محمد سعید بھکر کے غیر معروف گاﺅں کا رہائشی تھا‘ یہ 2011ءمیں موٹروے پولیس میں بھرتی ہوا اور کانسٹیبل سے ترقی کرتا ہواسب انسپکٹر ہو گیا‘ اس کی آخری تقرری ملتان سیکٹر کی بیٹ 19 تھی‘ یہ بستی ملوک میں پٹرولنگ آفیسر تھا‘ 30 دسمبر کی رات بستی ملوک میں شدید سردی بھی تھی اور دھند بھی‘ صبح آٹھ بج کر دس منٹ پرحد نظر صفر ہو گئی جس کی وجہ سے ایک مسافر بس ٹرک کے ساتھ ٹکرا گئی‘ اللہ نے کرم کیا ‘ جانی نقصان نہیں ہوا‘ موٹروے پولیس نے حادثے کی جگہ کلیئر کر دی‘
ٹریفک رواں ہو گئی تاہم حادثے کی شکاربس سڑک پر کھڑی رہی‘ اس دوران ایک کار بس کے ساتھ ٹکرا گئی‘ کار کو نقصان پہنچا مگر مسافر محفوظ رہے‘ یہ کار سائیڈ پر لگا دی گئی تو ایک اور کار کھڑی بس کے ساتھ ٹکرا گئی یوںیہ مقام حادثوں کا مرکز بنتا چلا گیا‘ محمد سعید نے فوراً چمکدار کونز لیں اور ڈرائیوروں کی رہنمائی کےلئے حادثے کے مقام پر رکھنا شروع کر دیں‘ کونز ابھی پوری طرح نہیں رکھی گئی تھیں کہ بہاولپور جانے والی بس آئی اور سب انسپکٹر محمد سعید کو کچل دیا‘وہ شدید زخمی ہو گیا‘ ہسپتال دور تھا‘ ساتھی اسے لے کر ہسپتال پہنچے لیکن وہ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکا‘ وہ خالق حقیقی سے جا ملا‘ موٹروے پولیس نے حسب معمول محمد سعید کو شہید ڈکلیئر کیا‘ اس کے اعزاز میں تقریب کی‘ اسے بہادر‘ دیانت دار‘ فرض شناس اور موٹروے پولیس کا عظیم سپوت قرار دیا‘ لواحقین کےلئے 75 لاکھ روپے کا اعلان کیا اور لاش اس کے گاﺅں بھجوا دی‘ محمد سعید کا جنازہ بھی یقینا شاندار ہوا ہو گا‘ اسے اعزاز کے ساتھ دفن بھی کیا گیا ہوگااور اب اس کے خاندان نے 75 لاکھ روپے کی آس میں در در دھکے کھانا بھی شروع کر دیئے ہوں گے اور کہانی ختم۔محمد سعید غریب گاﺅں کا غریب انسان تھا اور غریب دیہات کے غریب لوگ مٹی ہوتے ہیں‘یہ مٹی بستی ملوک میں ہو یا نیویارک میں اس مٹی کا اختتام بالآخر مٹی میں ہی ہوتا ہے‘
محمد سعید بھی مٹی میں مل گیا لیکن یہ اپنے پیچھے ایک سوال چھوڑ گیا اور وہ سوال تھا ”کیا میں کسی جنگ یا جہاد میں شہید ہوا ہوں‘ کیا میں نے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی“ موٹر وے پولیس اس کا جواب یقینا ہاں میں دے گی لیکن میں محمد سعید کو مجاہد اور اس حادثے کو جہاد ماننے کےلئے تیار نہیں ہوں‘ یہ ظلم تھا اور محمد سعید اس ظالم سسٹم کی نالائقی اور ٹریننگ کی کمی کا لقمہ بن گیا‘ میں موٹروے پولیس اور مواصلات کی وزارت کو اسی فیصد حادثوں اور محمد سعید جیسے اہلکاروں کی ہلاکت کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘
چیف جسٹس کو ان حادثوں اور اہلکاروں کی ہلاکت کا نوٹس بھی لینا چاہیے ‘ آئی جی موٹروے اور مواصلات کے وزیر کے خلاف مقدمہ بھی قائم ہونا چاہیے‘کیوں؟ کیونکہ دنیا میں ہائی ویز اور موٹر ویز کے سیفٹی پروسیجرز ہیں‘ کوئی گاڑی‘ کوئی شخص اور کوئی اہلکار ان پروسیجرز کے بغیر موٹر وے پر آ سکتا ہے اور نہ ڈیوٹی دے سکتا ہے لیکن ہم ان پروسیجرز کے بغیر 21 سال سے موٹروے چلا رہے ہیں ‘ہماری اس غفلت کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں‘
ان لوگوں میں موٹروے کے اپنے چالیس اہلکار بھی شامل ہیںاور ہم ہر بار ان لوگوں کو شہید قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں‘ ہم ان لوگوں کو فرض شناس ڈکلیئر کر کے پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ہمیں ماننا ہوگا ہم ان ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں‘ ان کا خون ریاست ‘ حکومت اور موٹروے پولیس کی گردن پر آتا ہے‘ میں نے دنیا جہاں کی موٹرویز‘ ہائی ویز اور آٹو بانز پر سفر کیا ہے لیکن جتنی غیر محفوظ ہماری موٹروے ہے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘
