گورنر صاحب نیچے آئے‘ مونچھوں کو تاﺅ دیا اور بھاری آواز میں بولے ”کل مال روڈ پر کوئی طالب علم نظر نہیں آنا چاہیے خواہ آپ کو جلوس روکنے کےلئے گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑ جائے“ ایس ایس پی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ گھبرا کر جیب میں رومال ٹٹولنے لگا‘ گورنر صاحب اپنے دفتر کی طرف چل پڑے‘ ایس ایس پی لپک کر ان کے پیچھے دوڑا اور سانس سنبھالتے سنبھالتے بولا ”سر لیکن مجھے اس کےلئے آپ کا تحریری حکم چاہیے ہو گا“ ۔
گورنر صاحب غصے سے دھاڑے ”کیا میرا زبانی حکم کافی نہیں“ ایس ایس پی کی گردن تک پسینے سے بھیگ گئی‘ وہ رک رک کر بولا ”سر ہم تحریری حکم کے بغیر گولی نہیں چلا سکتے“ گورنر نے غصے سے گردن ہلائی اور زور سے آواز لگائی ”سیکرٹری کہاں ہے!“ گورنر کی آواز پورے گورنر ہاﺅس میں گونجی‘ دھڑا دھڑ دروازے کھلے اور ہر قسم کا سیکرٹری پیش ہو گیا‘ گورنر نے سب کی طرف دیکھا اور اونچی آواز میں کہا ”میں نے ایس ایس پی کو سٹوڈنٹس پر گولی چلانے کا حکم دے دیا ہے‘ یہ جو کاغذ‘ جو تحریری حکم مانگیں آپ انہیں دے دیں لیکن مجھے کل مال روڈ پر کوئی طالب علم نظر نہیں آنا چاہیے اور جو آئے اسے زندہ واپس نہیں جانا چاہیے“ کوریڈور میں سراسیمگی‘ خوف اور پریشانی کے ڈھیر لگ گئے اور تمام افسر خوف سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔یہ گورنر نواب آف کالا باغ تھے‘ یہ 1960ءسے 1966ءتک پنجاب کے گورنر رہے‘ پاکستان اس وقت مغربی پاکستان ہوتا تھا اور نواب صاحب اس پورے مغربی پاکستان کے واحد گورنر تھے‘ یہ صرف چھ سال گورنر رہے لیکن پنجاب میں آج بھی ان کی انتظامی گرفت کی مثالیں دی جاتی ہیں‘ لوگ آج بھی کہتے ہیں پنجاب کی تاریخ میں حکمران صرف ایک ہی گزرا ہے اور وہ تھا نواب آف کالاباغ‘ نواب صاحب نڈر شخص تھے‘ ان کا ہر حکم کلیئر اور ڈائریکٹ ہوتا تھا اور وہ بعد ازاں اس کی ساری ذمہ داری بھی قبول کرتے تھے۔
یہ بھی مشہور تھا وہ حکم جاری کرنے کے بعد واپس نہیں لیتے تھے خواہ انہیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘ بیورو کریسی ان کی اس خو سے واقف تھی چنانچہ نواب صاحب نے جب طالب علموں پر گولی چلانے کا حکم دیا تو گورنر ہاﺅس سے لے کر سیکرٹریٹ تک سراسیمگی پھیل گئی‘ مال روڈ پر طالب علموں پر گولی چلانا اور پھر لاشیں اٹھانا کوئی آسان کام نہیں تھا‘ یہ سانحہ ملک کی بنیادیں تک ہلا سکتا تھا لیکن نواب صاحب کو سمجھانا ممکن نہیں تھا لہٰذا تمام افسر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
افسروں نے اس ایشو کا کیا حل نکالا؟ ہم آپ کو یہ بتائیں گے لیکن آپ پہلے اس واقعے کا پس منظر ملاحظہ کیجئے‘ یہ ایوب خان کا دور تھا‘ ملک میں طالب علموں نے حکومت کے خلاف تحریک شروع کر رکھی تھی‘ یہ سڑکوں پر نکلتے تھے‘ ایوب خان کے خلاف نعرے لگاتے تھے اور پولیس روکتی تھی تو یہ پتھراﺅ کر کے بھاگ جاتے تھے‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے لاہور پہنچ گیا‘ گورنمنٹ کالج کے طالب علموں نے مال روڈ پر جلوس نکالنے کا اعلان کیااور لاہور کے تمام کالجوں کے طالب علم ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
