جھنگ کا ایک جانگلی بیمار ہو گیا‘ موت کے آثار نظر آنے لگے تو اس نے دعا کی ”یا اللہ اگر موت دینی ہے تو پھر مجھے مکہ میں دو“وہ حسن اتفاق سے دعا کے بعد صحت یاب ہو گیا‘ وقت گزرا تو وہ بیماری اور یہ دعا دونوں بھول گیا‘وہ دس پندرہ برس بعد عمرے کےلئے سعودی عرب گیا‘ مکہ جا کر اس کی طبیعت خراب ہو گئی‘ وہ جوں جوں دوا لیتا اور ڈاکٹر بدلتا رہا‘ اس کی طبیعت مزید خراب ہو تی رہی یہاں تک کہ وہ بستر سے لگ گیا‘ اس کو لیٹے لیٹے اچانک جھنگ کی پرانی بیماری اور اپنی دعا یاد آ گئی‘ وہ ڈر گیا‘ اٹھ کربیٹھا اور خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے بولا ”اللہ سائیں میں تاں مر ویساں‘ پر یاد رکھیں ول جھنگ توں کوئی مکہ نہ آسی“(یا اللہ میں تو مر جاﺅں گا لیکن یہ یاد رکھنا میرے بعد جھنگ سے کوئی شخص مکہ نہیں آئے گا)۔
آپ کو جھنگ کے اس جانگلی کے لطیفے میں تین سبق ملیں گے‘ اول‘ ہم دعا مکہ کی کرتے ہیں لیکن مکے میں مرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے‘ دوم اگر لوگ مکہ میں بھی مرنا شروع ہو جائیں تو یہ وہاں بھی نہیں جائیں گے اور سوم سروائیول یعنی زندہ رہنے کی خواہش انسان کی سب سے بڑی جبلت ہے اور انسان کسی قیمت پر‘ کسی بھی جگہ یہ جبلت سرینڈر نہیں کرتا‘ہم اگر اس لطیفے اور سروائیول کی اس جبلت کو حقیقت تسلیم کر لیں اوراس کا دائرہ ذرا سا بڑھا لیں تو پھر فیملی اور بزنس بھی اس میں شامل ہو جائے گا اور یہ دائرہ ہمیں بتائے گا‘ ہم میں سے کوئی اپنے آپ‘ اپنے خاندان اور اپنے کاروبار کو جوکھم میں ڈالنا پسند نہیں کرتا‘آپ اپنے آپ سے پوچھئے ‘کیا ہم مرنے کےلئے تیار ہیں‘ کیا ہم آسانی سے اپنے خاندان کو مصیبتوں میں رکھنے کےلئے تیار ہو جائیں گے اور کیا ہم چاہیں گے ہم جو کچھ کما رہے ہیں یا ہم نے دن رات ایک کر کے جو کچھ کمایا وہ کسی سرکاری حکم کے نتیجے میں ایک رات میں ختم ہو جائے؟ ہم میں شاید ہی کوئی شخص اس کےلئے راضی ہو گا‘یہ حقیقت ہے ہم سب زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اپنے آپ اور اپنے خاندان کو محفوظ بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم اپنے عہدے‘ عزت‘ بزنس اور کمائی کو بھی سکیور رکھنا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا بحیثیت پاکستانی ہم یہ حق دوسروں کودینے کےلئے بھی تیار ہیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے‘
آپ کسی دن ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے آپ سے یہ مشکل سوال پوچھیں ‘میرا دعویٰ ہے آپ یہ ماننے پر مجبور ہوجائیں گے ہم بحیثیت قوم اینٹی پراگریس‘ اینٹی ڈویلپمنٹ اور اینٹی بزنس ہیں‘ آپ آج ملک میں نئی بندرگاہ‘ نئی موٹروے‘ نئی ٹرین‘ نیا ائیرپورٹ اور غریب اور یتیم بچوں کےلئے دانش سکول جیسا کوئی نیا ایجوکیشنل سسٹم بنانے کا اعلان کر دیں پورا ملک آپ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا اور آپ اگر اس مخالفت کے باوجودیہ کام کر جائیں گے یا آپ اپنا منصوبہ مکمل کر لیں گے تو آپ کو میاں شہباز شریف کی طرح باقی زندگی وکیلوں‘ عدالتوں اور جیلوں میں گزارنی پڑے گی‘
