پنجاب پولیس اب اولیوگرین کی بجائے اسلام آباد پولیس کی طرح ڈارک بلیو پتلون اور لائٹ بلیو شرٹ پہنے گی‘یہ دو رنگ واحد خامی تھے جن کی وجہ سے پولیس پرفارم نہیں کر پا رہی تھی‘ بس یہ رنگ ملنے کی دیر ہے اور کاہنہ کا چھاکی پولیس نیویارک پولیس ہو جائے گی۔عثمان بزدار کا یہ فارمولہ دنیا میں میک اپ فلاسفی کہلاتا ہے‘ یہ وہی تکنیک ہے جس کے ذریعے لوگ برے ریستورانوں کی کلر سکیم‘ سائن بورڈ‘ مینو کارڈ اور عملہ تبدیل کر کے سمجھتے ہیں ریستوران اب چل پڑے گا لیکن دس بارہ مرتبہ ناکامی کے بعد پتہ چلتا ہے ریستوران رنگوں اور عملے سے نہیں کھانے کے معیار سے چلتے ہیں
پولیس بھی صرف یونیفارم کا نام نہیں‘ آپ پولیس کی خواہ ہر سال یونیفارم تبدیل کر دیں‘ آپ انہیں بے شک ہیلی کاپٹر لے دیں لیکن آپ جب تک پولیس کے اصل ایشوز حل نہیں کرتے‘ آپ جب تک پولیس کو تھانوں سے تبدیل نہیں کرتے پولیس اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو گی‘ عثمان بزدار کو اب یہ سمجھناہو گا ایشو یونیفارم نہیں ایشو پولیس ہے اور آپ جب تک عوام اور پولیس کے رشتے کو نہیں سمجھیں گے آپ یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے تاہم میں پولیس کے اصل ایشوز کی طرف آنے سے پہلے یونیفارم کا مسئلہ ڈسکس کروں گا‘ انگریز نے ہندوستان میں 1861ءمیں پولیس متعارف کرائی‘انگریز کی پولیس لانگ خاکی نیکراورخاکی شرٹ پہنتی تھی‘ قیام پاکستان کے بعد ایوب خان نے پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کےلئے شرٹ کا رنگ سیاہ کر دیا‘ پولیس59 سال تک یہ یونیفارم پہنتی رہی‘ میاں شہباز شریف نے 21مارچ 2017ءکواس یونیفارم کو پیرا ملٹری یونیفارم میں تبدیل کر دیا‘ اولیوگرین پتلون‘ اولیو گرین شرٹ اور اس کی اوپر اولیو گرین جیکٹ اور پاﺅں میں فوجی بوٹ آ گئے‘ یونیفارم کی تبدیلی کی دو وجوہات تھیں‘ پولیس کے امیج کو بہتر بنانا اور دوسرا پولیس افسروں کےلئے یونیفارم میں بھاگنا دوڑناآسان بنانا ‘ پولیس اور عوام دونوں کو یہ یونیفارم پسند نہ آئی‘ اعتراضات ہوتے رہے لیکن 2019ءتک پہنچ کر لوگوں نے یہ تبدیلی قبول کر لی‘ عثمان بزدار اسے پھر تبدیل کر رہے ہیں‘
یہ تبدیل ہو بھی جائے گی لیکن سوال یہ ہے پولیس جب خاکی اور سیاہ یونیفارم پہنتی تھی تو یہ اس وقت بھی ناانصافی‘ ظلم اور رشوت کی بیوپاری تھی‘ یہ جب اولیو گرین یونیفارم پہننے لگی تو یہ اس وقت بھی بے ایمان اور نالائق رہی اور مجھے یقین ہے یہ ڈارک بلیوپتلون اور لائٹ بلیو شرٹ پہننے کے بعد بھی نالائق‘ رشوت خور اور ظالم رہے گی‘ کیوں؟ کیونکہ یونیفارم تبدیل ہونے سے پولیس تبدیل نہیں ہوتی‘ آپ کو اس کےلئے کام کرنا پڑتا ہے اور ملک میں 1861ءسے پولیس کو بہتر بنانے کےلئے کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا‘
ہماری پچھلی حکومتیں بھی میک اپ سے کام چلاتی رہیں اور یہ حکومت بھی ماشاءاللہ پاﺅڈر کا ڈبہ لے کر مارکیٹ میں آ گئی ہے‘ یہ بھی مسئلے کی اصل جڑ پر کام نہیں کر رہی اور مسئلے کی اصل جڑیونیفارم میں نہیں تھانوں میں پیوست ہے‘ عوام کا اصل ایشو تھانہ ہے اور تھانے کی کیا حالت ہے آپ اس کا اندازہ چند حقائق سے لگا لیجئے‘ پنجاب کے کسی تھانے کو کوئی بجٹ نہیں دیا جاتا‘ پولیس کا سارا بجٹ ضلعی ہیڈ کوارٹر تک پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور اس سے نیچے تھانوں کی کرسیاں ہوں‘ میزیں ہوں‘ پنکھے‘ ہیٹر اور کولر ہوں یا پھر تفتیش اور حوالات کے خرچے ہوں یہ سارا بوجھ تھانہ خود اٹھاتا ہے اور یہ لوگ یہ بوجھ چپ چاپ شہر کے ان معززین کی طرف شفٹ کر دیتے ہیں جو علاقے کی تمام وارداتوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں‘
