وہ اکثر سکول جاتے ہوئے گلیوں میں کام کرتے بچوں کو دیکھتا تھا اور پھر اپنے آپ سے پوچھتا تھا ”مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے‘ کیا یہ بچے نہیں ہیں اور کیا یہ اور ان کے والدین انہیں میری طرح سکول میں نہیں دیکھنا چاہتے‘ کیا تعلیم ان کا حق نہیں“ وہ روز یہ سوال اپنے آپ سے پوچھتا تھا اور اسے جواب میں کوئی جواب نہیں ملتا تھا‘ وہ ایک دن تنگ آ کر یہ سوال لے کر اپنی دادی کے پاس پہنچ گیا‘ دادی نے سنا‘ مسکرائی اور آہستہ آواز میں بولی ”بیٹا قدرت صرف خوش نصیب بچوں کو بچپن اور تعلیم کی نعمت دیتی ہے‘ تم خوش نصیب ہو اور گلیوں میں گھومتے پھرتے یہ بچے بدنصیب اور بس“ لیونارڈو مزید کنفیوژ ہو گیا‘
وہ بار بار ان بچوں کو دیکھتا اور خود سے سوال کرتا ”کیا ان بچوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا‘ کیا یہ کسی کی ذمہ داری نہیں ہیں“ میں کہانی آگے بڑھانے سے قبل آپ کو انسانی ذہن کی ایک دلچسپ عادت بتاتا چلوں‘ ہم انسان اگر مسلسل چالیس دن تک کوئی سوال بار بار اپنے آپ سے پوچھتے رہیں تو ہمارا دماغ اس سوال کا جواب‘ اس مسئلے کا حل تلاش کر لیتا ہے‘ دنیا کی تمام ایجادات نے انسان کی اس صلاحیت سے جنم لیا‘ انسان بار بار سوچتا اور انسانی دماغ حل تجویز کرتا رہا یہاں تک کہ انسان نے ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی ”سوٹ ایبل“ حل نکا لیا‘ اولیاء کرام انسان کی اس صلاحیت کو”قانون اوسط“ کہتے ہیں‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں آپ چالیس نامعلوم لوگوں کو خط لکھیں‘ آپ چالیس لوگوں کو دعوت دیں یا آپ مختلف ڈائریکشنز میں چالیس کوششیں کریں‘ آپ کو کوئی ایک شخص مثبت جواب ضرور دے گا‘ آپ چالیس درخواستیں جمع کرا دیں آپ کو کسی ایک درخواست کا جواب بھی ضرور ملے گا‘یہ لوگ قانون اوسط کو دعا کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں‘ یہ چالیس دعائیں کرتے ہیں‘ کوئی ایک دعا قبول ہو جاتی ہے‘ یہ چالیس روزے رکھتے ہیں‘ چالیس نفل پڑھتے ہیں یا پھر چالیس کنوؤں کا پانی پیتے ہیں‘ کوئی ایک کنواں‘ کوئی ایک نفل یا کوئی ایک روزہ ان کی مراد پوری کر دیتا ہے‘ یہ اس راہ پر چل پڑتے ہیں یہ جس کی تلاش میں بھٹک رہے تھے‘ لیونارڈو بھی نہ جانتے ہوئے ”قانون اوسط“ پر عمل کرتا رہا‘ یہ بار بار یہ سوال اپنے آپ سے پوچھتا رہا اور پھر ایک دن اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا‘
اس کے اندر سے آواز آئی یہ بچے اس لئے تعلیم سے محروم ہیں کہ آج تک کسی نے ان کیلئے کوشش نہیں کی‘ کسی نے غریب اور بے بس بچوں کیلئے سکول نہیں بنایا‘ لیونارڈو کیلئے یہ جواب کافی تھا‘ وہ اٹھا اور بھاگتا ہوا اپنی دادی کے پاس چلا گیا‘ لیونارڈو دادی کے پاس کیوں گیا؟ ہم آپ کو یہ ضرور بتائیں گے لیکن اس سے قبل لیونارڈو کا تعارف ضروری ہے۔لیونارڈو کا پورا نام لیونارڈو نائکا نارکوئن ٹیروز ہے‘ یہ ارجنٹائن کے صوبے سان جوان کے چھوٹے سے گاؤں لاس پیڈریٹاس میں رہتا ہے‘