آپ نے پاکستان میںاکثر سنا ہوگا فلاں دس سال پہلے موٹر سائیکل پر تھا‘ یہ آج دس دس لینڈ کروزرز کا مالک ہے‘ یہ حرام کا مال کہاں سے آیا وغیرہ وغیرہ یعنی ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے ہمارے ملک میں جو شخص موٹر سائیکل سے آگے جائے گا وہ کرپٹ ہو گا‘ ہم اگر اس فارمولے کو درست مان لیں تو پھر دس بائی گیارہ فٹ کے دفتر میں مائیکرو سافٹ کی بنیاد رکھنے والے بل گیٹس اور گھر کے گیراج میں ایپل کمپنی کا دفتر کھولنے والے سٹیوجابز کو پھانسی ہو جانی چاہیے تھی‘
آج امریکا میں ایسے ساڑھے تین سوارب پتی ہیں جن کے پاس جوانی میںبس کا کرایہ بھی نہیں تھا لیکن یہ آج درجن درجن پرائیویٹ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے مالک ہیں‘ آج پورا امریکا ان لوگوں کو سلیوٹ کرتا ہے‘ان پر فخر کرتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ امریکا اور امریکیوں دونوں کےلئے انسپریشن ہیں‘ ان کو دیکھ کر ہر امریکی نوجوان یہ سمجھتا ہے میں بھی بل گیٹس اور سٹیوجابز بن سکتا ہوں لیکن ہم نے اپنے معاشرے میں ترقی کو جرم بنا دیا ہے‘ ہمارے ملک میں کچھ نہ کرنے والے معزز ہیں اور محنت کر کے اوپر آنے والے چور ہیں‘ کیوں!آخر کیوں؟
دنیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے ملک میں کاروبار کےلئے لمبی چوڑی مراعات دیتی ہے‘ یہ انہیں مفت زمین‘ قرضے اور اپنی رقم واپس نکال لے جانے کی سہولتیں تک دیتی ہے لیکن ہمارے ملک میں مقدر کا مارا جو بھی آ جاتا ہے ہم اسے عبرت کی نشانی بنا دیتے ہیں‘ آپ کسی دن پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں ‘آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ان کا آدھے سے زیادہ سٹاف سیکورٹی گارڈز اور وکلاءپر مشتمل ہے اور یہ لوگ کام کی بجائے عدالتوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں‘
ملک میں کام کرنے والی تین بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وقت ناک رگڑ رہی ہیں‘ یہ چور ثابت ہو رہی ہیں‘ کراچی میں میرے ایک دوست تھے جاوید اکھائی‘ یہ پاکستان کے پہلے بزنس مین تھے جنہوں نے ادویات سازی کی تین ملٹی نیشنل کمپنیاں خریدیں‘ یہ اربوں روپے کا کاروبار کرتے تھے لیکن پھر انہیں ایک نوٹس آیا اور وہ یہ نوٹس لے کر اسلام آباد میں پھرتے رہے‘ وہ پھرتے پھرتے پچھلے ماہ انتقال کر گئے‘ مجھے یقین ہے نوٹس پر کارروائی آج بھی جاری ہو گی اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ تینوں کمپنیاں بند نہیں ہو جاتیں‘
آپ میاں شہباز شریف کی مثال بھی لے لیجئے‘ نیب نے انہیں 60 دن حراست میں رکھا‘ یہ 60 دنوں میں ان کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا‘آپ مزید آگے چلئے‘ احد چیمہ 10ماہ اور فواد حسن فواد پانچ ماہ سے نیب کی حراست میں ہیں‘ یہ ان کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں لا سکا‘ نیب کورٹ نے107سماعتوں کے بعد 6 جولائی 2018ءکو میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کوسزا سنا ئی‘ یہ تینوں جیل پہنچ گئے لیکن 19ستمبرکو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کورٹ کے فیصلے پر چند سوال اٹھائے اور یہ تینوں اس وقت گھر بیٹھے ہیں‘
بحریہ ٹاﺅن ایشیا کی سب سے بڑی ہاﺅسنگ سکیم اور ملک ریاض پاکستان کا سب سے بڑا جاب پرووائیڈر ہے لیکن ملک میں اس وقت اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بحریہ ٹاﺅن زمین پر لیٹ کر سسک رہا ہے اور لاکھوں لوگ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی برباد ہوتے دیکھ کر بیمار ہو رہے ہیں‘ یہ مثالیں کیا ثابت کرتی ہیں؟ یہ ثابت کرتی ہیں ہماری نظر میں ہمارے ملک میں ترقی کرنے‘ ملک کو ترقی دینے اور لوگوں کےلئے روزگار کا بندوبست کرنے والے تمام لوگ چورہوتے ہیں‘