تھانہ پورے شہر کا مرکز ہوتا ہے‘ شہر کا ہر باسی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی ایشو میں تھانے ضرور پہنچتا ہے اور اسے وہاں پہنچ کر تھانے کی کوئی نہ کوئی ضرورت ضرور پوری کرنا پڑتی ہے‘ پولیس ایف آئی آر لکھنے کےلئے کاغذ تک مدعی سے منگواتی ہے‘ تفتیش کا سارا مالی بوجھ ملزم پر ڈال دیا جاتا ہے‘ ملزم اگر غریب ہو یا پھر اس کے اہل خانہ کسی چودھری یا وڈیرے سے واقف نہ ہوں تو یہ چالیس چالیس دن حوالات میں سڑتا رہتا ہے اور پولیس سرکاری گاڑی میں پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے اسے عدالت یا جیل نہیں پہنچا پاتی‘
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی حکومت تھانے کی گاڑی کو روزانہ دس لیٹر پٹرول دیتی ہے اور گاڑی نے اس دس لیٹر پٹرول میں شہر بھر کا گشت بھی کرنا ہوتا ہے‘ ملزم بھی گرفتار کرنے ہوتے ہیں اور ملزمان کو عدالت اور جیل بھی پہنچانا ہوتا ہے‘ آپ خود فیصلہ کیجئے کیا یہ ممکن ہے؟۔آپ کسی دن وارداتوں کا سائنسی تجزیہ بھی کر لیں‘ چوری اور ڈکیتی کی 80 فیصد وارداتیں جیل سے رہا ہونے والے مجرم کرتے ہیں‘ یہ ڈیٹا ثابت کرتا ہے ہمارا سسٹم جیل سے رہا ہونے والے مجرموں پر نظر نہیں رکھ پاتا
چنانچہ مجرم جیلوں سے واپس آتے ہیں اور آتے ہی دوبارہ دھندہ شروع کر دیتے ہیں‘ آپ کسی ضلع کا ڈیٹا منگوا کر دیکھ لیجئے آپ کو اغواءاور زنا کے 60 فیصد پرچے جعلی ملیں گے اور یہ وہ پرچے ہیں جو نہ صرف تھانوں کا خرچ چلاتے ہیں بلکہ یہ پولیس اہلکاروں کے نان نفقہ بھی ثابت ہوتے ہیں‘ تھانے ان دونوں پرچوں پر پلتے ہیں لیکن مخالفین جس جس شخص کو ان پرچوں کا ہدف بناتے ہیں وہ بے چارے عدالتوں اور جیلوں میں ذلیل ہو کر رہ جاتے ہیں‘ آپ کسی رات پنجاب کے کسی تھانے میں چلے جائیں‘ آپ کو تھانے کی حوالات پیک ملے گی‘
یہ کون لوگ ہیں‘ یہ ایک رات کے ملزم ہوتے ہیں‘ پولیس ان کو گلیوں اور اڈوں سے گرفتار کرتی ہے‘ آوارہ گردی میں حوالات میں پھینکتی ہے اور صبح تک ہر شخص سے دس بیس ہزار روپے بٹور کر اسے رہا کر دیتی ہے‘ حکومت خفیہ سروے بھی کرا لے یہ حیران رہ جائے گی‘ پنجاب کے زیادہ تر ایس ایچ اوز نے پرائیویٹ حوالات بنا رکھی ہیں‘ یہ لوگوں کو اٹھاتے ہیں اور ذاتی حوالات میں پھینک دیتے ہیں‘ جہاں سے نکلنے کےلئے ملزموں کو لاکھوں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں اور جو ملزم رقم کا بندوبست نہ کر سکے وہ کسی گمنام قبر کا رزق بن جاتا ہے‘
ہم آج 2019ءمیں بھی فرانزک‘ سوشل میڈیا‘ بینکنگ ٹرانسفر‘ ڈی این اے اور انگلیوں کے نشانوں کو ثبوت نہیں بنا سکے‘ تفتیش آج بھی چھتر سے سٹارٹ ہوتی ہے اور چھتر پر ہی ختم ہوتی ہے‘ آپ پولیس کی توندیں‘ سانسیں اور تعلیم بھی دیکھ لیجئے‘ تھانوں کا آدھے سے زیادہ سٹاف لکھ سکتا ہے‘ پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی ایس ایم ایس کر سکتا ہے‘ یہ لوگ کمپیوٹر تک چلانا نہیں جانتے‘ یہ آج بھی اس سال کو امسال لکھتے ہیں اور فدوی آج بھی ان کی رپورٹوں میں موجود ہے‘
پنجاب 11 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ پورے یورپ میں کوئی ملک آبادی میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ہم آج بھی اتنے بڑے صوبے کو 36 ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹرز کے ذریعے چلا رہے ہیں‘ ہم صوبے کو 36 سے 72 ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز میں تبدیل کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں یونیفارم بدلنے سے یہ سارا سسٹم ٹھیک ہو جائے گا‘ آپ کسی دن کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی تک پولیس فورس کی تنخواہیں چیک کر لیں اور اس کے بعد ان کے بجلی‘ گیس اور پانی کے بل دیکھ لیں‘
