ڈینس مائیکل روحن آسٹریلیا میں پیدا ہوا‘ وہ بچپن سے سماعتی وہم کی بیماری کا شکار تھا‘ اسے مختلف اوقات میں مختلف آوازیں آتی تھیں اور وہ ان آوازوں کو حقیقت سمجھتا تھا‘ والدین نے اس کا علاج کرایا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مرض بڑھتا چلا گیا‘ وہ 1964ءمیں تعمیراتی کمپنی میں ملازم تھا‘ مالک نے اسے 30 فٹ لمبی لفٹ ایک سائیٹ سے دوسری سائیٹ منتقل کرنے کا حکم دیا‘ وہ ٹرک میں بیٹھا لیکن پھر نیچے اتر آیا‘ مالک نے وجہ پوچھی تو روحن نے جواب دیا‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ”تم یہ لفٹ یہاں سے شفٹ نہیں کرو گے“
کمپنی نے اسے ملازمت سے نکال دیا‘ روحن کو اس کے بعد کثرت سے اللہ تعالیٰ کی آوازیں (نعوذباللہ) آنے لگیں‘ وہ شادی شدہ بھی تھا اور ایک بیٹی کا باپ بھی تھا‘ بیوی نے خوفزدہ ہو کر اس سے طلاق لے لی اور بیٹی کو ساتھ لے کر والدین کے گھر شفٹ ہو گئی‘روحن کے والدین نے اسے بلوم فیلڈ مینٹل ہسپتال میں داخل کرا دیا‘ وہ علاج کے بعد آسٹریلیا سے برطانیہ آ گیا‘ وہ 1969ءمیں بحری جہاز میں بیٹھا اور اسرائیل چلا گیا‘ تل ابیب کے مضافات میں وادی شیرون اس کا نیا ٹھکانہ تھا‘ وہ ایک رات گہری نیند سویا ہوا تھا‘ وہ اٹھا اور اس نے چلانا شروع کر دیا ”میں یہودی ہوں‘ میں یہودی ہوں“ لوگ اکٹھے ہو گئے‘ اس نے لوگوں کو بتایا ”مجھے اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرح براہ راست بتایا تم بنی اسرائیل سے ہو اور تم پر ہم نے بھاری ذمہ داری عائد کر دی ہے“ وہ اگلی صبح وادی شیرون سے نکلا اور یوروشلم آ گیا‘ وہ اگست کا مہینہ تھا اور 1969ءکا سال تھا‘ وہ 21 اگست کے دن مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور اس نے مرکزی ہال میں مٹی کا تیل چھڑک کرآگ لگا دی‘ مسجد اقصیٰ میں آگ بھڑک اٹھی‘ وہ اس دوران نعرے لگاتا رہا‘ وہ نعرے لگاتا لگاتا مسجد سے باہر آ گیا‘ روحن کی غلیظ حرکت نے پورے عالم اسلام میں آگ لگا دی‘ اسلامی ملکوں نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن عالم اسلام کو ”یہ ایک پاگل کا پاگل پن“ کہہ کر ٹرخا دیا گیا‘
اسرائیلی پولیس نے روحن کو گرفتار کر لیا لیکن اسے ذہنی مریض قرار دے کر ہسپتال داخل کرا دیا گیا‘ یہ انصاف مسلمانوں کو مزید دکھی کر گیا‘ پاکستان میں اس وقت جنرل یحییٰ خان کی حکومت تھی‘ وہ آمر بھی تھے اور پانچ وقتہ شرابی‘ کبابی اور شبابی بھی لیکن اللہ تعالیٰ کو شاید ان کی مغفرت عزیز تھی چنانچہ وہ سامنے آئے‘ عالم اسلام کے بڑے‘ مضبوط اور امیر ملکوں کو اکٹھا‘ مراکش کے شاہ حسن دوم نے پہلا قدم اٹھایا‘ شاہ کی دعوت پر 25 ستمبر 1969ءکو 24 اسلامی ملکوں کے سربراہ رباط میں جمع ہوئے اوراسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی بنیاد رکھ دی‘
او آئی سی کا صرف اورصرف ایک مقصد تھا‘ 57 اسلامی ملکوں کی اجتماعی آواز اور بس‘ رباط میں جب پہلی کانفرنس ہو رہی تھی تو اس وقت فخرالدین علی احمد بھارت کے سینئر وزیر تھے‘ وہ شاہ حسن کے ذاتی دوست تھے‘وہ بعد ازاں 1974ءمیں بھارت کے پانچویں صدر بن گئے‘ بھارتی سفیر گربچن سنگھ بھی شاہ کی گڈ بک میں تھا‘ سفیر اور ڈاکٹر فخرالدین نے شاہ حسن کو دلیل دی” بھارت میںکروڑوں مسلمان رہتے ہیں‘ او آئی سی میں ان مسلمانوں کی آواز بھی ہونی چاہیے“
