میں پچھلے کمرے میں بیٹھ گیا‘ درمیان میں شیشے کی دیوار تھی‘ میں دیوار کے پیچھے سے لوگوں کو دیکھ اور سن سکتا تھا‘ یہ میرے دوست کا دفتر تھا‘ وہ کسٹم انٹیلی جینس آفیسر تھا‘ میں ملنے کےلئے آیا تھا‘ اچانک اسے ایک ٹیلی فون آیا‘ اس نے مجھے پچھلے کمرے میں بٹھا دیا اور ملاقاتی کا انتظار کرنے لگا‘ میں بھی اشتیاق سے شیشے کے پار دیکھنے لگا‘ تھوڑی دیر بعد ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان اندرداخل ہوا اور میرے دوست کے سامنے بیٹھ گیا‘ میں دونوں کو دیکھ بھی سکتا تھا اور سن بھی‘
نوجوان نے کوٹ کی جیب سے تین تصویریں نکالیں اور کسٹم انٹیلی جینس آفیسر کے سامنے رکھ دیں‘ یہ سفید رنگ کی جیپ کی تصویریں تھیں‘ نوجوان تصویر پر انگلی رکھ کر بولا ”سر یہ سمگلڈ اورٹمپرڈ ہے اور ڈیفنس کے وائے بلاک میں کھڑی ہے‘ میں آپ کو ایڈریس دے دیتا ہوں آپ یہ پکڑ لیں“ میرے دوست نے غور سے تصویریں دیکھیں اور تھوڑا سا سوچ کر بولا ”ہم کسی کے گھر چھاپہ نہیں مار سکتے ہاں البتہ یہ گاڑی اگر سڑک پر ہو تو ہم اسے کسٹڈی میں لے سکتے ہیں“ نوجوان نے بھی تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولا” میں گاڑی کے مالک کے ساتھ شام چار بجے جوس پینے کےلئے گھر سے نکلوں گا‘ میں آپ کو ایس ایم ایس بھی کر دوں گا اور جوس کارنر کا ایڈریس بھی بھجوا دوں گا‘ آپ وہاں چھاپہ مار کر گاڑی قبضے میں لے لیں لیکن بس ایک شرط ہے!“۔ وہ خاموش ہو گیا‘ میرا دوست خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ تھوڑی دیر رک کر بولا ”گاڑی کا مالک میرا دوست ہے‘ آپ کسی قیمت پر کسی کو میرا نام نہیں بتائیں گے اور دوسرا جب آپ کی ٹیم چھاپہ مارے گی تو میں شور کروں گا‘ میں ٹیم کے ساتھ لڑوں گا بھی لیکن آپ نے اسے زیادہ سیریس نہیں لینا‘ آپ گاڑی لے کر نکل جائیے گا“ میرے دوست نے قہقہہ لگایا اور ڈن کر دیا‘ نوجوان تھوڑی دیر مزید بیٹھا‘ چائے پی اور چلا گیا‘ میں باہر آ گیا اور میں نے اپنے دوست سے اس ڈیل کے بارے میں پوچھا‘
میرے دوست نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ”یہ لاہور کے ایک امیر زادے کا دوست ہے‘ امیر زادے نے نان کسٹم پیڈ سمگلڈ گاڑی خریدی ہے‘ گاڑی کی مالیت چار کروڑ روپے ہے اور یہ دوست اپنے عزیز ترین دوست کی مخبری کےلئے ہمارے پاس آیا ہے“ میں نے پوچھا ”اور اب کیا ہوگا؟“ میرے دوست نے جواب دیا ”یہ اپنے دوست کو جوس پلانے کےلئے باہر لائے گا اور ہم گاڑی اور گاڑی کے مالک کو پکڑ لیں گے“ میں نے حیرت سے پوچھا ”لیکن اس مخبر کو کیا فائدہ ہو گا“ میرے دوست نے ہنس کر جواب دیا ”اس کے حسد کا کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے گا‘ یہ امیر زادے کا حاسد دوست ہے‘دوست کی گاڑی اس سے ہضم نہیں ہو رہی چنانچہ یہ اسے اس سے محروم بھی دیکھنا چاہتا ہے اور پریشان بھی اور اس کا یہ جذبہ اسے ہمارے پاس لے آیا ہے“۔
یہ تمام باتیں میرے لئے حیران کن تھیں‘میں نے اس سے پوچھا ”کیا تمہارے زیادہ مخبر ایسے لوگ ہوتے ہیں“ میرے دوست نے جواب دیا ”ہمارے 98 فیصد مخبر یہ لوگ ہوتے ہیں‘ دوست عزیز ترین دوست کی مخبری کرتے ہیں‘ بھائی بھائی کے خلاف انفارمیشن دیتا ہے‘ بہو ساس کے بارے میں بتاتی ہے اور سالہ بہنوئی اور بہنوئی سالے کا مخبر بن جاتا ہے“ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ”ہمارے پاس دوست اور ملازمین زیادہ آتے ہیں‘دوست پہلے دوست کو سمگلڈ گاڑی خرید کر دیتے ہیں اور پھر مخبری کر دیتے ہیں‘
