ہمیں بات آگے بڑھانے سے قبل یہ ماننا ہوگا پاکستان پیپلز پارٹی ملک کےلئے انتہائی ضروری ہے‘ کیوں؟کیونکہ یہ ملک کی واحد لبرل پارٹی ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے ملک رجعت پسند جماعتوں اور گروپوں کی وجہ سے ٹوٹ تو سکتے ہیں‘ چل نہیں سکتے‘ہم بھی اگر ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں لبرل پارٹیاں چاہئیں اور یہ اس وقت واحد لبرل پارٹی ہے‘ دوسری وجہ یہ ملک کی واحد جماعت ہے جس کی جڑیں پورے ملک میں موجود ہیں‘ یہ درست ہے پیپلزپارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا ہو چکا ہے اور پانچ دریاﺅں کی سرزمین اب پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کا میدان جنگ بن چکی ہے
لیکن جیالے آج بھی زندہ ہیں اور جس دن پارٹی کو ایک اچھی اور مخلص قیادت مل گئی یہ جیالے پارٹی کوپنجاب میں ایک بار پھر زندہ کر دیں گے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں اگر پیپلز پارٹی ختم ہو گئی تو ملک میں پھر کوئی سنٹرل پارٹی نہیں بچے گی‘سیاست علاقائی‘ مذہبی اور نسل پرست جماعتوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی‘ یہ جماعتیں مل کر وفاق میں حکومتیں بنائیں گی‘ وہ حکومتیں بہت کمزور ہوں گی اور وہ کمزور حکومتیں ملک کو مزید کمزور کر دیں گی چنانچہ ہمیں ہر صورتحال میں سنٹرل پارٹیاں چاہئیں اور تیسری وجہ آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں سب سے زیادہ تجربہ کارلوگ موجود ہیں‘ یہ لوگ 1960ءاور 1970ءکی دہائی میں سیاست میں آئے اور یہ اب پوری طرح پک چکے ہیں‘ ان لوگوں کو اگر ایک ایماندار اور سمجھ دار قیادت مل جائے تو یہ لوگ آج بھی ملک چلا سکتے ہیں۔ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کیا بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ جعلی اکاﺅنٹس اور منی لانڈرنگ کا حصہ تھے‘ میرا خیال ہے نہیں‘ ہم مراد علی شاہ سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ ایک پڑھے لکھے‘ متحرک اور مخلص وزیراعلیٰ ہیں‘ یہ اپنے صوبے کو ترقی یافتہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے راستے میں فریال تالپور اور آصف علی زرداری کے سپیڈ بریکر ہیں‘یہ سپیڈ بریکرز ان کی رفتار کو بڑھنے نہیں دے رہے‘ یہ جس دن ہٹ گئے مراد علی شاہ اس دن سندھ کےلئے میاں شہباز شریف ثابت ہوں گے
اور جہاں تک بلاول بھٹو کا معاملہ ہے یہ اپنے والد اور پھوپھی کی فصل کاٹ رہے ہیں‘ یہ جب بھی اڑنے لگتے ہیں تو ماضی ان کے دونوں پروں کا بوجھ بن جاتا ہے اور یہ نیچے جا گرتے ہیں‘ یہ نیا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ثابت ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ اپنے بزرگوں کے سائے سے باہر نہیں آ پا رہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا یہ پنجاب کی طرح سندھ سے بھی مکمل فارغ ہو جائے یا پھر یہ بلاول بھٹو کو مکمل آزاد اور خود مختار چیئرمین بنا دے‘ پارٹی کے تمام فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوں اور یہ آزادی کے ساتھ فیصلے کریں‘
حکومت نے ان کا نام ای سی ایل پر ڈال کر اور جے آئی ٹی نے ان کو جعلی اکاﺅنٹس میں ملوث کر کے زیادتی کی‘ یہ زیادتی اب بلاول کی زبان اور سوچ دونوں میں ظاہر ہو رہی ہے تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کا نام جے آئی ٹی اور ای سی ایل سے نکال کر بہت اچھا کیا‘ والد کی غلطیوں کی سزا بیٹے کو نہیں ملنی چاہیے‘ یہ اگر والد کے ساتھ بریکٹ رہتے تو یہ اینٹی پاکستان اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو جاتے اور یہ بلاول اور ملک دونوں کے ساتھ زیادتی ہوتی‘ ہم اب موجودہ سیاسی صورتحال کے حل کی طرف آتے ہیں۔