ہم ہمیشہ موٹروے پولیس کا روایتی پولیس سے تقابل کرتے ہیں اور سینہ پھلا کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہم نے کبھی اپنی موٹروے پولیس کو امریکا‘ یورپ اور جاپان چھوڑیں ایران‘ ترکی‘ چین‘ ملائیشیااور بھارت کی ہائی ویز پولیس سے بھی کمپیئر نہیں کیا! آپ اسے کسی دن دوسرے اور تیسرے درجے کے ممالک کی ہائی وے پولیس کے سامنے کھڑا کر یں اور پھر دیکھیں‘ آپ کے سینے کی ہوا نکل جائے گی‘ہمیں اب آنکھیں کھول لینی چاہئیں‘ ہمیں اب حقائق کی بلی کا سامنا کر لینا چاہیے
اور حقائق یہ کہتے ہیں پوری دنیا میں ایکسیڈنٹ کے بعد چند منٹوں میں ایمبولینس‘ فائر بریگیڈ اور وہیکلز لفٹرحادثے کی جگہ پہنچ جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا ‘ پوری دنیا میں موٹرویز پر ہیلی کاپٹر ایمبولینس سروس موجود ہے لیکن ہم نے آج تک یہ بندوبست نہیں کیا‘ ہم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا ہمارے کنٹونمنٹس موٹروے کے قریب ہیں‘ ہم اگر فوجی ہیلی کاپٹرز کو ہی موٹروے پولیس کے ساتھ لنک کر دیں تو سینکڑوں جانیں بچ جائیں گی‘
پوری دنیا کی موٹروے ایمبولینسزمیں ایسے سپرے موجودہوتے ہیں جن سے حادثوں کے بعد زخمیوں کا خون روکا جا سکتا ہے‘ ہم نے آج تک یہ بندوبست بھی نہیں کیا‘پوری دنیا میں موٹرویز پر ایمرجنسی ہاسپٹلز ہوتے ہیں‘ہمارے ملک میں ایک بھی نہیں‘ پوری دنیا میں موٹروے کے پلوں پر وارننگ سکرینز لگی ہیں‘ یہ سکرینز حادثوں کے بعد ڈرائیوروں کو سڑک اور ٹریفک کی صورتحال سے مطلع کرتی رہتی ہیں‘ ہم نے آج تک یہ انتظام بھی نہیں کیا‘پوری دنیا میں جائے حادثہ سے کم از کم دس کلو میٹر پیچھے سے وارننگز شروع ہو جاتی ہیں‘
ڈرائیور یہ وارننگز دیکھ کر سپیڈ کم کر دیتے ہیں اور محتاط بھی ہو جاتے ہیں‘ ہمارے پاس آج بھی وارننگز کا یہ سسٹم موجود نہیں‘ ہماری ایک گاڑی ٹکراتی ہے اور پھر پیچھے گاڑیوں کی لائین لگ جاتی ہے‘پوری دنیا میں سردیوں میں موٹرویز پر سفر سے پہلے ونٹر ٹائر اور فوگ لائیٹس ضروری ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ ٹائر ملتے ہیں اور نہ ہی گاڑیوں پر فوگ لائیٹس لگتی ہیں‘ دنیا میں ونٹر ٹائرز کےلئے بے شمارسستی ٹیکنالوجیز بھی آ چکی ہیں‘ ٹائرز کی ایسی جھلیاں ایجاد ہو چکی ہیں آپ جنہیں ٹائر کے اوپر چڑھا دیں تو آپ کی گاڑی حادثے سے محفوظ ہو جاتی ہے‘ ہم نے یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں کیوں متعارف نہیں کرائی؟
ہم سموگ کے شکار ممالک میں بھی شامل ہیں‘ ہم نے آج تک ملک کی ہر گاڑی میں فوگ لائیٹس ضروری قرار کیوں نہیں دیں؟ پوری دنیا میں رواں سڑک پر کوئی شخص کون نہیں رکھتا‘یہ کام گاڑیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے‘ آپ یو ٹیوب پر چلے جائیں‘ آپ کو کونز رکھنے اور اٹھانے کے درجنوں طریقے مل جائیں گے‘ ہم موٹر وے پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ مشین لگائیں‘ یہ مشین کون اٹھائے بھی اور لگائے بھی لیکن ہم نے آج تک یہ بھی نہیں کیا‘ دنیا میں اب ایسی ٹارچز اور لائیٹس بھی آ چکی ہیں جو فوری طور پر جائے حادثہ پر لگا دی جاتی ہیں اورپچھلی گاڑیوں کوحادثے کی اطلاع ہو جاتی ہے‘