حکومت پریشان ہو گئی‘ گورنر صاحب نے جلوس سے ایک دن پہلے ایس ایس پی کو بلا لیا‘ یہ صبح رہائشی کمرے سے نکلے تو ایس ایس پی سیڑھیوں کے نیچے کھڑا تھا‘ گورنر نے اسے دیکھا اور حکم جاری کر دیا”جلوس نہیں نکلنا چاہیے خواہ طالب علموں پر گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑ جائے“ اور آپ باقی کہانی پڑھ چکے ہیں۔بیورو کریسی نے گورنر کو نتائج سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ نواب صاحب کو ذاتی ملازمین کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی گئی‘ نواب صاحب نے صاف انکار کر دیا۔
چیف سیکرٹری نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا لیکن جھاڑ کھا کر واپس آ گیا اور نواب صاحب کے صاحبزادے نے سمجھانے کی ہمت کی لیکن وہ بھی گالیاں کھا کر باہرآ گیا‘ گورنر صاحب نے شام کے وقت گولی چلانے کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا اور یہ حکم اخبارات اور پورے صوبے کی بیورو کریسی تک بھی پہنچ گیا‘ اگلی صبح لاہور کی بیورو کریسی کےلئے مشکل ترین دن تھا‘ پولیس نے مال روڈ گھیر لیا‘ طالب علم کالجوں میں اکٹھے ہوئے‘ نعرے لگانا شروع کئے۔
پولیس نے رائفلیں سیدھی کر لیں اور پھر ایک حیران کن واقعہ پیش آیا‘ طالب علم نعرے لگانے کے بعد اپنی اپنی کلاسز میں واپس چلے گئے‘ ان میں سے کوئی مال روڈ پر نہیں نکلا‘ پولیس شام تک سڑک پر کھڑی رہی‘ صدر ایوب خان راولپنڈی میں بیٹھ کر لاہور کی صورت حال واچ کر رہے تھے‘ وہ طالب علموں کی پسپائی پر حیران رہ گئے اور انہوں نے گورنر صاحب کو ٹیلی فون کر کے پوچھا ”نواب صاحب میں آپ کو مان گیا لیکن آپ نے یہ کیا کیسے؟“۔
نواب صاحب مونچھوں کو تاﺅ دیا کرتے تھے۔وہ بائیں مونچھ کو چٹکی میں دبا کر بولے ”صدر صاحب میں جانتا ہوں لاہور کے تمام بیورو کریٹس کے بچے‘ بھانجے اور بھتیجے کالجوں میں پڑھتے ہیں‘ یہ افسر میری فطرت سے بھی واقف ہیں‘ یہ جانتے ہیں میں نے اگر گولی کا حکم دیا ہے تو پھر گولی ضرور چلے گی چنانچہ میں نے ان کی نفسیات سے کھیلنے کا فیصلہ کیا‘ میں نے حکم دے دیا‘ مجھے یقین تھا یہ لوگ کل اپنے بچوں کو کالج نہیں جانے دیں گے۔
ان کے بچے اپنے دوستوں کوبھی صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کر دیں گے اور یوں کوئی طالب علم مال روڈ پر نہیں نکلے گا“ صدر ایوب خاموشی سے سنتے رہے‘ نواب آف کالا باغ نے اس کے بعد یہ تاریخی فقرہ کہا”صدر صاحب! انسان کی فطرت ہے یہ دوسروں کےلئے سخت اور اپنے لئے نرم فیصلے کرتا ہے اور میں ہمیشہ انسان کی اس خامی کا فائدہ اٹھاتا ہوں‘ میں اپنے فیصلوں میں فیصلہ کرنے والوں کا سٹیک شامل کر دیتا ہوں چنانچہ رزلٹ فوراً اور نرم آتا ہے“۔
نواب آف کالا باغ کی بات درست تھی‘ ہم انسان اپنی ذات سے متعلق فیصلے ہمیشہ اچھے اور جلدی کرتے ہیں جبکہ دوسروں کے فیصلے دہائیوں تک میز کی درازوں میں پڑے رہتے ہیں‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پنجاب اسمبلی کا تازہ ترین فیصلہ دیکھ لیجئے‘پنجاب اسمبلی نے 15 اگست2018ءکو حلف اٹھایا‘ 368 ارکان میں سات ماہ میں کسی ایک ایشو پر اتفاق رائے نظر نہیں آیا‘ عوام نے جب بھی دیکھا یہ لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آئے لیکن 12 مارچ کو اسمبلی کے تمام اراکین میں اتفاق رائے ہو گیا۔