کیا یہ ملک حقیقتاً چوروں کا ملک ہے؟ اگر بزنس مین چور ہیں‘ صنعت کار اور زمین دار چور ہیں‘ اگر بیورو کریٹس اور سیاستدان چور ہیں‘ اگر ملک میں سرمایہ لانے والے بھی چور ہیں اور ملک سے سرمایہ باہر لے جانے والے بھی چور ہیں‘ اگر کام کرنے والے بھی چور ہیں‘اگر ترقی کرنے والے بھی چور ہیں اور اگر ڈیلیور اور پرفارم کرنے والے بھی چور ہیں تو پھراس ملک میں ایماندار کون ہے؟ سچا اور کھرا کون ہے! کیا ہم اس ملک کو نکمے اور ناکام لوگوں کا ملک بنانا چاہتے ہیں؟
اگر ہاں تو پھر مہربانی فرما کر ترقی‘ کامیابی اور پرفارمنس اس ملک میں ان تینوں لفظوں پر پابندی لگا دیں تاکہ یہ کنفیوژن ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائے اور ہم میں سے کوئی شخص پراگریس‘ ڈویلپمنٹ اور بزنس کی غلطی نہ کرے۔حکومت کسی دن مالم جبہ کی مثال کاتجزیہ بھی کر لے‘ مالم جبہ میں کیا ہوا؟ مالم جبہ میں لاکھوں ایکڑ زمین بے کار پڑی تھی‘ پرویز خٹک کے دور میں 275 ایکڑ زمین ہوٹل اور ریزارٹ کےلئے لیز کر دی گئی‘ یہ لیز آگے چل کر جرم بن گئی اور آج پرویز خٹک‘ محمود خان‘ عاطف خان اور سینیٹر محسن عزیز نیب کا مقدمہ بھگت رہے ہیں‘
گویا زمین بے کار پڑی رہے تو ٹھیک ہے‘ اسے اگرکوئی کارآمد بنانے کی غلطی کر بیٹھے تویہ جرم ہو جائے گا‘ میاں شہبازشریف اور ملک ریاض بھی اسی اپروچ کی سزا بھگت رہے ہیں‘یہ کچھ نہ کرتے تو یہ آج باقی وزراءاعلیٰ کی طرح عزت کے ساتھ گھر میں بیٹھے ہوتے‘ یہ کچھ کربیٹھے ہیں چنانچہ یہ سزا بھگت رہے ہیں‘ میری درخواست ہے ملک کے تمام مقتدر ادارے کسی دن اکٹھے بیٹھیں اور ملک میں ترقی‘ کام اور ڈیلیوری تینوں پر پابندی لگا دیں‘
یہ فیصلہ کر دیں ملک میں موٹر سائیکل سوار موٹر سائیکل‘ سوزوکی کار کا مالک سوزوکی ایف ایکس‘ ٹھیکیدار ٹھیکیداری اور دکاندار دکانداری سے اوپر نہیں جائے گا‘ملک میں کوئی ترقی نہیں کرے گا اور یہ فیصلہ بھی کر دیں ہاﺅسنگ سوسائٹی صرف وہ چلے گی جو عوام سے رقم وصول کرے گی لیکن انہیں پلاٹ نہیں دے گی‘ جو کبھی مکمل نہیں ہو گی اور جو ملٹی نیشنل کمپنی پاکستان آئے گی ہم کسی بھی وقت اس کا پورا کاروبار ضبط کر لیں گے اور ملک میں جس کے خلاف ایک بار کیس کھل گیا وہ کیس اس کے مرنے کے بعد بھی کھلا رہے گا اور جو حکومت میں رہتے ہوئے کام کرنے کی غلطی کر ے گاوہ باقی زندگی عدالتوں اور جیلوں میں گزارے گا‘
ہم ایک ہی بار یہ فیصلہ کر دیںتاکہ کم از کم روز روز کی بک بک سے تو جان چھوٹے‘ ترقی اور کام کے خواہش مند لوگ جہاں جانا چاہیں وہ جائیں‘ روز کا مرنا اور روز کا جینا تو ختم ہو اور آپ میں اگر اس فیصلے کی ہمت نہیں تو پھر آپ مہربانی فرما کر یہ ملک ترقی‘ پرفارمنس اور کامیابی کےلئے کھول دیں‘ لوگوں کو کام کرنے دیںاور کام کرنے والوں کو عزت دیں ورنہ یقین کریں ہم نے اگر یہ پھڑلو پھڑلو بند نہ کی تو کام کرنے والے دو چار سو یہ لوگ ٹینشن سے مر جائیں گے لیکن ”ول فیر جھنگ توں کوئی نہ آسی“ آپ کو پورے ملک میں کام کرنے والا کوئی شخص نہیں ملے گا‘ جو چلے گئے‘ وہ واپس نہیں آئیںگے اور جو آ گئے وہ بھی چلے جائیں گے اور ہمارے پاس ”ہم زندہ قوم ہیں“کے ترانے بجانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا۔