پہاڑوں کے پاس پہنچ کرجلاوطن شہزادہ رک گیا‘ برہمن برگد کے پرانے درخت کے پاس رکا‘ گرم پانی کا پتیلا درخت کے قریب رکھا‘زمین کھودی‘ درخت کی جڑیں جب پوری طرح ننگی ہوگئیں تو اس نے کھولتا ہوا گرم پانی جڑوں میں ڈال دیا‘ مٹی ڈالی اور ہاتھ جھاڑ کر کھڑا ہوگیا‘ حیران پریشان شہزادے نے بڑے ادب سے عرض کیا”گرو میں آپ کی تکنیک سمجھ نہیں پایا“برہمن نے ہنس کر اپنا ہاتھ گنجے سرپر پھیرا اور شرارتی لہجے میں بولا ”کچھ نہیں مہاراج ذرا درخت سے انتقام لے رہا تھا‘
مجھے بچپن میں اس درخت سے ٹھوکر لگی تھی‘ میں نے آج اس کی جڑوں میں گرم پانی ڈال دیا‘ یہ درخت اب سوکھ جائے گا اور میراانتقام پورا ہوجائے گا“ پریشان شہزادے نے حیرت سے پوچھا”گرو آپ کو اتنی مشقت کی کیا ضرورت تھی‘ آپ سیدھا سادادرخت کاٹ دیتے“ برہمن نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور خوفزدہ لہجے میں بولا”رام رام‘کیا میں برہمن ہوکر درخت کاٹوں گا؟“ شہزادے نے قہقہہ لگایا‘ نیچے جھکا اور برہمن کے قدم چھو کر بولا” گرو میں اب اپنی شناخت آپ پر کھول دیتا ہوں‘ میں چندرگپت ہوں‘ پاٹلی پتر سے آیاہوں‘ آج سے آپ میرے گرو بھی ہیں اور مشیر بھی‘ میں پوری زندگی آپ کا بالکا بن کر گزاروں گا“۔دونوں نے قہقہہ لگایا اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیا‘ یہ ساتھ اس کے بعد زندگی کی ڈور ٹوٹنے تک جاری رہا۔یہ برہمن وشنوگپت تھا‘ اس کے ماں باپ نے اس کا یہی نام رکھا تھالیکن تاریخ نے اسے چانکیہ کوٹلیہ کا نام دے دیا‘وہ ٹیکسلاکا رہنے والا تھا‘ قدرت نے اس کو بے شمار صلاحیتوں سے نواز رکھاتھا‘وہ350 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور283 قبل مسیح میں انتقال کر گیا لیکن وہ آج تک اپنے فارمولوں اوراپنی شاطرانہ چالوں کے باعث دنیا میں زندہ ہے‘ آج بھی جب ”مائیٹ از رائیٹ “ کی بات آتی ہے یااقتدار اور طاقت کا سوال اٹھتا ہے تو فوراً ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کی شکل میں چانکیہ سامنے آجاتاہے‘ کہانی کا دوسرا کردار چندر گپت موریہ تھا‘
چندر گپت نے چانکیہ کی مدد سے ہندوستان میں پہلی وسیع اور مستحکم سلطنت بنائی‘موریہ سلطنت کی سرحدیں شمالی ہندوستان کے شہر پاٹلی پتر(پٹنہ) سے کابل‘ کابل سے ہرات اور ہرات سے بنگال تک پھیلی تھیں‘ چندرگپت ہندوستان کا پہلا راجہ تھا جس کا سکہ بحیرہ عرب سے خلیج بنگال تک چلتا تھااور چانکیہ اس کا مشیر خاص تھا‘ چانکیہ چندرگپت کی زندگی میں پوری طرح رچ بس چکا تھا‘ اس نے اس کیلئے ایک کتاب بھی لکھی‘ تاریخ اس کتاب کو ”ارتھ شاستر“ کہتی ہے‘
یہ کتاب حکومت کاری کی ایسی قدیم ترین دستاویز ہے جس میں چانکیہ نے حرم سے لے کر جرم تک زندگی کے ہرزاویئے پر حکمرانوں کی رہنمائی کی‘ چندرگپت موریہ 296قبل مسیح میں ”سورگ باش“ ہوگیااورچانکیہ بھی283 قبل مسیح میں مرگیا لیکن یہ دونوں اپنے پیچھے حکومت کاری کاایک ایساماڈل چھوڑ گئے جسے ہندوستان کے ہرہندوراجے نے اپنایا اورکامیابی حاصل کی‘ ارتھ شاستر‘ چانکیہ اور چندرگپت موریہ ہندو نفسیات کی اصلی اور سچی تصویریں ہیں اور کوئی بھی شخص ان تینوں کے مطالعے کے بغیر ہندوستانی معاشرے اور حکمرانوں کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ہندو سلطنت کو!
جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم تھے‘ وہ چانکیہ کو اپنا روحانی گرو کہتے تھے ‘وہ وزیراعظم بننے سے پہلے چانکیہ کے قلمی نام سے اخبارات میں کالم بھی لکھا کرتے تھے‘ وہ وزیراعظم بنے اور بھارت کی فارن پالیسی کے تعین کا مرحلہ آیا تو نہرونے ارتھ شاستر کا ایک فقرہ لکھ کر اپنے دفترخارجہ کے حوالے کردیا‘ وہ فقرہ تھا”ہمسایہ دشمن ہوتا ہے لیکن ہمسائے کا ہمسایہ دوست“چانکیہ کا یہ فلسفہ اس دن سے بھارت کی فارن پالیسی ہے‘ آپ کےلئے شاید یہ بھی خبر ہوگی دہلی کے ”ڈپلومیٹک انکلیو“ کا نام چانکیہ پوری ہے اور مین بلیوارڈ ”کوٹلیہ مارک“ کہلاتاہے‘
یہ دونوں نام بھی بھارت کی ”فارن پالیسی“ کو ظاہر کرتے ہیں‘ بھارت نے ہر دور میں ہمسائے کو اپنا دشمن اورہمسائے کے ہمسائے کو اپنا دوست سمجھا‘ آپ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں‘ بھارت نے چین کو ہمیشہ اپنا دشمن اور روس کو دوست سمجھا‘ پاکستان اس کا دشمن ہے اور افغانستان دوست اور یہ نیپال‘ برما‘ سری لنکا‘ بھوٹان‘ مالدیپ اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی پولیس مین جیسا سلوک کرتا ہے لیکن یہ ہمیشہ کوریا‘، تھائی لینڈ‘ فلپائن‘ سنگاپور اور جاپان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوشش کرتاہے‘
آپ اگر ارتھ شاستر پڑھ کر بھارت کی فارن پالیسی پر ذرا سا غور کریں گے تو آپ کو انڈیا کی ساری فارن پالیسی چانکیہ کے فلسفے پر استواردکھائی دے گی اور آپ اگر ذرا سی گہرائی میں چلے جائیں تو آپ کوبھارت صرف فارن پالیسی میں چانکیہ کا معتقددکھائی نہیں دے گا بلکہ یہ ”آریہ کبھی غلام نہیں رہ سکتا“ کے فلسفے کے تحت سپر پاوربننے ”ہندوستان ماں ہے اور ماں تقسیم نہیں ہوسکتی“ کے نظریے کے تحت اکھنڈ بھارت اور ”دشمن کوقتل نہ کرو‘ اس کی جڑوں میں گرم پانی ڈال دو“ کے فارمولے کے تحت برصغیر سے مسلمانوں کی بیخ کنی کرتا بھی دکھائی دے گا‘
بہرحال یہ ایک تفصیل اور غور طلب تحقیق ہے جبکہ ہمارا فوری ایشو بھارت کی جارحانہ پالیسی اور پاکستان سے جنگ کی خواہش ہے اور اس خواہش کا تعلق افغانستان سے ہے۔ بھارت نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمارے ہمسائے افغانستا ن کو گلے لگا لیا ‘ افغان بھارت دوستی 1980ءتک قائم رہی‘ افغان وار شروع ہوئی تو پاکستان کو افغانستان میں داخل ہونے کا موقع مل گیا‘1990ءمیں روس گیا تو پاکستان کابرہان الدین ربانی‘صبغت اللہ مجددی اور حکمت یار کی شکل میں افغانستان میں عمل دخل بڑھ گیا‘