شاہ مان گئے چنانچہ بھارتی وفد کو بھی دعوت دے دی گئی‘ ڈاکٹر فخرالدین وفد کے ساتھ رباط کےلئے روانہ ہو گئے‘ جنرل یحییٰ خان کو علم ہوا تو یہ ناراض ہو گئے اور انہوں نے مراکش حکومت کو سفیر کے ذریعے مطلع کر دیا آپ اگر بھارتی وفد کو بلائیں گے تو پھر پاکستان او آئی سی کے اجلاس میں شریک ہوگا اور نہ ممبر بنے گا‘ پاکستان اس وقت اسلامی دنیا کا مضبوط ترین ملک تھا‘ او آئی سی پاکستان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ شاہ حسن نے بھارتی وفد کو راستے سے واپس لوٹا دیا اور یوں پاکستان کے اینی شیٹو پر او آئی سی بن گئی‘
یہ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی تنظیم تھی‘ اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت دنیا کے تمام فورم نے اسے تسلیم کرلیا‘ یہ اس وقت بھی ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے‘ تنظیم کا دوسرا اجلاس ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ءمیں لاہور میں منعقد کیا‘ یہ اکتوبر 1973ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس تھی اور اس کانفرنس میں فیصلہ ہوا تھا اسلامی دنیا کسی قیمت پر اسرائیلی جارحیت کو تسلیم نہیں کرے گی‘ تنظیم کے اب تک 13سربراہی اجلاس ہو چکے ہیں‘
وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال ہوتا ہے جبکہ سربراہی کانفرنس تیسرے سال ہوتی ہے‘ سعودی عرب کے ڈاکٹر یوسف احمد اس وقت او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ہیں‘یکم اور دومارچ کوابوظہبی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا 46 واں اجلاس تھا‘ تنظیم نے پہلی بار بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بطوراعزازی مہمان شرکت کی دعوت دی‘ پاکستان نے شدید احتجاج کیا‘ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بطور احتجاج اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا لیکن او آئی سی کی تاریخ میں پہلی بار تنظیم نے بنیادی رکن کے احتجاج کو مسترد کر کے غیر رکن اور غیرمسلم ملک کو فوقیت دی‘
بھارتی وزیر خارجہ نے اجلاس سے خطاب کیااور پاکستان کا نام لئے بغیر ہم پر دہشت گردی کا الزام لگایا اور ہم 50سال کی تاریخ میں اس اجلاس میں موجود نہیں تھے۔آپ پاکستان کی سفارتی بلندی ملاحظہ کیجئے‘ ہم نے 1969ءمیں بائیکاٹ کی دھمکی دی اور بھارتی وفد کو راستے سے واپس لوٹا دیا گیا اورآپ اب پستی بھی ملاحظہ کیجئے‘ ہم نے 2019ءمیں عملی طور پر بائیکاٹ کر دیا لیکن ہمارے دونوں برادر اسلامی ملکوں سعودی عرب اور یو اے ای نے ہمارے احتجاج اور بائیکاٹ کو درخوراعتنا نہیں سمجھا اور یہ دونوں وہ ملک ہیں جن کے شہزادوں کے استقبال کےلئے ہمارے وزیراعظم ڈرائیور بن گئے تھے‘
آپ المیے پر المیہ بھی دیکھئے ‘تنظیم کے سامنے جب بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک ملک کے انتخاب کا وقت آیا تو برادر اسلامی ملکوں نے غیر برادر اور غیر اسلامی ملک کا انتخاب کیا‘ یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کےلئے کافی ہونا چاہیے‘ ہم 1969ءمیں معاشی‘ سیاسی اور سماجی تینوں حوالوں سے مضبوط تھے‘ ہم ترقی پذیر لبرل ملکوں میں شمار ہوتے تھے‘ ہم کشکول لے کر نہیںپھرتے تھے‘ ہم دنیا کو ڈاکٹر اور انجینئر بھی دیتے تھے اور کاٹن اور جیوٹ بھی چنانچہ دنیا ہمارے سفیر کے مطالبے پربھارتی وفد کو راستے سے واپس بھجوا دیتی تھی‘
