر کرتے تھے‘ میں نے یہ گُر ان سے سیکھا‘ وہ بے انتہا صفائی پسند تھے‘ ہاتھ دھوئے بغیر کسی سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے‘ صفائی کا خیال نہ رکھنے والوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے‘ چھٹی حس بہت تیز تھی‘ لوگوں کو دیکھ کر ان کی فطرت سمجھ جاتے تھے۔جرات اور بے خوفی یہ دونوں ان کی زندگی میں انتہا کو چھوتی تھیں۔
رسک لے جاتے تھے اورخطرناک ترین رسک سے مکمل محفوظ نکل آتے تھے‘ خوش نصیب تھے‘ زندگی کے مشکل ترین مراحل عبور کر گئے‘ اللہ تعالیٰ نے اولاد‘ خوش حالی اور صحت تینوں سے نوازہ اور انہوں نے جی بھر کر انجوائے کیا‘ زندگی میں صرف دو خواہشیں کیں‘ مجھے ایک دن کہنے لگے‘ میں نے پوری زندگی غلامی میں گزار دی‘ ہم پہلے انگریزوں کے غلام تھے اور اب ان دیکھے انگریزوں کے غلام ہیں‘ میں زندگی میں ایک بار کوئی آزاد ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔
میں انہیں یورپ لے گیا‘ رانا بھگوان داس اس وقت چیف جسٹس تھے‘ وہ بھی ہمارے ساتھ روانہ ہو گئے‘ میں انہیں فرانس‘ اٹلی اور سپین لے کر گیا‘ وہ بڑی دیر تک مسجد قرطبہ میں بیٹھے رہے‘ رانا بھگوان داس ان کے آگے کھڑے ہو گئے اور والد صاحب نے ان کے پیچھے چھپ کر نماز بھی پڑھ لی اور دوسری خواہش ان کی تدفین سے متعلق تھی‘ وہ انتقال سے قبل ہماری والدہ کو بتا گئے تھے مجھے گاﺅں میں میرے بھائیوں اور والدین کے ساتھ دفن کر دینا‘ ہم انہیں اپنے قریب دفن کرنا چاہتے تھے تاکہ دعا کےلئے حاضر ہوتے رہیں لیکن والدہ نے جب وصیت کا بتایا تو ہم انہیں لے کر گاﺅں چلے گئے۔
تدفین کے وقت بار بار میرے ذہن میں آتا تھا‘ یہ آج سے 48 سال پہلے مجھے یہاں سے لے کر گئے تھے اور یہ آج مجھے ایک بار پھر یہاں لے آئے ہیں‘ ہم جہاں سے چلے تھے ہم پوری دنیا پھر کر دوبارہ وہاں آ گئے‘یقینا اس میں ان کی کوئی نہ کوئی حکمت ہو گی‘ مجھے روضہ رسول کے خادم نے نبی اکرم کے روضہ مبارک کی خاک عنایت کی تھی‘ یہ میری زندگی کا واحد اثاثہ تھی‘ ہم نے جب انہیں لحد میں اتارا تو یہ خاک ان کے منہ میں ڈال دی‘ میری نظر میں وہ پوری دنیا میں اس تحفے کے واحد حق دار تھے اور وہ یہ حق لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔
میری آپ تمام احباب سے درخواست ہے آپ درود شریف پڑھ کر ایک بار ان کےلئے مغفرت کی دعا فرما دیں‘ یہ آپ کا ہم سب پر احسان عظیم ہوگا۔ میرے والد فرشتہ تھے‘ ہیرو تھے اور نہ ہی ٹیپو سلطان تھے لیکن وہ اس کے باوجود میرے لئے سب کچھ تھے اور وہ سب کچھ اب میرے پاس نہیں رہا۔