افغانستان کے یہ رہنما فارغ ہوئے تو پاکستان طالبان کی صورت میں افغانستان میں موجود رہا‘ اس دوران بھارت نے شمالی اتحاد پر سرمایہ کاری شروع کردی‘ اکتوبرنومبر2001ءمیں شمالی اتحاد نے طالبان کو شکست دے دی جس کے بعد امریکا نے حامد کرزئی کوافغانستان کاحکمران بنادیا‘شمالی اتحاد حامد کرزئی کا اتحادی بن گیا‘یہ لوگ افغانستان میں انڈیا کا دفتر خارجہ بن گئے‘ پاکستان اس کے ساتھ ہی افغانستان سے خارج ہونا شروع ہوگیااور بھارت کو ایک بار پھرہمسائے کے ہمسائے کو دوست بنانے کا موقع مل گیا‘2001ءمیں 21برس بعد بھارت نے افغانستان کے وزیرداخلہ یونس قانونی کو دہلی بلایا‘
وزیرخارجہ جسونت سنگھ‘ وزیردفاع جارج فرنینڈس اوروزیرداخلہ ایل کے ایڈوانی نے اس کے ساتھ ملاقات کی اور اسے افغانستان میں پولیس کا نظام ترتیب دینے کی پیشکش کر دی‘بھارت نے افغانستان کیلئے 10 کروڑڈالر امدادکا اعلان بھی کیا‘ دہلی کابل پروازیں شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا اور افغانستان کی تعمیر نو کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کردیں‘اس ملاقات کے ساتھ ہی افغانستان میں ایک نیا سفارتی کھیل شروع ہوگیا‘ افغانستان‘ انڈیا اور امریکا تینوں ایک میز پر بیٹھ گئے‘
پاکستان یہ سیاسی دست درازیاں دیکھتا رہا لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امریکی دباﺅ کے باعث افغانستان میں کھل کر بھارت کا مقابلہ نہ کرسکا‘ صدر حامد کرزئی کو پاکستان کی نسبت بھارت زیادہ سوٹ کرتا تھا لہٰذا وہ بھی بازو پھیلا کر بھارت کی طرف بڑھتے چلے گئے اور یوں ہمسائے کا ہمسایہ یعنی افغانستان بھارت کا گہرا دوست بن گیا‘ بھارت نے افغانستان میں 14سفارتی اڈے بنائے اور خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں گڑ بڑ شروع کردی‘ را نے فاٹا اور بلوچستان کے ناراض بلوچ نوجوانوں کو ہتھیار‘ رقم اور بارود تک فراہم کیا‘
بھارت کی اس سفارتی دہشت گردی سے پاکستان کے اندرونی حالات خراب ہوتے چلے گئے ‘ بلوچستان میں آگ بھی لگ گئی‘ مجھے جنرل پرویز مشرف نے بتایاتھا ”میں نے 6ستمبر2006ءکو افغانستان کے دورے کے دوران صدر حامد کرزئی سے بھارت نوازی کا شکوہ کیاجس کے جواب میں صدر کرزئی ”یس سر‘ نوسر“کرتے رہے“بھارت نے 2007-08ءمیں افغانستان کے ذریعے بلوچستان اور کے پی کے میں بڑی سطح پر گڑ بڑ شروع کر دی‘ امریکا یہ حرکتیں خاموشی سے دیکھتا رہا‘