ہم امریکا اور چین جیسے دشمنوں کو بھی ایک میز پر بٹھا دیتے تھے لیکن ہم اب زوال کے ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں ہم اس تنظیم کو بائیکاٹ کی دھمکی دیتے ہیں ہم جس کے بانی رکن ہیں اور ہمارے اسلامی بھائی ہمیں مسترد کر کے غیر مسلم اور غیر رکن ملک کی وزیر خارجہ کو ہم پر فوقیت دے دیتے ہیں‘ ہم کیا تھے اور ہم کیا ہوچکے ہیں! ہم نے کبھی سوچا؟خدا کےلئے اب تو مان لو دنیا بھیک مانگنے اور دوسروں کےلئے مسائل پیدا کرنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے‘
آج تو ”پدرم سلطان بود“ کی دھند سے باہر آ کر حقائق کا ادراک کرلو‘آج تو یہ مان لو ہم بھکاری ہیں‘ ہم بھیک کے بغیر ملک نہیں چلا سکتے‘ ہمیں پٹرول بھی مفت چاہیے‘ بجلی اور گیس چوری کرنے کا حق بھی اور ساتھ ہی سخی ملکوں کو آنکھیں دکھانے کی اجازت بھی‘ مان لو دنیا میں یہ کمبی نیشن نہیں چلتا‘ دنیا بھکاریوں کی ترچھی آنکھیں برداشت نہیں کرتی اور دوسرا یہ بھی مان لو دنیا ہم سے خوش نہیں ہے‘ہم دنیا میں دہشت کا استعارہ ہیں‘ ہم نے پاکستان کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر کانٹوں کی خوفناک فصل بورکھی ہے‘
دنیا کو ہم سے خوف آتا ہے اور یہ اس خوف کی علامت ہے کہ بم امریکا میں پھٹے‘ روس‘ یورپ‘ تھائی لینڈ یا پھر بھارت میں پوری دنیا دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی پاکستان پاکستان کی دہائی دینا شروع کر دیتی ہے‘یہ بھی مان لو دنیا ہمیں دہشت گرد اور دہشت گردی کا ایکسپورٹر سمجھتی ہے اور ہم 70 ہزار لاشیں اٹھانے کے باوجود دنیا کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں ”ہم دہشت گرد نہیں ہیں‘ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں“ مان لو ہم مارکیٹنگ فیلیئر کی خوفناک مثال بنتے جا رہے ہیں اور ہم جب تک بھیک اور دہشت گردی کے ٹائٹل سے نہیں نکلیں گے دنیا ہماری عزت نہیں کرے گی‘
یہ بھی مان لوبنگلہ دیش ہم سے آگے نکل گیا اور آج اگر افغانستان کے حالات ٹھیک ہو جائیں تو یہ بھی ہم سے آگے نکل جائے گا‘ یہ بھی ریت اور پتھر بیچ کر ہم سے زیادہ خوش حال ہو جائے گا جبکہ ہم کام اور ڈیلیور کرنے والوں کو اسی طرح گلیوں میں گھسیٹتے رہیں گے اور آخری حقیقت بھی مان لو‘ دنیا نے اپنے سارے جھگڑے نبٹا لئے ہیں‘ آپ کو اس وقت امریکا سے مشرق بعید تک کوئی لڑائی کوئی جنگ دکھائی نہیں دیتی‘شمالی کوریا اور امریکاویت نام میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ چکے ہیں‘
طالبان اور امریکا نے بھی ہاتھ ملا لئے ہیں‘ جنگ اگر ہے تو صرف اسلامی ملکوں میں ہے چنانچہ اسلامی دنیا اس وقت اسلحے کی سب سے بڑی خریدار ہے‘ بھارت اور پاکستان بھی 70 سال سے کشمیر کے نام پر لڑ رہے ہیں‘ یہ 70 برسوں سے کھربوں روپے کا اسلحہ بھی خرید رہے ہیں‘ یہ مان لویہ ایشو اسلحہ بیچنے والے ملکوں نے پیدا کیا تھا اور یہی ملک یہ مسئلہ حل نہیں ہونے دے رہے چنانچہ کشمیر کا مسئلہ جب بھی حل ہو گا پاکستان اور بھارت دونوں مل کر کریں گے‘
ہم نے جب بھی کسی تیسرے ملک کو اس میں شریک کیا وہ ملک مزید اسلحہ بیچ کر درمیان سے نکل جائے گا لہٰذا میری درخواست ہے بھیک لینا بند کریں‘ دہشت گردی کے کاروبار سے نکلیں اور بھارت کے ساتھ سیٹل منٹ کریں ورنہ پھر اس وقت کےلئے تیار ہو جائیں جب ہمیں عمرے اور حج کے ویزوں کےلئے بھی بھارت سے اجازت لینا پڑے گی‘ یہ دنیا بھکاریوں اور تنگ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتی خواہ عراق ہو‘ لیبیا ہو یا پھر شام ہو۔