یہ دوستوں کو ٹیکس چوری کا طریقہ بھی بتاتے ہیں اور دوست جب ٹیکس چوری کر لیتے ہیں تو یہ اس کے خلاف مخبر بن جاتے ہیں‘ یہ مخبر لوگ یوں دوستوں کو دہرا نقصان پہنچاتے ہیں‘ پہلے گاڑی کی خریداری کے ذریعے دوست کو مالی نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر وہ گاڑی پکڑوا کر اسے ذلیل کراتے ہیں‘ ہمارے پاس مختلف کمپنیوں کے ملازمین بھی آتے ہیں‘ یہ ہمیں اپنے مالکان کے خلاف ٹھوس ثبوت دیتے ہیں‘ یہ عموماً پرانے اور اعتباری ملازمین ہوتے ہیں‘
مالکان ان کو مخلص سمجھتے ہیں لیکن یہ اندر سے مالکان کے خلاف ہوتے ہیں‘ ان کے سینوں میں کینہ‘ حسد اور بغض بھرا ہوتا ہے چنانچہ یہ ہمیں مالکان کے خلاف وہ ثبوت بھی دے دیتے ہیں جو مالکان کے پاس بھی نہیں ہوتے“ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ”یہ ملازمین کس کیٹگری کے ہوتے ہیں“ وہ بولا” یہ لوگ دو کیٹگری کے ہوتے ہیں‘ پہلی کیٹگری سیلف میڈ لوگوں کے ملازمین پر مشتمل ہوتی ہے‘ یہ لوگ ملازمین کے سامنے ترقی کرتے ہیں‘
ملازمین بیس تیس ہزار روپے کے ملازم رہ جاتے ہیں جبکہ مالک کروڑوں روپے میں پہنچ جاتے ہیں چنانچہ یہ لوگ مالکان کے حاسد بن جاتے ہیں اور دوسری کیٹگری میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن پر مالکان دوسرے ملازمین کو فوقیت دے دیتے ہیں‘ مثلاً مالکان نے نئے ملازمین کو پروموٹ کر دیا اور یہ نئے ملازمین کو پرانوں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہ اور مراعات دینے لگے تو پرانے ملازمین اندر سے زخمی ہو جاتے ہیں اور یہ مالکان کے خلاف مخبر بن جاتے ہیں“
میں نے اس سے پوچھا ”آپ نے اپنی نوکری کے دوران مخبری کا سب سے افسوس ناک واقعہ کیا دیکھا“ وہ رکا‘ مسکرایا اور بولا ”بے شمار واقعات ہیں لیکن مجھے ایک واقعہ نہیں بھولتا‘ کراچی میں ایک بزرگ خاتون نے اپنے اکلوتے بیٹے کے خلاف مخبری کر دی‘ والدہ سے اپنی بہو کی آسائش ہضم نہیں ہوتی تھی چنانچہ اس نے بیٹے کی مخبری کی‘ ہم نے گودام پر چھاپہ مارا اور بیٹا تین دن میں سڑک پر آ گیا“ وہ رکا اور پھر بولا ”میرے پاس جگری دوستوں کے حسد کی بے شمار مثالیں بھی ہیں‘
میں کراچی کی ایک فیملی کو جانتا ہوں‘ ان کا بیٹا اکلوتا تھا‘ بیٹے نے سمگلڈ سپورٹس کار خرید لی‘ جگری دوست نے مخبری کر دی‘ ہم نے کار قبضے میں لے لی‘ بیٹے کو کار بہت عزیز تھی چنانچہ والد نے وہ گاڑی آکشن میں خریدی‘ زیادہ ٹیکس اور زیادہ ڈیوٹی دی اور گاڑی بیٹے کو گفٹ کر دی‘ بیٹا دوبارہ گاڑی چلانے لگا‘ جگری دوست کو دوست کی یہ خوشی بھی نہ بھائی‘ اس نے گاڑی ادھار لی اور بریک آئل کے چیمبر میں چھوٹا سا سوراخ کرا دیا‘ گاڑی کا مالک گاڑی چلاتا رہا‘
گاڑی اسے بریک آئل کے بارے میں وارننگ دیتی رہی لیکن دوست اسے حوصلہ دیتا تھا‘ تم فکر نہ کرو‘ بریک آئل پورا ہے‘ گاڑی کا سافٹ ویئر خراب ہو گیا ہے‘ لڑکا اپنے دوست کی ہر بات پر یقین کرتا تھا چنانچہ وہ گاڑی چلاتا رہا‘ وہ ایک دن گاڑی لے کر نکلا‘ ہائی وے پر آیا‘ گاڑی کے بریک فیل ہوئے اور گاڑی آئل ٹینکر سے ٹکراگئی‘ لڑکا ایٹ دی سپاٹ مر گیا‘ باپ نے تحقیقات کرائیں تو کہانی کھل کر سامنے آ گئی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا‘ جانے والا جا چکا تھا“۔میں افسوس سے سنتا رہا‘