اس کی عمر صرف بارہ سال ہے اور یہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے‘ یہ سکول کا ریگولر طالب علم ہے‘ پڑھائی میں بہت اچھا اور فرمانبردار ہے‘ لیونارڈو کے گاؤں میں غربت ہے اور بے شمار والدین غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو سکول نہیں بھجوا پاتے‘ لیونارڈو جب بھی گھر سے سکول کیلئے نکلتا تھا تو اسے راستے میں بے شمار بچے گھر اور دکانوں کی دہلیز پر بیٹھے دکھائی دیتے تھے‘ یہ بچے اس کی یونیفارم‘ اس کے بستے اور اس کی سائیکل کو بڑی حیرت سے دیکھتے تھے‘
لیونارڈو کو یہ حسرت بہت تکلیف دیتی تھی چنانچہ وہ ان بچوں اور ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں مسلسل سوچتا رہتا تھا اور ایک دن قانون اوسط کی وجہ سے اسے جواب مل گیا اور اس نے بارہ سال کی عمر میں ایک ایسا سکول بنانے کا فیصلہ کر لیا جس کا سارا عملہ بچوں پر مشتمل ہو اور جس میں بچے اپنے جیسے بچوں کو مفت تعلیم دیں‘ وہ بھاگتا ہوا اپنی دادی رامونا کے پاس پہنچا‘ اپنا آئیڈیا اس کے ساتھ شیئر کیا اور اس سے اس کے گھر کا پچھلا حصہ مانگ لیا‘ دادی کے گھر کا پچھلا حصہ کچا اور بے کار تھا‘
دادی نے وہ حصہ ہنسی خوشی اس کے حوالے کر دیا‘ دادی کا خیال تھا یہ بچوں جیسا آئیڈیاہے اور یہ بچہ بہت جلد مایوس ہو کر اس آئیڈیئے سے دستبردار ہو جائے گا لیکن لیونارڈو ایک مختلف بچہ نکلا‘ اس نے گھر کا کاٹھ کباڑ اکٹھا کیا اور گھر کے پچھلے حصے میں چھوٹا سا سکول کھول لیا‘ وہ اس سکول کا چپڑاسی بھی تھا‘ استاد بھی اور پرنسپل بھی‘ اس نے اس کے بعد اپنے تمام عزیزوں‘ رشتے داروں اور گلی محلے کے لوگوں سے ٹوٹی کرسیاں‘ بینچ‘ بانس‘ بالٹیاں‘ ٹائر‘ گتے‘ لکڑی‘ کپڑے‘ پرانے قالین‘ دریاں اور رائٹنگ بورڈ اکٹھے کئے‘
خود گارا بنایا‘ لیپ کیا اور سکول کھول لیا‘ سکول میں شروع میں صرف دو طالب علموں نے داخلہ لیا لیکن پھر آہستہ آہستہ لیونارڈو کی سنجیدگی دیکھ کر طالب علم اکٹھے ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ سکول میں بچوں کی تعداد چالیس ہو گئی‘ ان 40 طالب علموں میں 36 بچے لیونارڈو سے عمر میں چھوٹے ہیں جبکہ چار اس سے بڑے ہیں‘ یہ دوپہر تک خود سکول جاتا ہے اور سکول ختم کرنے کے بعد اپنے ذاتی سکول میں آ جاتا ہے اور اس نے اپنے اساتذہ سے جو کچھ پڑھا ہوتا ہے وہ اپنے طالب علموں کو پڑھا دیتا ہے‘
لوگ اس کے جذبے سے متاثر ہو رہے ہیں چنانچہ یہ اب اس کی کھل کر مدد کر رہے ہیں‘ لوگوں نے اسے گھنٹی بھی خرید دی ہے‘ سکول میں اب لائبریری‘ لاکرز روم اور ساؤنڈ سسٹم بھی لگ چکا ہے اور اس کے ساتھی طالب علموں نے بھی اس کے ساتھ پڑھانا شروع کر دیا ہے‘ یہ بھی اب اس کے سکول کا سٹاف بن چکے ہیں‘ لیونارڈو کے سکول میں تعلیم بالغاں بھی شروع ہو چکی ہے‘ یہ لوگ فالتو وقت میں جوان اور بوڑھوں کو بھی پڑھاتے ہیں‘ یہ سکول سردی‘ گرمی‘ برسات اور برف باری ہر موسم میں کھلا رہتا ہے اور یہ کسی طالب علم کو زبردستی کلاس روم میں لے کر نہیں آتے‘ سٹوڈنٹس اپنی رضامندی اور خواہش کے مطابق خوشی خوشی سکول آتے ہیں‘