پہلا حل جعلی اکاﺅنٹس کیس سے متعلق ہے‘ ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا لیں تو ریاست بیس سال میں جعلی اکاﺅنٹس کیس نہیں نبٹا سکے گی‘ آپ کو اس کےلئے سینکڑوں ایکسپرٹس پر مشتمل ٹیم بھی چاہیے ‘ نجف مرزا‘ بشیر میمن اور احسان صادق جیسے مخلص اور نڈر افسر بھی اور جسٹس ثاقب نثار جیسا چیف جسٹس بھی اور ہم ایسے کتنے لوگ اکٹھے کر لیں گے اور یہ کب تک تحقیقات کر لیں گے اور اگر تحقیقات ہو بھی گئیں تو ہمیں مجرموں کو سزا دینے کےلئے قانون میں ترمیم کرنا پڑے گی
اور ترمیم کےلئے موجودہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں مطلوبہ ارکان ہیں اور نہ کیپسٹی‘ اپوزیشن حکومت کونیا قانون بنانے اور پرانے قانون میں ترمیم کی اجازت نہیں دے گی اور اگر یہ ہو گیا تو بھی جعلی اکاﺅنٹس کا پیسہ ملک سے باہر جا چکا ہے‘ ہمیں یہ پیسہ واپس لانے کےلئے ان ملکوں کا قانون تبدیل کرانا پڑے گا اور یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہو گی‘ ایران 1978ءسے برطانیہ‘ یورپ اور امریکا سے شاہ ایران کا پیسہ واپس مانگ رہا ہے‘ ایران کو آج تک ایک دھیلا نہیں ملا‘ فلپائن کے فرڈی نینڈ مارکوس نے 16بلین ڈالر لوٹے تھے‘
یہ بھی آج تک فلپائن واپس نہیں آئے‘ مصر کے حسنی مبارک‘ لیبیا کے کرنل قذافی‘ تیونس کے زین العابدین بن علی اور عراق کے صدام حسین کے اربوں ڈالر بھی یورپ‘ امریکا اور برطانیہ کے مگرمچھ کھا گئے‘یہ رقمیں بھی واپس نہیں آئیں‘ ہمیں بھی یہ رقم واپس نہیں ملے گی اور ہم الٹا تحقیقات‘ مقدمات اور جیلوں پر مزید اربوں روپے ضائع کر دیں گے‘ اومنی گروپ اس وقت ظاہری اور خفیہ 14شوگر ملوں کا مالک ہے‘ یہ شوگر ملیں اس وقت تک ورکنگ پوزیشن میں ہیں‘
یہ آنے والے چند مہینوں میں کاٹھ کباڑ بن جائیں گی‘ سکینڈل کی زد میں آنے والے بینک بھی تباہ ہو جائیں گے‘ ان بینکوں کے لاکھوں کھاتہ دار بھی سڑکوں پر آ جائیں گے اور سکینڈل میں ملوث زیادہ تر لوگ بوڑھے اور بیمار ہیں‘ یہ اس دوران انتقال کر جائیں گے اور یوں ان کا مال جس جس شخص کے پاس ہے وہ ڈکار مار جائے گا چنانچہ ہمیں آخر میں اس احتساب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ ہم ہرطرف سے خسارے میں رہیں گے لہٰذا میری حکومت سے درخواست ہے آپ ایک مثبت اور بڑا یوٹرن لیں‘
آپ ایک بڑی ایمنسٹی سکیم لانچ کریں اور آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سمیت تمام لوگوں کو این آر او دے دیں‘یہ لوگ اپنی جائیدادیں‘ جعلی اکاﺅنٹس اور منی لانڈرنگ کی رقمیں خزانے میں جمع کرا دیں‘ پارٹی کی قیادت اور سیاست چھوڑ دیں اور دنیا میں جہاں جانا چاہیں چلے جائیں‘ حکومت اومنی گروپ کی شوگر ملیں‘ زمینیں اور کمرشل پراپرٹیز بھی نیلام کر دے اور یہ سارا سرمایہ ڈیم فنڈ میںجمع کرا دے یوں ریاست کو اربوں روپے بھی مل جائیں گے اور یہ تحقیقات اور مقدمات کی خواری سے بھی بچ جائے گی ورنہ دوسری صورت میں ہم مزید دو چار ارب روپے ضائع کر بیٹھیں گے۔
دوسرا حل کرپشن سے متعلق ہے‘ حکومت مستقبل میں کرپشن کے خاتمے کےلئے خفیہ اداروں کا ایک خفیہ سیل بنا دے‘ یہ سیل کرپشن کے خلاف خفیہ تحقیقات کرے اور جوں ہی کوئی شخص‘ کوئی عہدیدار کرپٹ ثابت ہو جائے حکومت دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی طرح اس شخص کے خلاف خفیہ مقدمہ چلائے‘ رقم وصول کرے‘ اسے جیل میں ڈالے یا پھر اسے ملک بدر کر دے‘ اس سے قوم کا وقت اور سرمایہ بھی بچ جائے گا اور ریاست کو لوٹا ہوا مال بھی واپس مل جائے گا‘
ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی نیب کی کھلی کارروائیوں سے ملک میں خوف پیدا ہورہا ہے اور یہ خوف ملک اور معیشت کونقصان پہنچارہا ہے‘ بیورو کریٹس کام نہیں کررہے اور سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں‘ کرپشن کے خلاف خفیہ تحقیقات‘ خفیہ خصوصی عدالتوں اور خصوصی قوانین کی وجہ سے معاشرے میں خوف بھی پیدا نہیں ہوگا‘ لوٹی ہوئی دولت بھی واپس مل جائے گی اور خفیہ آنکھ کی دہشت کی وجہ سے کرپشن بھی رک جائے گی‘ ہم اگر دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کےلئے خصوصی فوجی عدالتیں اور خصوصی قوانین بنا سکتے ہیں تو کرپشن کے خلاف خصوصی قوانین‘ خصوصی خفیہ سیل اور خصوصی عدالتیں بنانے میں کوئی حرج نہیں‘
یہ ملک کےلئے زیادہ مفید ثابت ہوں گی اور آخری حل ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو اب اپنی اپنی قیادت تبدیل کر لینی چاہیے‘ ملک کی فیصلہ ساز قوتیں ماضی میں ان دونوں پارٹیوں کو قیادت تبدیل کرنے کا بار بار موقع دیتی رہیں‘ جنرل راحیل شریف کے دور میں آصف علی زرداری کی جگہ بلاول بھٹو‘ میاں نواز شریف کی جگہ میاں شہباز شریف اور الطاف حسین کی جگہ فاروق ستار کو بٹھانے کی سنجیدہ کوششیں ہوئیں‘
آصف علی زرداری اور جنرل راحیل شریف کے درمیان وزیراعلیٰ ہاﺅس سندھ میں خفیہ ملاقات کا بندوبست بھی کیاگیا‘ آصف علی زرداری آ گئے لیکن جنرل راحیل شریف نہیں آ سکے تاہم دونوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا‘ جنرل راحیل شریف نے آصف علی زرداری کو مشورہ دیاآپ بلاول بھٹو پر اعتماد کریں‘ یہ پارٹی کو سنبھال لیں گے‘ ملک پیپلز پارٹی جیسی لبرل جماعت کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا‘ زرداری صاحب نے وعدہ کر لیا لیکن یہ وعدہ بعد ازاں نبھایا نہیں گیا‘
میاں نواز شریف 22مئی 2016ءکو دل کے آپریشن کےلئے لندن گئے ‘ آپریشن سے ایک دن پہلے انہوں نے مارک اینڈ سپنسر کی کافی شاپ میں بیٹھ کر میاں شہباز شریف کو پارٹی اور سیاست سنبھالنے کی آفر کی‘ میاں شہباز شریف نے صاف انکار کر دیا‘ آپریشن کے بعد میاں نواز شریف نے دوبارہ شہباز شریف کو بلایا اور اڑھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد انہیںقائل کر لیا‘ طے ہو گیا میاں نواز شریف اگلے دن ہسپتال سے تقریر کریں گے اور سیاست اور پارٹی دونوں سے دستبردار ہو جائیں گے‘
عرفان صدیقی کو تقریر لکھنے کےلئے طلب کیا گیا لیکن عرفان صدیقی نے میاں نواز شریف کو یوٹرن لینے پر مجبور کر دیا‘ اس کے بعد جو ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا‘میاں نواز شریف اگر اس وقت چند قدم پیچھے ہٹ جاتے تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے‘ اسی طرح اگر الطاف حسین بھی 2016ءمیں اپنی انا کی قربانی دے دیتے‘ یہ فاروق ستار جیسی آفر قبول کر لیتے تو آج ایم کیو ایم بھی چار ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتی‘ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا‘ ملک کی تینوں پارٹیوں کو اب ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں‘ان تینوں کو بلاول بھٹو‘ میاں شہباز شریف اور فاروق ستار کو تسلیم کر لینا چاہیے‘
یہ لوگ آئیں‘ پارٹیوں کی قیادت سنبھالیں اور حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں تاکہ ملک ٹریک پر آ سکے اور اس کےلئے عمران خان کو اپنی انا کی قربانی دینی ہو گی‘ یہ آخری یوٹرن لیں‘ ایمنسٹی کی شکل میں این آر او دیں اور اس جھنجٹ سے ملک اور اپنی دونوں کی جان چھڑا لیں‘ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی باعزت آپشن نہیں بچا اور اگر عمران خان یہ فیصلہ نہیں کرتے تو پھر یہ فیصلہ ایمرجنسی کرے گی‘ ملک میں ایمرجنسی لگے گی اور یہ سارے فیصلے اس ایمرجنسی میں ہوں گے اور ہم بڑی تیزی سے اس ایمرجنسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