میرے دوست نے بتایا ”آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے خلاف مخبری بھی ان کے قریبی دوستوں نے کی تھی‘ یہ دوست آج بھی ان کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن یہ لوگ اپنی آستینوں میں چھپے ان سانپوں کے وجود تک سے واقف نہیں ہیں‘ یہ انہیں اپنا مخلص دوست‘ اپنا وفادار ساتھی سمجھ رہے ہیں جبکہ یہ ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں“ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ میرا دوست آخر میں بولا ”تم اگر دوستی کا تماشہ دیکھنا چاہتے ہو تو چار بجے میرے ساتھ چلو‘ ہم تمہارے سامنے وہ گاڑی پکڑیں گے اور پھرتم اپنی آنکھوں سے دیکھنا حاسد دوست دوستوں کو کس طرح ذلیل کرتے ہیں“ میں نے ہامی بھر لی۔
میں چار بجے تک اس کے پاس بیٹھا رہا‘ چھاپہ مارنے کےلئے سکواڈ تیار ہوا‘ پونے چار بجے مخبر نے اطلاع دی میں ٹارگٹ کے گھر پہنچ گیا ہوں‘ پانچ منٹ بعد پیغام آیا ہم سمگلڈ گاڑی میں جوس پینے کےلئے نکل رہے ہیں‘ ہم گلبرگ میں فوارہ چوک کے قریب فلاں جوس کارنر پر جا رہے ہیں‘ آپ چار بج کر پانچ منٹ تک پہنچ جائیں‘ میرے دوست نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور ہم گلبرگ پہنچ گئے‘ نان کسٹم پیڈ ٹمپرڈ گاڑی سامنے کھڑی تھی‘ دونوں دوست گاڑی میں بیٹھ کر جوس پی رہے تھے‘
کسٹم کے اہلکار گاڑی کے پاس پہنچے‘ گاڑی کا شیشہ بجایا اور مالک سے گاڑی کے کاغذات مانگ لئے‘ مالک نے پورے اعتماد کے ساتھ کاغذات نکال کر کسٹم کے حوالے کر دیئے‘ اہلکاروں نے کاغذات دیکھے‘ بونٹ کھلوایا اور گاڑی کا انجن اور چیسز نمبر چیک کرنے لگے‘ گاڑی ظاہر ہے ٹمپرڈ تھی ‘ کسٹم حکام نے گاڑی قبضے میں لے لی‘ مالک کا دوست گاڑی سے اترا اور پلان کے مطابق کسٹم حکام کے گلے پڑ گیا‘ سڑک پر ٹھیک ٹھاک تماشہ لگ گیا‘ گاڑی کا مالک دوست کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ بار بار اہلکاروں کے گلے پڑتا تھا‘ میں اور میرا دوست گاڑی میں بیٹھ کر یہ منظر دیکھتے رہے‘
مخبر نے ایک آدھ بار لڑتے لڑتے میرے دوست کو آنکھ بھی ماری‘ یہ کھیل چند منٹ چلتا رہا یہاں تک کہ کسٹم حکام نے گاڑی کا چارج لے لیا‘ میں نے دیکھا مخبر نے چیخ بھی ماری اور جوس کارنر کے تھڑے پر لیٹ کر بے ہوشی کا ناٹک بھی کیا‘ گاڑی کا مالک اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا‘ ہم واپس چل پڑے‘ میں راستہ بھر اداس رہا‘ میرا خیال تھا دوست کو کم از کم دوستوں کے ساتھ یہ نہیں کرنا چاہیے جبکہ میرا دوست مزے سے گنگنا رہا تھا ‘ ہم دفتر واپس پہنچ گئے‘
میں نے اجازت مانگی‘ میرا دوست باہر آیا‘ مجھے گلے لگایا اور آہستہ سے میرے کان میں کہا ”ہمارے آدھے سے زائد دوست بروٹس ہوتے ہیں‘ یہ لوگ جب تک جولیس سیزر کو قبر تک نہ پہنچا لیں اس وقت تک ان کے سینے ٹھنڈے نہیں ہوتے‘ ہم لوگ دشمنوں کے تیروں سے نہیں مرتے‘ دوستوں کے ہاتھوں سے مرتے ہیں اور اگر ہمیں ہمارا دشمن بھی مارے تو اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے چنانچہ ہمیں دشمنوں سے نہیں دوستوں سے بچ کر رہنا چاہیے‘ انسان اگر دوستوں سے بچ جائے تو دشمن اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے اور یہ انسان کی تاریخ بھی ہے اور جغرافیہ بھی“۔