قیروان تیونس کا تاریخی شہر ہے‘ یہ شہر حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں حضرت عقبہ بن نافع ؓ(ان کے صحابی ہونے پر اختلاف پایا جاتاہے) نے 670ءمیں تعمیر کیا‘ عقبہ بن نافعؓ المغرب (شمالی افریقہ کے ممالک)کی فتح کےلئے نکلے تھے‘ یہ ایک ایسی فوجی چھاﺅنی چاہتے تھے جو افریقہ میں آگے طنجہ اور پیچھے دمشق سے رابطے میں رہے‘ یہ جگہ پسند آئی اور آپ نے یہاں مضبوط قلعہ اور شہر تعمیر کرا دیا‘ قیروان عربی کے قرآن اور فارسی کے کارواں کا مجموعہ تھا‘ یہ شہر بعد ازاں اسلامی دنیا کا علمی مرکز بن گیا‘
پوری دنیا سے تاجر‘ علمائ‘ فقہائ‘ مورخ‘ محدث‘ آرکی ٹیکٹس اور جرنیل یہاں آئے اور آباد ہوتے چلے گئے‘آپ کو آج افریقہ‘ مراکش اور اندلس کی مسجدوں کا آرکی ٹیکچرحیران کر دیتا ہے‘ اس آرکی ٹیکچر نے قیروان میں جنم لیا تھا‘ آپ اگر سیویا‘ قرطبہ اور غرناطہ کے محلات اور مسجدوں کو ماضی میں ٹریک کرنا شروع کریں تو آپ کو مسجدوں کے مینار‘ محلوں کے فوارے‘ باغات اور ٹائلیں‘ شہر کی پتھریلی گلیاں اور مراکشی سٹائل کے گھر سیدھے قیروان لے آئیں گے‘ یہ شہر مراکو اور اندلسی طرز تعمیر کی ماں تھا‘ قیرواں کے لوگ غرور سے کہا کرتے تھے ہمارے شہر کے سات پھیرے (نعوذ باللہ)مکہ اور مدینہ کی زیارت کے برابر ہیں‘ یہ غرور بعد ازاں اس شہر کو لے ڈوبا‘ نویں صدی میں طاعون پھیلا اور قیروان سمیت تیونس کے زیادہ تر شہر ویران ہو گئے‘ لوگ تیزی سے نقل مکانی کرنے لگے‘ ہجرت کرنے والے ان لوگوں میں قیروان کے تاجر محمد الفیری بھی شامل تھے‘ یہ اپنی ساری دولت کے ساتھ قیروان سے مراکش کے شہر فیض (فاس) منتقل ہو گئے‘ فیض اس دور کا شاندار اور تاریخی شہر تھا‘ یہ آج بھی دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ محمد الفیری فیض میں آباد ہو گئے‘ ان کی صرف دو صاحبزادیاں تھیں‘ فاطمہ الفیری اور مریم الفیری‘ محمد الفیری کا انتقال ہوا تو دونوں صاحبزادیوں کو وسیع جائیداد اور دولت ملی‘ بیٹیاں دین دار تھیں چنانچہ انہوں نے والد کی دولت کو فلاح عامہ کےلئے وقف کردیا‘ مریم نے فیض شہر میں خوبصورت مسجد بنائی جبکہ فاطمہ نے مدرسہ اور مسجد دونوں تعمیر کرائیں‘
فاطمہ کا مدرسہ چند برسوں میں دنیا کی قدیم ترین یوینورسٹی بن گیا‘ یہ یونیورسٹی آج بھی قائم ہے اور یہ جامعہ القیروان کہلاتی ہے‘ یہ 859ءمیں قائم ہوئی تھی‘ یونیورسٹی کے تمام طالب علم عربی جبہ (جلابا) پہنتے اور سر پر ٹوپی رکھتے تھے اور یونیورسٹی فارغ ہونے والے طالب علموں کو سند جاری کرتی تھی‘ یہ تینوں روایات بعد ازاں گاﺅن‘ کیپ اور ڈگری میں تبدیل ہوئیں اور پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں رائج ہوئیں‘ جامعہ الازہر دنیا کی دوسری یونیورسٹی تھی‘ یہ یونیورسٹی فاطمی خلیفہ المعدالمعزالدین اللہ نے 972ءمیں جامعہ القیروان سے متاثر ہو کر بنائی تھی‘ دنیا میں چیئر کا تصور جامعہ الازہر سے شروع ہوا تھا‘
الازہر میں اساتذہ کو کرسی پر بٹھایا جاتا تھا جبکہ طالب علم کرسی کے گرد حلقہ بنا کر زمین پر بیٹھتے تھے‘یہ روایت بعد ازاں چیئرمیں تبدیل ہوئی اور اب دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں مختلف مشاہیر کے نام پر چیئرز ہیں‘ ابن خلدون‘ ابن رشد‘ الدریسی‘ ابو عمر ان الفاسی اور ابن بطوطہ جیسے لوگ جامعہ القیروان سے منسلک رہے‘ فاطمہ الفیری اور مریم الفیری کی مساجد بھی آج تک قائم ہیں‘عبدالرحمن اول نے 784ءمیں قرطبہ مسجد ان مساجد سے متاثر ہو کر بنائی تھی‘ آپ کو اسی لئے جامع القیروان اور مسجد قرطبہ دونوں کے آرکی ٹیکچر میں مماثلت ملے گی۔