یہ اپنے اس ننھے سے سکول کی صفائی اور حفاظت بھی خود کرتے ہیں‘ لیونارڈو اور اس کا سکول این جی اوز کی نظروں میں بھی آ رہا ہے چنانچہ یہ بھی اب اس سکول کو فنڈ دے رہی ہیں‘ امداد کی وجہ سے سکول کی حالت بہتر ہوتی جا رہی ہے‘ حکومت نے بھی طالب علموں کو وظائف دینا شروع کر دیئے ہیں‘ لیونارڈو کا خیال ہے وہ پورے علاقے میں اس قسم کے سکول بنائے گا‘ یہ سکول سٹوڈنٹس سکول کہلائیں گے جن کی ساری مینجمنٹ طالب علموں کے پاس ہو گی‘ یہ کلرک بھی ہوں گے‘ چپڑاسی بھی‘ استاد بھی اور پرنسپل بھی اور یہ خانساماں بن کر اپنے طالب علموں کیلئے خوراک کا بندوبست بھی کریں گے‘ یہ ارجنٹائن میں اصل انقلاب ثابت ہوں گے۔
لیونارڈو پوری دنیا کے بچوں کیلئے دلچسپ مثال بن رہا ہے‘ یہ تیزی سے ثابت کرتا جا رہا ہے نیکی اور فلاحی ادارے بنانے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ہے‘ آپ کی نیت اگر نیک ہے تو پھر آپ بارہ سال کی عمر میں گارے کا سکول بنا کر بھی کمال کر سکتے ہیں‘ آپ پوری دنیا کو حیران کر سکتے ہیں‘ دنیا میں اگر کنایہ سیسرجیسی معذور بچی 15سال کی عمر میں ماڈل اور سپورٹس پرسن بن سکتی ہے‘اگر دہلی کا سونو چھوٹی سی عمر میں یعنی 13 سال میں بچوں کا بینک بنا سکتا ہے اور اگر رابرٹ 14سال میں پزل گیم بنا سکتا ہے‘
اگر ریان چھوٹی سی عمر میں سوشل میڈیا کے ذریعے کروڑ پتی بن سکتا ہے اور اگر ریکو روڈرگزاور جیڈن سمتھ کم عمری میں بطور چائلڈ سٹار کروڑوں روپے کما سکتے ہیں تو بچے دس‘ بارہ اور پندرہ سال کی عمر میں ویلفیئر کا کام کیوں نہیں کر سکتے‘ یہ لیونارڈو کی طرح اپنے گھروں کے پچھلے حصوں میں چیریٹی سکول کیوں نہیں بنا سکتے‘ یہ غریبوں کیلئے کھانے پینے‘ کپڑوں اور جوتوں کا بندوبست کیوں نہیں کر سکتے اور یہ غریب مریضوں کے علاج معالجے کا انتظام بھی کیوں نہیں کر سکتے؟
بچے بہت بڑی طاقت ہیں‘ یہ اگر بچپن میں پڑھ سکتے ہیں تو یہ پڑھا بھی سکتے ہیں‘ یہ اگر چیزیں خرید سکتے ہیں تو یہ چیزیں بیچ بھی سکتے ہیں اور یہ اگر سمجھ سکتے ہیں تو یہ دوسروں کو سمجھا بھی سکتے ہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ بچوں کو چھوٹا سمجھ کر ان کی صلاحیتوں کو ”اگنور“ کر دیتے ہیں‘ ہم انہیں لیونارڈو کی طرح پھلنے اور پھولنے کا موقع نہیں دیتے‘ ہم ان کی گروتھ کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ وہ بنیادی المیہ ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ رک سا گیا ہے‘
ہم ایک منجمد سماج بن گئے ہیں‘ میرے پاس بے شمار والدین اپنے بچوں کی شکایت لے کر آتے ہیں‘ یہ کہتے ہیں ہمارے بچے جوان ہو چکے ہیں‘ یہ اپنی تعلیم بھی مکمل کر چکے ہیں لیکن یہ کام نہیں کرتے‘ میں ان سے ہنس کر کہتا ہوں آپ پچیس سال تک بچے کو یہ بتاتے رہے ہیں تم فکر نہ کرو تمہارا باپ اور تمہاری ماں سلامت ہیں لیکن اب آپ اسے اچانک کہہ رہے ہیں تم نکھٹو ہو‘ تم نالائق ہو‘ تم کچھ نہیں کرتے اور آپ کا بچہ یہ سوچ کر کنفیوژ ہو رہا ہے کہ آپ کا پچیس سال کا سبق ٹھیک ہے یا آپ کا آج کا پیغام ٹھیک ہے‘
آپ نے اگر بچپن میں اسے کام کی عادت ڈالی ہوتی تو آج یہ ایسا نہ ہوتا‘ ہمارے بچوں میں سے اگر کچھ بچے لیونارڈو کی طرح بچپن میں ویلفیئر کا کام شروع کرنا چاہتے ہیں تو آپ انہیں کرنے دیں کیونکہ یہ جوان ہو کر ہم سے نیکی میں بھی آگے ہوں گے اور یہ ہمارے مقابلے میں فوکسڈ بھی زیادہ ہوں گے‘ ہم میں سے بھی لیونارڈو نکلنے چاہئیں‘ یہ ہوں گے تو یہ ملک چلے گا ورنہ ہم اسی طرح کیچڑ میں پھسلتے چلے جائیں گے۔