اسمبلی میں ایک بل پیش ہوا‘ کوئی بحث ہوئی اور نہ کسی نے اعتراض اٹھایا‘ سپیکر نے بل قائمہ کمیٹی میں بھجوایا‘ کمیٹی نے ایک دن میں منظوری دے دی‘ یہ تیسرے دن اسمبلی میں پیش ہوا اور اسمبلی نے دس منٹ میں بل پاس کر دیا ‘یہ پنجاب اسمبلی کے ارکان‘ ڈپٹی سپیکر‘ سپیکر‘ وزراءاور وزیراعلیٰ کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کا مقدس ترین بل تھا اور اس بل کے ذریعے وزیراعلیٰ چار لاکھ 25 ہزار‘ سپیکر دو لاکھ60 ہزار‘ ڈپٹی سپیکردو لاکھ 45 ہزار‘ وزراءدو لاکھ 75 ہزار اوراراکین اسمبلی ایک لاکھ 95 ہزار ماہانہ تنخواہ اور مراعات وصول کریں گے۔
ارکان اسمبلی‘ وزراءاور وزیراعلیٰ کے ڈیلی الاﺅنس‘ ہاﺅس رینٹ‘ یوٹیلٹی الاﺅنس اور مہمانداری الاﺅنس میں بھی دو‘ تین اور چار گنا اضافہ کر دیا گیا‘ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں ارکان‘ وزراءاور وزیراعلیٰ کی تنخواہیں کم تھیں‘ یہ اضافے کے بعد بھی تسلی بخش نہیں ہیں‘ آج کے دور میں اس آمدنی میں اچھا لائف سٹائل برقرار رکھنا ممکن نہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ارکان اسمبلی اور وزراءغریب ہیں؟ کیا یہ صرف تنخواہ پر گزارہ کر رہے ہیں؟ جی نہیں! 99 فیصد ارکان کا روزانہ کا خرچ ان کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہے۔
ملک کے غرباءتو رہے دور مڈل کلاس کا کوئی شخص بھی الیکشن کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا لہٰذا یہ تمام لوگ رئیس ہوتے ہیں لیکن آپ ان رئیس لوگوں کی حرص بھی ملاحظہ کیجئے‘ یہ اپنی مراعات اور تنخواہوں کےلئے چند لمحوں میں اپنے تمام اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو گئے‘ بل آیا اور دو دن میں تمام مراحل طے کر کے پاس ہو گیا‘ اس پر اس ماہ سے عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا‘ یہ سپیڈ ثابت کرتی ہے ہمارے ارکان اسمبلی اپنے ذاتی ایشوز پر یک جان ہیں لیکن یہ عوامی ایشوز پر منقسم ہیں۔
یہ لوگ عوام کے ایشوز پر کبھی اکٹھے ہوئے اور نہ ہوں گے‘ کیوں؟کیونکہ عوامی ایشوز میں ان کا کوئی سٹیک شامل نہیں ہوتا چنانچہ یہ ان ایشوز پر اکٹھے ہوتے ہیں اور نہ ہی اسمبلی آتے ہیں‘ میری وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے یہ چند ماہ کےلئے نواب آف کالاباغ بن جائیں‘ یہ عوامی ایشوز میں ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کو سٹیک ہولڈر بنا دیں‘ یہ اعلان کر دیں سرکاری افسروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں مڈل کلاس کے برابر ہوں گی‘ بچے سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے‘ یہ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے علاج کرائیں گے۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں گے‘ یہ اپنے ہاتھ سے ٹیکس ریٹرنز سمیت تمام فارم پر کریں گے اور تمام یوٹیلٹی بلز بھی خود دیں گے‘ آپ اس کے بعد کھلی آنکھوں سے تمام فارم آسان‘تمام ہسپتال‘ سکول اور ٹرانسپورٹ ٹھیک اور ساری مہنگائی کنٹرول ہوتے دیکھیں گے‘ہمارے پالیسی سازکیونکہ خود اس پالیسی سے باہر ہوتے ہیں چنانچہ یہ پوری زندگی تنگ جوتے کی تکلیف سے لا علم رہتے ہیں‘ آپ انہیں ایک بار وہ تنگ جوتا پہنا دیں جو عوام روز پہنتے ہیں تو پھرآپ کمال دیکھئے‘یہ پرانا پاکستان نیا پاکستان بنتے دیر نہیں لگائے گا‘آپ انہیںایک بار عوام بنا دیں ‘ یہ پوری عوام کے مسئلے حل کر دیں گے۔