آپ ان کی گاڑیوں کی تعداد‘ پٹرول‘ بچوں کی تعلیم کا خرچ‘ مکانوں کے کرائے اور میڈیکل بل بھی چیک کر لیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کیا یہ لوگ یہ تمام اخراجات ان تنخواہوں میں پورے کر سکتے ہیں؟ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی چنانچہ سوال یہ ہے یہ لوگ اتنی قلیل آمدنی میں ذاتی اور تھانے کے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ تمام اخراجات عوام کی نسوں سے نکلتے ہیں اور یہ وہ نسیں ہیں جو روز پولیس کے خلاف احتجاج کرتی ہیں‘ جو روز حکومت کو پولیس پر توجہ دینے کی اپیل کرتی ہیں لیکن حکومت ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے پولیس کی یونیفارم بدل رہی ہے‘
میرا دعویٰ ہے آپ اگرموجودہ حالات میں پولیس کو احرام بھی باندھ دیں تو بھی پولیس ٹھیک نہیں ہو گی‘ یہ پھر بھی ظلم سے باز نہیں آئے گی‘ عوام پھر بھی پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہیں گے چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے آپ یونیفارم کو نہ چھیڑیں‘ یونیفارم ایشو تھا اور نہ یہ ایشو ہے‘ پولیس کا اصل ایشو تھانہ اور تھانے کے اہلکار ہیں‘ آپ ان پر توجہ دیں ملک حقیقتاً تبدیل ہو جائے گا‘ حکومت سائز کے مطابق تھانوں کا بجٹ طے کرے‘ یہ بجٹ وزارت خزانہ سے براہ راست تھانوں کے اکاﺅنٹ میں جائے‘
آپ آئی جی‘ ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کو تھانوں کا بجٹ نہ بھجوائیں‘ آپ بجٹ کے معاملے میں پورے محکمے کو بائی پاس کر دیں‘ رقم سیدھی تھانوں کے اکاﺅنٹ میں جمع کرا دیں‘تھانے بہتر ہو جائیں گے‘ حکومت اخراجات کی تفصیلات جاننے کےلئے سوشل میڈیا ایپلی کیشن تیار کرسکتی ہے‘ تھانے اپنے بل ایپلی کیشن پر ڈال دیا کریں اور سسٹم خود بخود اخراجات کی ویری فکیشن کر لیا کرے‘ حکومت تھانوں کے عملے کےلئے فیلڈ الاﺅنس بھی جاری کر دے‘ یہ الاﺅنس تنخواہ سے ڈبل ہونا چاہیے‘
یہ رقم اہلکاروں کی ایفی شینسی بھی بڑھا دے گی اور یہ رشوت اور بے ایمانی سے بھی بچ جائیں گے‘ حکومت اسی طرح فرانزک ٹیسٹ‘ سوشل میڈیا‘ بینک‘ یوٹیلٹی بلز‘ ہاتھ کے نشانوں اور ڈی این اے کو تفتیش کا حصہ بنا دے‘ یہ فیصلہ تفتیش کے عمل کو تیز بھی کر دے گا‘ تفتیش تھانوں سے لیبارٹری میں بھی شفٹ ہو جائے گی اور جرم کے خلاف ثبوت بھی زیادہ ٹھوس اور ناقابل تردید ہو جائیں گے اور حکومت جعلی پرچوں کے خلاف کڑی سزا بھی تجویز کر دے‘
جعلی پرچہ دینے اور اس میں معاونت کرنے والے پولیس اہلکاروں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے‘ یہ قانون بھی بڑی حد تک پولیس کا قبلہ ٹھیک کر دے گا جس کے بعد حکومت کو پولیس کا امیج ٹھیک کرنے کےلئے بار بار یونیفارم نہیں بدلنا پڑے گی ورنہ دوسری صورت میں آپ پولیس کوغلاف کعبہ کی ٹوپی بھی پہنا دیں تو بھی پنجاب میں جرم اور زیادتی نہیں رکے گی‘ پنجاب اسی طرح روتا اور سسکتا رہے گا‘ یہ اسی طرح ظلم ظلم کی دہائیاں دیتا رہے گا۔
آپ یقین کر لیجئے پنجاب پولیس کا ایشو یونیفارم نہیں یونیفارم والا ہے‘ آپ یونیفارم والے کو ٹھیک کر دیں‘ یونیفارم خود بخود ٹھیک ہوجائے گی ورنہ یہ پولیس کسی دن عثمان بزدار کو بھی اٹھا کر حوالات میں پھینک دے گی اور یہ حیرت سے ان کا یونیفارم دیکھتے رہ جائیں گے۔