میں 13 نومبر 2018ءکو طنجہ سے فیض پہنچا‘ دونوں شہر چار گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہیں‘ فیض آنے کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ قیروان یونیورسٹی تھی‘ دوسری وجہ قدیم شہر مدینہ تھا‘ یہ دنیا کا طویل ترین قدیم شہر ہے‘ یونیسکو نے اسے عالمی اثاثہ ڈکلیئر کر رکھا ہے‘ قدیم علاقے میں تین لاکھ لوگ رہتے ہیں‘ گلیوں کی مجموعی طوالت 9 ہزار چار سو کلو میٹر بنتی ہے‘ گلیوں کے اندر تین سو قدیم مسجدیں‘ تین سو حمام‘ تین سو فوارے‘تین سو سرکاری تنور‘ دو سو مدارس اور دو سو دس محلے ہیں‘
جیولری کو جیو (یہودی) کی وجہ سے جیولری کہا جاتا ہے‘ یہودیوں نے جیولری کا کاروبار بھی فیض سے شروع کیا تھا اور زیورات جیوز کی وجہ سے جیولری بنے‘ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی قبرستان بھی فیض میں ہے‘ فیض میں دس لاکھ قبریں ہیں اور یہ قبریں بارہ سو سال سے موجود ہیں اورتیسری وجہ اندلس کا آخری بادشاہ ابوعبداللہ محمد تھا‘ وہ غرناطہ کے سقوط کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ فیض آ گیا تھا‘ زندگی کا آخری حصہ کسمپرسی میں فیض میں گزارہ اور پھر اپنی نسل کو زکوٰة اور صدقات کے حوالے کر کے چپ چاپ انتقال کر گیا اور میں اس کی قبر پر پہنچنا چاہتا تھا‘
ہم فیض پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا‘ ہوٹل قدیم شہر (مدینہ) کے قریب لیا‘ صبح گائیڈ کے ساتھ فیض میں دفن تاریخ کی تلاش میں نکل کھڑئے ہوئے‘ آغاز فیض کے محل سے ہوا‘ یہ محل نویں صدی میں بنا اور یہ دنیا کا قدیم ترین زیر استعمال محل ہے‘ عربی میں گینتی کو فیض یا فاس کہا جاتا ہے‘ شہر کی بنیاد ادریس دوئم نے 808ءمیں زمین پر گینتی مار کر رکھی چنانچہ یہ فاس یا فیض ہو گیا‘ زمین آتش فشانی اور مٹی دو رنگوں کی تھی‘ سرخ اور سیاہ‘ سرخ مٹی سے برتن بننے لگے اور سیاہ مٹی سے اینٹیں اور ٹائلیں‘ یہ دونوں فن فیض سے نکلے اور افریقہ‘ مڈل ایسٹ‘ سنٹرل ایشیا اور ہندوستان پہنچ گئے‘
شہر کو دو دریا اور 30 ندیاں سیراب کرتی ہیں‘ فصیل پندرہ کلو میٹر طویل تھی‘ شہر میں داخلے کے 14 دروازے تھے‘ قبریں فصیل سے باہر شہر کی دونوں اطراف پہاڑوں پر ہیں‘ آپ اگر پہاڑ پر کھڑے ہو کر شہر کی طرف دیکھیں تو سفید قبریں آف وائیٹ گھروں کے ساتھ مل کر آپ کو ماضی میں لے جاتی ہیں‘ فیض کا قلعہ پہاڑوں پر قدیم شہر کے باہر تھا‘ گلیاں تنگ اور گھر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ بارہ سو سال پرانی بیکریاں‘ ریستوران اور قہوہ خانے بھی موجود ہیں‘
میں ایک گلی میں داخل ہوا تو میں دعویٰ کرنے پر مجبور ہو گیا یہ دنیا کی تنگ ترین گلی ہو گی‘ گائیڈ نے تصدیق کر دی‘ گلی سے ایک وقت میں صرف ایک شخص گزر سکتا تھا‘ مریم مسجد اپنی بارہ سو سال کی تاریخ کے ساتھ موجود تھی‘ مینار کچی مٹی اور لکڑی کے ساتھ بنایا گیا تھا‘ ہال کے اندر مٹی‘ لکڑی اور گئے‘ بیتے اور برسے سالوں کی خوشبو تھی‘ قیروان یونیورسٹی اور قیروان مسجد دونوں لائف ٹائم تجربہ تھیں‘ یونیورسٹی کے لیکچر تھیٹروں اور لائبریری میں کلاسیں ہو رہی تھیں‘