ہم یہ لائیٹس کیوں امپورٹ نہیں کرتے یا کیوں نہیں بناتے؟دنیا بھر کی ہائی ویز پولیس نے اپنی لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں‘ یہ لوگ اپنی ضرورت کی اشیاءاپنی لیبارٹریوں میں ایجاد کرا لیتے ہیں یا بنوا لیتے ہیں‘ ہم بھی ملک کی تین بڑی انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر ایسی لیبارٹریاں بنا لیتے! یہ لیبارٹریاں ہائی وے پولیس کےلئے چھوٹی چھوٹی کارآمد چیزیں ایجاد کرتیں اور آخری بات محمد سعید کا واقعہ ثابت کرتا ہے ہماری موٹروے پولیس کو خود بھی روڈ اور اپنی سیفٹی کا علم نہیں‘
آپ اندازہ کیجئے محمد سعید کے سامنے گاڑیاں ٹکرا رہی تھیں اور اس نے سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر کونز رکھنا شروع کر دیں‘ یہ کہاں کی عقل مندی تھی؟محمد سعید کا یہ قدم ثابت کرتا ہے موٹر وے پولیس کی ٹریننگ انتہائی ناقص اور غیرانسانی ہے۔میری موٹروے پولیس سے درخواست ہے آپ اپنے جوانوں اور افسروں کو ہر قسم کی صورتحال میں اپنی اور دوسروں کی جان بچانے کی ٹریننگ دیں‘ آپ کم ازکم فولڈنگ راڈز ہی بنوالیں‘آپ راڈز پر چمکدار پینٹ کرائیں اور یہ راڈز پولیس کی گاڑیوں کے اندر رکھوادیں‘
آپ گاڑیوں میں پیلی اور سرخ رنگ کی ٹیوب لائیٹس بھی رکھوا دیں‘ حادثے کے بعد محمد سعید جیسے افسر ٹیوب لائیٹس آن کردیں ‘ یہ لائیٹس جل بجھ کر پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کو خطرے کا اشارہ کریں اور آفیسرز ان راڈز کے ذریعے کنارے پر کھڑے ہو کر کونز سڑک پر رکھتے چلے جائیں‘ اس سے محمد سعید جیسے فرض شناس افسروں کی جان بھی بچ جائے گی اور لوگ بھی حادثوں سے محفوظ رہیں گے۔مجھے ایک بار مشرقی یورپ میں دلچسپ تجربہ ہوا‘ برف باری کے دوران حادثہ ہوا‘ پولیس کی گاڑیاں آئیں اور یہ سڑک پر ایک پاﺅڈر سا چھڑکتی ہوئیں جائے حادثے کی طرف نکل گئیں‘
میں نے دیکھا جو بھی گاڑی پاﺅڈر کے اوپر سے گزرتی تھی‘ اس کے ٹائروں سے چنگاریاں نکلنے لگتی تھیں اور وہ ڈبل انڈیکیٹر لگا کر اپنی سپیڈ کم کر لیتی تھی‘ مجھے میزبان نے بتایا یہ کیمیکل یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے بنایا تھا‘ ہائی وے پر اگر رات‘ بارش یا دھند میں حادثہ ہو جائے تو پولیس کی گاڑیاں حادثے سے دس کلو میٹر پیچھے سڑک پر یہ کیمیکل چھڑک دیتی ہیں‘ کیمیکل کی مقدار جائے حادثہ کے قریب پہنچ کر بڑھ جاتی ہے‘ گاڑیاں اس کیمیکل کے اوپر سے گزرتی ہیں تو سڑک پر چنگاریاں سی نظر آتی ہیں اور یوں ڈرائیور محتاط ہو جاتے ہیں‘
میں حیران ہو گیا‘میں نے یورپ کے اکثر ملکوں میں پولیس کو برف باری کے دوران سڑکوں کے کناروں پر برف پر پیلا اور سرخ رنگ پھینکتے بھی دیکھا ‘ یہ رنگ بھی حادثے اور احتیاط کا اشارہ ہوتا ہے‘ ہم یہ کیوں نہیں کر سکتے‘ کیا ہم فکری لحاظ سے بانجھ ہیں اور کیا ہمارے ذہنوں میں نئے نئے آئیڈیاز نہیں آ تے؟ میرا خیال ہے ہم نے نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کی بجائے ایک آسان راستہ چن لیا ہے اور وہ راستہ ہے شہید‘ ہم غفلت اور ریاستی نالائقیوں کے شکار لوگوں کو شہید ڈکلیئر کرتے ہیں‘
انہیں اللہ کی مرضی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں‘ لواحقین کےلئے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہیں اورپھر کسی اگلے شہید کا انتظار شروع کر دیتے ہیں ‘ہم سسٹم امپروو نہیں کرتے‘ہم لوگوں کو ٹرینڈ نہیں کرتے اور یہ ہماری قومی پالیسی ہے‘ لوگ مرتے رہیں اور ہم انہیں شہید بناتے رہیں‘ ہم نے کبھی سوچا یہ ملک آخر مزید کتنے شہدا ءکا بوجھ اٹھائے گا‘ آخر کب تک یہ مذاق ہوتا رہے گا اور ہم کب تک لوگوں کو شہید بنا بنا کر گزارہ کرتے رہیں گے‘ ہمیں بالآخر سوچنا ہوگا۔