بھارت کا خیال تھا یہ کے پی کے اور بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کرے گا‘ پاک فوج کا آدھا حصہ مغربی سرحدوں پر شفٹ ہو جائے گا‘ آدھی فوج مشرقی بارڈر پر ہو گی‘ یہ دونوں محاذ گرم رہیں گے‘ فوج تھک جائے گی‘ ملک فوج کی معاشی ضروریات پوری کرتے کرتے دیوالیہ ہو جائے گا‘ بھارت کے دوست پاکستان پر دہشت گردی کے الزام لگا کر اسے سفارتی محاذ پر تنہا کر دیں گے اور پھر ایک دن بھارت پاکستان پر حملہ کر کے اس کے ٹکڑے کر دے گا‘
یہ چانکیہ کی سکیم کے لحاظ سے ایک آئیڈیل منصوبہ تھا لیکن بھارتی زعماءاس وقت حیران رہ گئے جب پاکستان نے اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنانا شروع کر دیا‘ اس نے دہشت گردی کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا‘ کمزور معیشت میں رہ کر عزت سے زندگی گزارنے کا گُر بھی سیکھ لیااور سی پیک جیسے پراجیکٹس بھی شروع کر دیئے‘ یہ نتائج چانکیہ فلاسفی سے بالکل مختلف تھے چنانچہ بھارت نے ٹینشن میں آ کر پاکستان سے براہ راست ”پنگے بازی“ شروع کر دی‘
آپ پچھلے چار سال کی پاک بھارت ٹینشن کا مطالعہ کر لیں‘ آپ کو انڈیاہر چھوٹی بڑی دہشت گرد کے بعدپاکستان پر یلغار کرتا نظر آئے گا‘آپ اسے پاکستان کوجنگ کی دھمکیاں دیتے بھی دیکھیں گے‘یہ یلغار اور یہ دھمکیاں انڈیا کی فرسٹریشن کو ظاہر کرتی ہیںیوں محسوس ہوتا ہے یہ اپنی سکیم کو بگڑتا دیکھ کر پریشان ہے اور یہ پریشانی آپ کو پلواما سانحے کے بعد بھی نظر آئے گی‘ انڈیا کی فرسٹریشن خطے کو جنگ کے دہانے پر لے آئی ہے۔اب سوال یہ ہے بھارت کی اگلی چال کیا ہوگی؟
ہم اگر تاریخ کا مطالعہ اور بھارتی ذہنیت کا تجزیہ کریں تو میرا خیال ہے یہ اب افغانستان اور ایران میں دہشت گردی کرا کر پاکستان کا مغربی بارڈر بھی ایکٹو کر دے گا اور یہ پھر مشرق اور مغرب دونوں طرف سے ہمیں گھیرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ یہ بھی چانکیہ کا فارمولہ تھا‘ چانکیہ کہتا تھا” دشمن کے ہمسائے کو چکی کا دوسرا پاٹ بناﺅ‘دشمن کو اس پاٹ پر رکھو اور پھر اپنے پاٹ کو اس کے اوپر رکھ دو‘دشمن چکی کے دونوں پاٹوں میں پس کر رہ جائے گا“
چنانچہ ہمیں اب مشرق کے ساتھ ساتھ مغرب پر بھی توجہ دینا ہوگی‘ بھارت کی خاموشی اور صلح کی جھنڈی یہ دونوں فریب ہیں‘یہ دونوں چانکیہ کے فارمولے ہیں‘ چانکیہ نے دو ہزار تین سو سال پہلے نریندر مودی کو یہ مشورہ دیا تھا” اچھے حکمران کے منہ میں رام رام اور بغل میں چھری ہوتی ہے“ یہ خاموشی اور صلح کی یہ جھنڈی رام رام ہے‘ نریندر مودی بغل میں چھپی چھری نکال کر ہم پر اگلا حملہ ضرور کرے گا چنانچہ ہوشیار باش!جنگ کا میدان ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا‘ چانکیہ اور اس کی سوچ ابھی نریندر مودی کی شکل میں زندہ ہے۔