محلے میں طالب علموں کے ہاسٹل تھے‘ اندر ایک تقدس‘ ایک پاکیزگی تھی جبکہ مسجد کے 14 دروازے 14 مختلف محلوں میں کھلتے تھے‘ یہ تمام دروازے جمعہ کے دن کھول دیئے جاتے ہیں جس کے بعد 25 ہزار لوگ 12 سو سال پرانی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں‘ دن کے وقت دو دروازے کھلے رہتے ہیں جبکہ نماز کے اوقات میں خواتین کےلئے تیسرا دروازہ کھول دیا جاتا ہے‘ خواتین مردوں کے پیچھے نماز ادا کرتی ہیں‘ جامع القیروان مسجد قرطبہ کی بڑی بہن محسوس ہوتی ہے‘
وہی ستون در ستون اور ان ستونوں پر صندل کی لکڑی کی چھتیں اور چھتوں پر باریک اندلسی نقاشی‘ دیواروں پر سفید سنگ مر مر اور اس سنگ مر مر میں نقش نگار اور ان نقش ونگار میں چھپی قرآنی آیات اور آخر میں مسجد قرطبہ جیسا صحن اور اس صحن میں فوارے اور وضو خانے‘ جامع القیروان حقیقتاً لائف ٹائم تجربہ تھا۔فیض کے مدینہ میں افریقہ کی قدیم ترین ٹینری بھی تھی‘ یہ چمڑہ رنگنے کا قدیم ترین کارخانہ ہے‘ کارخانہ گیارہویں صدی میں قائم ہوا تھا اور یہ نوسو سال بعد بھی چالو ہے‘
دنیا جہاں سے سیاح یہاں آتے ہیں اور چھتوں پر چڑھ کر چمڑہ رنگنے کا عمل دیکھتے ہیں‘ میں نے بھی یہ عمل دیکھا‘ میرے سامنے زمین پر درجنوں بڑے سائز کے تنورتھے اور ان تنوروں میں لوگ کھڑے ہو کر چمڑہ رنگ رہے تھے‘ گائیڈ نے بتایا چمڑے کےلئے قدرتی رنگ استعمال کئے جاتے ہیں‘ وہاں ناقابل برداشت بو تھی‘ میں احمد تجانی اور ابن خلدون کے گھروں میں بھی گیا‘ حضرت احمد تجانی نے افریقہ میں اسلام پھیلایا تھا‘ وہ فیض میں مدفون ہیں‘ مقبرہ مسجد کے صحن میں ہے جبکہ ان کے گھر میں اب قالین کی دکان بن چکی ہے‘
ابن خلدون کا مکان بھی کارپٹ شاپ میں تبدیل ہو چکا ہے‘ یہ دونوں مکانات وسیع اور تین منزلہ تھے‘ گائیڈ نے بتایا حکومت نے فیض میں ایسے درجنوں مکان بنا رکھے تھے‘ یہ مکانات فیض آنے والے علماءکرام کو دے دیئے جاتے تھے‘ وہ لوگ جب تک دل چاہتا تھا یہاں رہتے تھے اور حکومت ان کے جانے کے بعد مکان کسی دوسرے عالم کو الاٹ کر دیتی تھی‘ ابن خلدون کا مکان حضرت احمد تجانی جیسا تھا‘ یہ دونوں بزرگ گرمیوں میں نچلی منزل پر منتقل ہو جاتے تھے اور سردیوں میں بالائی منزل پر چلے جاتے تھے‘
چھتوں پر بھی بیٹھنے کی جگہ موجود تھی‘ چھت سے پورے شہر کا نظارہ ہوتا تھا‘ ابن خلدون نے اپنی معرکة الآراءکتاب تاریخ ابن خلدون فیض کے اس مکان میں لکھنا شروع کی تھی‘ وہ جامعہ القیروان میں پڑھاتا بھی تھا‘ ابن خلدون ایک انتہائی دلچسپ کردار تھا‘ وہ بلا کا سازشی‘ چاپلوس‘ بادشاہوں کا کاسہ لیس‘ بے وفا اور مفاد پرست تھا‘ اس نے زندگی کا آدھا حصہ درباروں تک رسائی اورآدھا حصہ جیلوں اور نقل مکانیوں میں گزار دیاجبکہ دوسری طرف وہ بے انتہا ذہین‘ عالم اور ناقابل تردید مورخ تھا‘
اس نے تاریخ ابن خلدون اور اس تاریخ کا مقدمہ لکھ کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا چنانچہ دنیا میں جب تک تاریخ اور علم دونوں موجود ہیں ابن خلدون بھی اس وقت تک زندہ رہے گا‘ دنیا کا کوئی شخص اسے علم و ادب سے خارج نہیں کر سکے گا۔میں ابن خلدون کے گھر سے نکلا اور دنیا کی دوسری بڑی اسلامی ٹریجڈی کے آخری کردار ابوعبداللہ محمد کے قدموں کے آخری نشانوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